کورونا کی آفت نے دنیا بھر میں معیشت کو جو نقصا ن
پہنچایا ہے اسے وباء کے ختم ہوجانے کے بعد بھی طویل عرصے تک محسوس کیا جائے
گا۔ سال 2020 کی پہلی سہ ماہی عالمی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی،
کورونا وائرس کے خوف سے لوگ کے گھروں میں بند ہوجانے سے آمدو رفت رک گئی ۔
صنعتیں بند کرنی پڑیں۔ اس سے بجلی کی طلب میں زبردست کمی واقع ہوئی اور
نتیجتاً خام تیل کی کھپت کم ہوگئی ۔ معدنی تیل کے بازار میں اس کا یہ اثر
ہوا کہ قیمت 66 فیصد سے زائد گر گئی۔اسٹاک مارکیٹوں میں شئیرز کی مجموعی
مالیت کھربوں ڈالر کم ہو گئی۔امریکی اسٹاک مارکیٹ کے لیے سال کی پہلی سہ
ماہی 1987 کے بعد بدترین ثابت ہوئی۔ ڈاؤ جونز انڈیکس میں 23 فیصد سے زیادہ
کی مندی ریکارڈ کی گئی۔ یورپی اسٹاک مارکیٹوں میں 29 فیصد تک کی کمی آئی ۔
ایشیا پیسفک ریجن کی اسٹاک مارکیٹوں کے انڈیکس میں 24 فیصد تک کمی دیکھی
گئی، ایک رپورٹ کے مطابق صرف مارچ کے دوران عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں شئیرز
کی مالیت میں مجموعی طور پر 8 کھرب ڈالر کی کمی ہوئی۔ اس لیے یہ ماننا پڑے
گا کہ کورونا وائرس نے سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران عالمی معیشت کو بھی
بہت بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے۔
کورونا وائرس کی امریکہ میں آمد سے ہی حصص بازار ٹوٹنے پھوٹنے لگا ۔
امریکہ کے اندر ابتدائی دنوں میں ہی بڑی صنعتوں کے شیئرس میں اوسطاً 32
فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ روزمرہ کے گھریلو اشیاء فراہم کرنے والے کاروبار
میں یہ کمی سب سے کم 22.4فیصد ہے جبکہ توانائی (بشمول معدنی تیل ) کے شعبے
میں 61.8 فیصد تک کا نقصان ہوا ہے۔ ان بڑی صنعتوں کے علاوہ معاشی پا بندی ،
سماجی فاصلے اور سفر کے معطل ہوجانے کی وجہ سے خسارہ اور بھی زیادہ ہے۔
مثلاً جہازرانی کی کمپنی نوورجین کروز کو 85 فیصد کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس
مطلب یہ ہے جس نے ایک ہزار کی سرمایہ کاری کی تھی اس کی قیمت گھٹ کر ڈیڑھ
سو پر آگئی۔ تیل نکالنے والی اپاچے نے 81 فیصد کا خسارہ اٹھایا ، ہوٹل اور
قمار خانے چلانے والی ایم جی ایم کو73 فیصد کا نقصان ہوا، پرچون کا سامان
بیچنے والی میکی کے شیئر 65 فیصد نیچے اترے اور ہوائی جہاز و اسلحہ کے شعبے
کی بہت بڑی کمپنی بوئنگ کو 71 فیصد کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ان اعدادو شمار سے
یہ دکھانا مقصود ہے کہ اس وباء نے معیشت کے کسی ایک مخصوص شعبے کو نہیں
بلکہ تمام ہی تجارتی اداروں کو متاثر کردیا ۔
یکم اپریل کو عالمی بینک نے متنبہ کیا ہے کہ کورونا سے مشرقی ایشیا اور بحر
الکاہل کے ساتھ ساتھ چین جیسی ترقی پذیر معیشتوں میں کورونا کے سبب تیزی سے
سست رفتاری متوقع ہے۔ ظاہر سی بات ہے اگر چین کی مصنوعات بکیں گی نہیں تو
بنیں گی کیوں؟ اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد غربت کا شکار ہو جائیں گے۔مشرق
بعید اور بحر الکاہل کے عالمی بینک کے چیف آدتیہ متو کا کہنا ہے کہ
’’کورونا وائرس ایک غیر معمولی عالمی صدمے کا سبب بن رہا ہے، جو ترقی کو
روک سکتا ہے اور خطے میں غربت کو بڑھا سکتا ہے۔‘‘۔ ماہرین معاشیات کے مطابق
اس تیزی سے بدلتی صورت حال میں ترقی پذیر معیشتوں کی نمو اس سال کم ہوکر
2.1 فی صد سے 0.5 فی صد تک گر سکتی ہے۔وہ ممالک سب سے زیادہ خطرے سے دوچار
ہیں جو تجارت، سیاحت اور اجناس پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں یا جو بہت
زیادہ مقروض ہیں اور جن کے لیےمستحکم مالی بہاؤ لازمی ہے۔ یہ معاشی صورت
حال غربت میں تقریبا 11 ملین افراد کا اضافہ کرسکتی ہے۔کورونا وائرس کے
منبع چین کی کی شرح نمو ، 2019 میں 6.1٪کے مقابلے 2.3 فیصد سے 0.1 فی صد تک
جاسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے تجارتی جائزے میں بھی رواں سال عالمی معیشت کے کساد بازاری
کا شکار ہونے کی پیشن گوئی کی گئی ہےکیونکہ اب تک کورونا وائرس کے کے سبب
کھربوں ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ کوویڈ 19 کے بحران سے
