کرونا سے بچاؤ

پچھلے کئی دنوں سے شہر لاہور کیا پو رے پاکستان میں لاک ڈاؤن بلکہ کرفیو کا سا سماں ہے‘ ہر انسان کرونا کی وبا بلکہ دہشت اور گورنمنٹ کی ہدایات کے تحت اپنے ہی گھروں میں دبک کر بیٹھا ہوا ہے اور میں بھی کتاب لے کر بیٹھا وقت کو دھکا دے رہا تھا کہ اچانک دروازے پر کسی نے دستک دی میں نے جو حیرت سے دروازے کی طرف دیکھا کہ اِس تنہائی اور لاک ڈاؤن میں کون ہے جو سر عام پھر رہا ہے ‘ آنے والے کی جرات کے بارے میں سوچتے ہوئے میں نے جا کر دروازہ کھو لا تو میرے سامنے ستر سال سے اوپر ایک باریش بو ڑھا کھڑا تھا بو ڑھے کے چہرے کے تاثرات آنکھوں اور وضع قطع سے اُس کی شرافت کا بھرپور اظہار ہو رہا تھا میں نے جب دروازہ کھو لا تو تھوڑا غصے میں تھا کہ وبا اور لاک ڈاؤن کے اِس عالم میں کون میرے گھر آگیا یہ اپنے گھر آرام کیوں نہیں کر رہا لیکن بو ڑھے شخص کی سادگی شرافت انکساری دیکھ کر میرا غصہ سرد پڑ تا گیا میں نے سر سے پاؤں تک بوڑھے شخص کو دیکھا اور شفیق لہجے میں بو لا جناب میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں اور آپ نے کس سے ملنا ہے تو بوڑھا شخص شرمندہ لہجے میں پنجابی زبان میں بو لا میں معافی چاہتا ہوں آپ سے وقت لیے بغیر ہی آگیا لاہور میں میر ا کو ئی عزیز ہسپتال میں داخل ہے میں تو اُس سے ملنے آیا تو سوچا آپ کے گھر سے آپ کی وظائف کی کتاب بھی لیتا جاؤں آپ کتاب دے دیں میں واپس چلا جاتا ہوں بوڑھے شخص کی شائستگی اور شفیق لہجہ مجھے بہت اچھا لگا میں اُس کو اندر لے آیا گھر میں چائے کا آرڈر دیا اور مذاق میں کہا جناب برطانوی وزیر اعظم اور بادشاہ چارلس کو اِس وبا نے نہیں چھوڑا وہ بیچارے اِس کے خوف سے کمروں میں دبک گئے ہیں آپ کس بہادری سے خالی سڑکوں پر چہل قدمی فرما رہے ہیں تو بوڑھا شخص مسکرایا اور بولا میں پانچ کلو میٹر پیدل چل کر آپ کے گھر آیا ہوں میری عمر اسی سال ہو گئی ہے اُس کی عمر جان کر مجھے جھٹکا لگا میں تو ستر سال سمجھ رہا تھا اب بابا جی نے مزید بو لنا شروع کیا نیلی چھتری والے نے جو وقت لکھا ہے وہ پو را ہو نا ہی ہو نا ہے تو میں بو لا بابا جی ہمار ے نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ جب وبا پھوٹ پڑے تو اُس علاقے میں نہ جاؤ اور نہ ہی وبا کے علاقے سے نکل کر اُس وبا کو دوسرے علاقوں میں پھیلاؤ تو بابا جی بو لے نبیوں کے سردار ﷺ کا فرمان ہمارے سر کا تاج ہے لیکن پروفیسر صاحب آپ یقین کریں گے میرے سارے دانت اصلی ہیں اور میں نظر کی عینک بھی نہیں لگا تا اور سب سے بڑی بات میں کو ئی دوائی نہیں کھاتا جس کا مطلب میرے سارے جسمانی نظام صحت منداور کام کر رہے ہیں بابا جی کی قابل رشک