پاکستان سمیت پوری دنیا ’’ کوروناوائرس ‘‘ کی
لپٹ میں ہے۔ ہر طرف پرشانی، مایوسی اور موت کا خوف لوگوں کو ’’ دماغی مریض
‘‘ بنا رہا ہے۔ اب وقت نہیں ہے کہ اس بحث و مباحثہ میں پڑا جائے کہ ’’
کورونا وائرس ‘‘ کیسے اور کہا سے پاکستان پہنچا۔ نہ ہی اس چیز کی ضرورت ہے
کہ یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا یا ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے۔ ہر
ملک اور قوم کی رسم و رواج اور درجہ حرارت رہن و سہن ایک دوسرے سے مختلف
ہونے کی بناہ پر اس کے پھیلاؤ کا دائرہ بھی تھوڑا بہت مختلف ہو سکتا ہے مگر
بنیادی طور پر چار چیزیں ایسی ہیں جو ’’ کورونا وائرس ‘‘ کے پھیلاؤ کا سبب
ہیں ۔
اول ؛۔ متاثرہ شخص کے ساتھ ہاتھ ملانے یا گلے ملنا۔ دوئم ؛۔ کورونا وائرس
مریض کے چھینکنے یا کھانسنے سے نلنے والے ذرات ۔ سوئم :۔ متاثرہ شخص کے
ساتھ میل و جول۔ چہارم :۔ کوروناوائرس کے مریض کے زیر استعمال اشیاء کو
چھونے یا استعمال کرنے سے بھی یہ وائرس پھیلتا ہے۔
کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کی پہلی بار شناخت چین کے شہر ووہان میں
ہوئی اور اسے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کو 2019 (کووِڈ- 19) کا نام
دیا گیا۔ بیماری کے اس نام میں ’کو‘ کا مطلب ’کورونا‘ ’وی‘ کا مطلب ’وائرس‘
جبکہ ’ڈ‘ کا مطلب disease یعنی بیماری ہے۔ اس سے قبل اس بیماری کو ’2019
نیا کورونا وائرس‘ یا ’2019 – این کو‘ کا نام بھی دیا گیا تھا۔
کووِڈ- 19 حال ہی میں سامنے آنے والا وائرس ہے جس کا تعلق کورونا وائرس کے
اسی خاندان سے ہے جو نظامِ تنفس کی شدید ترین بیماری کی مجموعی علامات (سارس)
اور نزلہ زکا م کی عام اقسام پھیلانے کا باعث بنا تھا۔کورونا وائرس کی
علامات میں بخار، کھانسی اور سانس لینے میں مشکل پیش آنا شامل ہیں۔ بیماری
کی شدت کی صورت میں نمونیہ اور سانس لینے میں بہت زیادہ مشکل کا سامنا بھی
ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری بہت کم صورتوں میں جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
اس بیماری کی عام علامات زکام (فلو) یا عام نزلے سے ملتی جلتی ہیں جو کہ
کووِڈ- 19 کی نسبت بہت عام بیماریاں ہیں۔ اس لئے بیماری کی درست تشخیص کے
لئے عام طور پر معائنے (ٹیسٹ) کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ اس بات کی تصدیق ہوسکے
کہ مریض واقعی کووِڈ- 19 میں مبتلا ہوچکا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کر لینا
ضروری ہے کہ نزلے زکام اور کووِڈ- 19 کی حفاظتی تدابیر ایک جیسی ہیں۔ مثال
کے طور پر بار بار ہاتھ دھونا اور سانس لینے کے نظام کی صحت کا خیال رکھنا
(کھانسی کرتے اور چھینکتے وقت اپنا منہ کہنی موڑ کر یا پھر ٹشو یا رومال سے
ڈھانپ لینا اور استعمال شدہ رومال یا ٹشو کو ایسے کوڑا دان میں ضائع کرنا
جو ڈھکن سے بند ہوسکتا ہو)
پاکستان میں ’’ کوروناوائرس ‘‘ کی تشخیص سرکاری طور پر میسر ہونے کی وجہ سے
اتنی عام اور سستی نہیں کہ ہر آدمی کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروا سکے۔ چین