غیرمعمولی معاشی نقصان کی شکار دنیا کے دو تہائی آبادی والے ترقی پذیر
ممالک کے لیے ڈھائی ٹریلین ڈالر کے حفاظتی پیکیج کا مطالبہ کررہا ہے۔جی
ٹوینٹی ممالک کے حوالے سے یو این سی ٹی اے ڈی نے بتایا ہے کہ دنیا کی ترقی
یافتہ معیشتوں اور چین مل کر ان ممالک کو 5 ٹریلین ڈالر کی مدد دیں گے۔اس
سے معاشی اور ذہنی طور پر کورونا کے بحران سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ اربوں
اور کھربوں کی عالمی آمدنی میں کمی کے سبب اقوام متحدہ کا معاشی ادارہ یو
این سی ٹی اے ڈی اس مدد کے باوجود عالمی معیشت کو کساد بازاری سے بچانے کے
سلسلے میں پر امید نہیں ہے۔ چین اور ہندوستان کساد بازاری سے تو بچ جائیں
گے لیکن انہیں بھی سخت مندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی وجہ ظاہرہے ان کا
داخلی بازار ہوگا۔ ویسےبین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) تو کورونا
وائرس کی تباہی کے سبب عالمی کساد بازاری کا اعلان کرچکا ہے۔
ورلڈ بینک نے کوویڈ۔19 کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیےایک خصوصی دستہ تشکیل دے
رکھا ہے۔ یہ گروپ وسیع پیمانے پر تیز رفتار اقدامات کرنے میں سرگرمِ عمل
ہے۔ کورونا کی وباء سے پہلے بھی عالمی بنک 65 سے زائد ممالک میں صحت کے
کاموں کو آگے بڑھ رہاتھا لیکن اب اس وبائی مرض کے معاشی اور معاشرتی بحالی
کو جلد از جلد ممکن بنانے کے کام میں مصروف عمل ہے۔ اس مقصد کے حصول کی
خاطر ترقی پذیر ممالک کوجو صلاحیت درکار ہے اسے مستحکم بنایا جائے گا۔
عالمی بنک کا قیاس ہے اس قدرتی آفت سے غریب ترین اور انتہائی کمزور ممالک
ممکنہ طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ا س لیے ورلڈ بنک کی مختلف
ٹیمیںپوری دنیا میں موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے کام کررہی ہیں ۔ یہ کام
ملکی سطح پر ہورہی ہےلیکن علاقائی سطح اس کا حل تلاشکیا جارہا ہے۔
عالمی بینک نے کورونا وائرس کے معاشی بحران نمٹنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھاتے
ہوئے دنیا بھرکے 25 ممالک کی خاطر مجموعی طور پر 1.9 بلین ڈالر کے امداد کی
منظوری دی ہے۔ جس میں سے ہندوستان کو سب سے بڑا حصہ یعنی 1 بلین ڈالر
(تقریباً 7،600 کروڑ روپیے) کی ہنگامی مالی امداد منظورکی ہے۔ پاکستان کے
لیے 200 ملین جب کہ سری لنکا کے لیے 129 ملین ڈالر مختص کیے گئے
ہیں۔ہندوستان میں اس ایک بلین امریکی ڈالر سے بہتر اسکریننگ، رابطوں کا پتا
لگانے ذاتی حفاظتی آلات کی خریداری، نئے قرنطینہ وارڈ کا قیام اور
لیبارٹری کی توسیع کا کام کیا جائے گا۔ عالمی بنک کے ذریعہ اگلے 15 ماہ کے
دوران مزید 160 بلین ڈالر تک کی امداد فراہم ہو سکتی ہے۔بینک نے واضح کیا
کہ اس کے وسیع تر معاشی پروگرام کا مقصد جلد صحت یابی اور غریبوں اور
کمزوروں کی حفاظت میں مدد کرنا ہے۔
یوم جمہوریہ کے موقع پر وزیراعظم نے نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے
بڑے طمطراق کے ساتھ ۵ ٹریلین اکونومی کا جو خواب دیکھا تھا اس کو کورونا
وائرس نے پوری طرح چکنا چور کردیا ہے۔ پہلے دو مرحلوں میں یعنی 21دن کی دیش
بندی سے پہلے ہی ہندوستانی شیئر بازار کو ۵۲ لاکھ کروڈ کا خسارہ ہوچکا تھا۔
اس خطیر رقم میں موجود صفر گنتے گنتے عام آدمی تھک جائے گا۔ ای پی ایس میں
اضافہ کی شرح نصف یعنی 20 سے گھٹ کر 10 فیصد ہوگئی ہے۔ عالمی معاشی ادارے
بارکلے کے مطابق لاک ڈاون کے سبب ہندوستان جی ڈی پی کو جملہ 12000 کروڈ
ڈالر ہوگا جو ۴ فیصد ہے۔ اس کے نتیجے میں جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 4.5
فیصد سے گھٹ کر2.5 فیصد پر آجائے گی جبکہ ۵ ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کے
لیے اس کا کم ازکم ۷ فیصد ہونا ضروری ہے۔ یہ دلچسپ حقیقت ہے کورونا کا
زیادہ اثر ان صوبوں میں ہے جہاں جی ڈی پی کا 64 فیصد آتا ہے اور سب سے
زیادہ متاثر مہاراشٹر جو کا حصہ 14فیصد ہے ۔ اس طرح کورونا نے معیشت کا وہ
حال کردیا ہے کہ وزیراعظم ۵ ٹریلین اکونومی کو بھی نوٹ بندی کی مانند پوری
طرح بھول جائیں گے ۔ |