غلطی تو ہوئی ہے

پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تعین کیا جائے تو تین اطراف سے مختلف ممالک اور جنوب کی طرف بحیرہ عرب سے متصل ہے۔یعنی بھارت سے 1600 کلو میٹر،چائنہ سے 600کلو میٹر،افغانستان سے2250کلو میٹر جبکہ ایران سے900 کلومیٹر متصل سرحدیں ہیں۔دنیا کی سیاسی تحریک گواہ ہے کہ اگر کسی بھی ملک کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات دوستانہ اور برابری کی سطح پر قائم ہوں تو دونوں ممالک کو کسی تیسری طاقت سے کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوتا کیونکہ دوستانہ تعلقات کے حامل ممالک کی ایک دوسرے کا ساتھ دے کر عسکری اور سیاسی طاقت دوگنا ہو جاتی ہے۔پاکستان کے ماسوا بھارت کے تقریبا تینوں ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اگر بہت بہتر نہیں تو خراب بھی نہیں ہے،خاص کر ہمسایہ ملک چین کے ساتھ ہماری دوستی کو تو ہمالیہ سے بلند ،سمندر سے گہری قرار دیا جا تا ہے اور مشکل وقت میں چین نے بھی کبھی پاکستان کو مایوس نہیں کیا ہے۔بھارت ہمارا ازلی دشمن سمجھا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی میں کبھی بھی اور کسی بھی پلیٹ فارم پر کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،اگرچہ بہت سے معاملات میں اسے منہ کہ ہی کھانا پڑتی ہے،افغانستان سے ہمارے آجکل تعلقات کافی بہتر ہو چکے ہیں،ایران سے تعلقات میں نشیب و فراز خطہ کی نوعیت اور بین الاقوامی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے تلخ وشیریں ہوتے رہتے ہیں تاہم کبھی ایسی سیاسی وعسکری فضا پیدا نہیں ہوئی کہ ہم ایک دوسرے کے سامنے صف بندی کر کے کھڑے ہو گئے ہوں۔

اس تمہید کا مقصد پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو پیش نہیں کرنا تھا بلکہ قارئین کو زمینی حقائق بتاتے ہوئے ذہن نشین کروانا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں کہ جب دنیا کے 202 ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ایک موذی مرض کرونا کا شکار ہو چکے ہیں اور اس میں کیا غریب،امیر،ترقی پذیر اور ترقی یافتہ سب اس آسیب کی زد میں ہیں۔تو ایسے میں یہ الزام لگانا کہ کیا یہ حکومت وقت کی سوچی سمجھے سازش تھی یا کسی کے اشارے پر ملکی معیشت کو تباہی کے دھانے پر لے جانے کی کوئی بین الاقوامی سکیم کا حصہ۔یہ سب تو قبل از وقت ہی ہوگا کہ دنیا کی سیاسی چالوں اور طاقت میں عدم توازن پیدا کرنے کا کوئی پلان تھا یا چین کی معیشت اور اس کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر رسوخ کو کم کرنے کا کوئی منصوبہ،لیکن مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ جب چین میں یہ وبا پھیلی تو پوری دنیا کی طرح ہم نے بھی چین میں موجود پاکستانیوں کے بارے میں تفتیش کا اظہار کیا اور بقول وزیر اعظم پاکستان اور دیگر سفرا ،مشیران و وزیران کہ ہم نے پوری طرح چین حکومت سے رابطہ رکھا ہوا ہے اور اگر یہ وائرس پاکستان میں آتا ہے تو ہم ہر ایمرجنسی سے نپٹنے کو تیار ہیں۔

مان لیا کہ آپ چین کی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطہ میں تھے،پوری دنیا میں سیلاب کی طرح اس موذی مرض نے پھیلنا بھی شروع کردیا ہوا تھا۔آپ تیار بھی تھے کہ اگر کوئی ایمرجنسی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو ہمیں کیا کرنا ہوگا،لیکن میرا ایس سوال ہے کہ چین کی سرحد جو کہ صرف چھ سو کلومیٹر ہے ،اس کے ساتھ ہمارے تعلقات دوستانہ اور برادرانہ ہیں،بھارت سے کوئی خطرہ نہیں کہ وہاں سے کوئی مریض پاکستان میں اس لئے داخل نہیں ہو سکتا کہ ہمارے تعلقات کی نوعیت ہی ایسی کہ مکمل سرحد بند ہے۔باقی رہ گئے دیگر دو ہمسایہ ملک،افغانستان اور ایران۔تو کیا ان دو ممالک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا،کیا ان دو ممالک کی سرحدوں کے ذریعے روزانہ کی بنیادوں پر لوگوں کا آنا جانا حکومت وقت کے علم میں نہیں تھا۔کیا حکومت نہیں جانتی تھی کہ ایران میں دن بہ دن کرونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور پھر ایران میں زائرین کا سلسلہ تو پورا سال چلتا رہتا ہے۔باقاعدہ وہاں پر بارڈر اور سکیورٹی تعینات ہوتی ہے۔تو ایران سرحد یا یوں کہہ لیں کہ تفتان بارڈر سے زائرین کی نقل وحرکت حکومت وقت کے علم میں کیسے نہیں تھی۔