صحت کا جان کر میں چونک گیا اور ایک بار پھر بابا جی کو سر سے پاؤں تک دیکھا تو واقعی احساس ہوا کہ بابا جی کا ایمیون سسٹم میٹابولزم مہارت چابک دستی اور صحت مندی سے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے اور بابا جی کی دماغی حالت بھی قابل رشک ہے دماغ جسمانی اعضا کو اچھی طرح سے کنٹرول کر رہا تھا بابا جی کی قابل رشک صحت ان کے جسمانی اعضا اور جسمانی حرکات سے اچھی طرح ٹپک رہی تھی بابا جی کی شاندار صحت کا سن کر میری تجسس کی تمام حساسیت بیدار ہو گئی تھیں اب میں ہمہ تن گوش چاک و چوبند ہو کر بابا جی کے اعلیٰ صحت کے اصولوں کو سننے کے لیے بے تاب تھا میری بو ریت اب دلچسپی میں ڈھل چکی تھی میں بے صبری سے شاندار کما ل کی صحت کا راز جاننے کے لیے بے چین تھا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے شہزادے سربراہ بہترین ہیلتھ سسٹم کے ہو تے ہو ئے کمروں میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں جبکہ ایک عام سا دیہاتی بزرگ کس طرح دبنگ طریقے سے کرونا کی وبا کا منہ چڑا رہا ہے کہ کر لو جو میر ا کر نا ہے اِسی دوران چائے آگئی مجھے چائے پینے کے لیے بہترین ساتھی مل گیا تھا میں نے گرما گرم دودھ پتی کا مگ اٹھا یا آگے بڑھ کر بابا جی کو پیش کیا اور بو لا جناب آپ کے پاس کو نسی گیڈر سنگھی کو ئی سونے چاندی کستوری زعفران کا نسخہ ہے وہ ہمیں بھی بتا ئیں یہاں لوگ وبا کے آگے خوف سے مرے جا رہے ہیں اور آپ نسخہ خود ہی کھا کر صحت کے مزے لوٹ رہے ہیں تو بابا جی نے گرما گرم چائے کا بڑا سا گھونٹ حلق سے اتارا اور بولے جناب کوئی نسخہ نہیں زندگی بہت آسان اور سیدھی ہے جب ہم اِس میں غیر فطری رنگ بھرتے ہیں چالاکیاں کر تے ہیں منافقت کر تے ہیں اپنے دل و دماغ کو حسد کینہ بغض دشمنی ظلم جھوٹ فراڈ حق تلفی کرتے ہیں تو ہمارا فطری میٹا بولزم خراب ہو جاتا ہے جیسا رب پاک نے اِس کو بنایا اِس کے ساتھ غلط قسم کی چھیڑخانی نہ کریں رب نے پاک پیدا کیا ہم اِس جسم دماغ کو پاک نہیں رہنے دیتے جسمانی ذہنی دماغی طہارت کو ہم لوگ بھول گئے ہیں ناپاکی ہمارے جسم و روح کو کھا گئی ہے دوسرا دنیاوی غذا ئیں بھی اگر ہم فطری رکھیں تو ہم بیمار نہیں ہو تے پروفیسر صاحب بیس سال پہلے ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ تم کو بلڈ پریشر کا مسئلہ ہو رہا ہے اب اِس کو دوائی سے ٹھیک کر نا ہے یا صحت مند غذاؤں اور ورزش سے تو میں نے کہا غذا سے اُس دن سے گوشت کو ہاتھ نہیں لگا یا روزانہ آٹھ سے دس کلومیٹر پیدل واک کر تا ہوں ‘ ساری زندگی گرم پانی سے نہیں نہایا سبزیاں تقریبا ابلی کھاتا ہوں گرم پانی پیتا ہوں برف ٹھنڈے مشروبات کوک