چلئے مان لیا کہ ایران حکومت نے زائرین کے پاسپورٹ سٹمپ کر کے انہیں تفتان سرحد پر بے یارومددگار چھوڑ رکھا تھا۔وہ کھلے آسمان تلے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور تھے،انہیں کسی قسم کی سہولیات بھی دستیاب نہیں تھیں،ان کا کوئی وہاں پرسانِ حال بھی نہیں تھا یہ سب ایک ایسا شخص تو مان سکتا ہے جس نے کبھی پاکستان سے باہر کا سفر نہیں کیا،لیکن مجھے تو بیس سال ہو گئے ہیں پردیس میں زندگی گزارتے ہوئے اور اس دوران مختلف ممالک میں بھی جانے کا اتفاق ہوتا رہا تو میں یہ بات ماننے سے قاصر ہوں کہ کوئی بھی ملک جو کہ آپ کا ہمسایہ ہو اور اس کے ساتھ آپ کے تعلقات بھی بہتر ہوں تو وہ اپنے ملک میں پردیسیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھیں کہ دنیا میں ان کی جگ ہنسائی کا امکان ہو۔چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں کہ حکومت ایران زائرین کو مزید قیام کی اجازت نہی دے رہی تھی۔کیا قطر اور یو اے ای سے ٹرانزٹ مسافروں کو خصوصی پروازوں کے ذریعے ملک میں لانے کا انتظام نہیں ہوا۔

یہ بھی مان لیا کہ ایران زبردستی زائرین کو پاکستان بھیج رہا تھا ،زائرین پاکستان میں داخل ہو گئے تو کیا اس دوران حکومت یہ انتظامات نہیں کر سکتی تھی کہ ان کے لئے بلوچستان میں ہی قرنطینہ قائم کر لیتے،ایسا کرنے سے پاکستان کو دو فائدے کم از کم ضرور ہوتے ایک تو یہ کہ چونکہ بلوچستان کا صوبہ بلحاظِ رقبہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن قدرت کا ہم پر رحم دیکھیں کہ اس صوبہ کی آبادی سب سے کم ہے یعنی ایک لحاظ سے پورا صوبہ ہی قرنطینہ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔کہیں بھی کسی بھی ہسپتال،سکول،یونیورسٹی،کیمپس اور کچھ نہیں تو دوردراز کے ایسے مقامات جہاں آبادی کم اور سرکاری عمارات خالی پڑی ہوئی ہے بلوچستان حکومت سے مل کر ہنگامی بنیادوں پر متاثرہ لوگوں کو وہیں رکھ کر پورے ملک کو اس آفت سے بچایا جا سکتا تھا۔لیکن ایسا نہیں کیا گیا،تفتان سے زائرین کو فیصل آباد،ڈیری غازی خان اور دیگر صوبوں کے مختلف شہروں میں پھیلا دیا گیا۔اور اب صورت حال یہ ہے کہ یہ مرض دن بہ دن ہر سو پھیلتا جا رہا ہے۔لہذا یہ بات ماننے میں حکومت کو کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ غلطی تو ہوئی ہے،اس غلطی کا ازالہ کیسے ہونا چاہئے اب یہ حکومت پر ہے ۔لیکن ساتھ ہی ساتھ میری اپنی باشعور عوام سے ایک استدعا بھی ہے کہ خدا را اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کو خطرات میں نہ ڈالیں،حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے ان احتیاط کو اپنائیں جو حکومت اور ڈاکٹر حضرات کی طرف سے جاری کی گئی ہیں۔
 

Murad Ali Shahid
About the Author: Murad Ali Shahid Read More Articles by Murad Ali Shahid: 100 Articles with 76095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.