پیپسی وغیرہ اور دوسرے جو سز کو خود پر حرام کیا ہوا ہے آقا کریم ﷺ کی سنت کے عین مطابق بھوک رکھ کر کھا نا کھاتا ہوں جب تک تیز بھوک نہ لگے اگلا کھانا نہیں کھاتا ‘ عوام ابھی پہلا کھانا معدے میں ہضم کے عمل سے گزر رہا ہو تا ہے تو پھر اُس کو بھر دیتے ہیں کھانا اُس وقت جب اُس کی طلب ہو ‘ جگر اور معدے کی صحت کا بھر پور خیال رکھتا ہو عشا کی نماز کے بعد سو جاتا ہو فجر بلکہ تہجد کے لیے صبح اٹھ کر فطرت کے نظاروں کے ساتھ سر سبز شاداب فصلوں میں پیدل واک کر تا ہوں صبح خیزی کے مزے لوٹتا ہوں بازاری ہوٹلوں شادیوں کے کھانے بلکل نہیں کھاتا ‘ پھلوں سبزیوں کو شوق سے کھاتا ہوں اتنا ہی کھاتا ہوں جو جسم کی ضروریا ت کے لیے کافی ہے اگر طلب نہیں تو کھانے کو زہر سمجھتا ہوں ہاتھ بھی نہیں لگاتا وہ چیزیں معدے میں ڈالتا ہوں جن کو میں آسانی سے ہضم کر لیتا ہوں جو چیزیں مجھے سوٹ نہیں کر تیں اُن کے قریب بھی نہیں جاتا وزن ساری زندگی ستر کلو سے زیادہ نہیں ہو نے دیا دماغ کو ہر قسم کے شر نفرت سے پاک رکھا ہوا ہے ہر وقت اِس نشے سرور میں رہتا ہوں کہ مسلمان ہوں آخری نبی ﷺ کا امتی ہوں سارے اعضا درست کام کر تے ہیں نماز روزے اسلامی عبادات کا پابند ہوں کتابیں پڑھتا ہوں اﷲ کے انعامات پر شکر اور نہ ہونے پر صبر کر تا ہوں چھو ٹا موٹا حکیم بھی ہوں سبزیوں پھلوں اور دیسی جڑی بو ٹیوں کے بارے میں تھوڑا بہت جانتا ہوں حکمت کانام سن کر میں چونکا اور بولا بابا جی اب ہر بندہ آپ کا پرہیز اور طرز زندگی نہیں اپنا سکتا وہ کیا کر ے تو بابا جی بولے ہر نماز با وضو پڑھیں صبح شام گرم پانی کی بھاپ لیں دن میں پانچ مرتبہ اور سونے سے پہلے گرم کپ قہوہ دار چینی ملٹھی اور چھوٹی الائچی ڈال کر پئیں اپنی نیند پوری کریں وہ غذا کھائیں جو آپ ہضم کر تے ہیں ایسی چیزوں کو بازاری کھانے مشروبات سوفٹ ڈرنکس کو ہاتھ نہ لگائیں کرونا تو کیا کوئی بیماری آپ کے قریب نہیں آئے گی بابا جی لاک ڈاؤن کے بارے میں کیا رائے ہے تو وہ بولے آپ نے اپنی صحت کا ستیا ناس کیا ہوا ہے اِس لیے آپ گھروں میں بیٹھ کر وقت گزار لیں اور اِس دوران اپنی اندرونی صحت طہارت اور خدا کے ساتھ تعلق جوڑ کر اُس سے معافی مانگیں وہ معاف کر دے گا تو کسی انسان کے دماغ میں وہ دوائی ڈال دے گا جس میں کرونا کے لیے شفا ہے ہمیں مل کر خدا سے اجتماعی معافی مانگنی چاہیے تاکہ اُس کو ہم پر ترس آجائے وہ معاف کر دے بابا جی نصیحت کے بعد چلے گئے تومیں سوچھنے لگا ہم باتوں سے رب کو مانتے ہیں ایسے لوگ عملی طور پر مانتے ہیں ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735501 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.