اٹلی ایران اور امریکہ جیسے ممالک کی مثالیں اور کورونا کی تباہی ہمارے
سامنے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ سرکاری سرپستی میں کام کرنے والے ’’ معالجین ‘‘ کو
جتنا ہو سکے خراجِ تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے کیونکہ انہوں نے
کوروناوائرس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ذندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے
والوں کا حوصلہ ساتھ اور ہر ممکن علاج کیا خواہ انکو حفاظتی سامان ملا یا
نہ ملا ۔ اسی وجہ سے کل تک جو قوم ’’ ڈاکٹرز ‘‘ کو قصاب کہتی تھی آج اسی
قوم نے اپنے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل کے دیگر اسٹاف کو زبردست خراج تحسین
اور قومی ہیروز قرار دیا ہے۔ اور یہ ان کا حق بنتا ہے۔
دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ’’الٹرنیٹیو میڈیسن ‘‘ کے معالجین نے اپنے
محدود وسائل میں رہتے ہوئے وطن عزیز سے دکھوں اور بیماریوں کے خاتمہ کے لئے
اپنی خدمات پیش کیں ہیں اور یہ اچھی بات ہے۔
جب سے ’’ کوروناوائرس ‘‘ عالمی وباء کا روپ دھارتے ہوئے انسانوں کو دبوچنا
شروع کر دیا ہے، ہر شخص بے چینی ۔ ڈر اور خوف میں مبتلا نظر آتا ہے۔ لیکن
معالجین کا ایک ایسا کنبہ جس کو دنیا ہومیوپیتھی اور حکمت کے نام سے جانتی
اور پہچانتی ہے۔ یہاں پر اگر ماضی کی وباؤں کا زکر کیا جائے تو بات دوسری
طرف نکل جائے گئی لیکن میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں جب الٹر نیٹیو معالجین
’’ کورونا وائرس ‘‘ کی تباہ کاریوں سے انسانوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ان سے
حکومت پاکستان کو کام لینا چایئے ۔ ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور حکماء وہ لوگ ہیں
’’ جن کو سلوٹ ‘‘ میں دل سے کرتا ہوں ۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ’’
کوروناوائرس ‘‘ کا مریض صرف اس کو سمجھا جاتا ہے جس کا ’’ کروناوائرس ٹیسٹ
پازیٹیو ‘‘ آجاتا ہے۔ کسی کا کرونا ٹیسٹ پازیٹیو یا نیگیٹیو آنا صرف اسی
صورت میں ممکن ہوتا ہے جب کسی کا سیمپل لیب میں نہیں بھیجا جاتا۔ اور اسی
مریض کا سیمپل ’’ کورونا ٹیسٹ ‘‘ کے لئے لیا جاتا ہے جب مریض کو رونا وائرس
کا شک ہو۔ اور یہ شک اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مریض میں کورونا وائرس کی
علامت پیدا ہو جائیں یا ایسے شواہد ملیں جن سے ثابت ہوکہ کوروناوائرس کا
مشکوک مریض کسی کوروناوائرس والے مریض کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا رہا ہو۔
ایسے بھی بہت سے مریض ہونگے جو ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنا کورونا ٹیسٹ سے
بچنے کے لئے کسی سرکاری ہسپتال کا رخ نہیں کرتے اور نزلہ زکام ، فلو یا
کھانسی کے سلسلے میں ’’ الٹرنیٹیو معالجین ‘‘ کا انتخاب کرتے ہیں۔ جن کا
مدافتعی نظام متحرک ہوگا ہو سکتا ہے وہ بلکل ٹھیک بھی ہو جائیں ۔
اگر وہ شفایاب ہو جاتے ہیں تو ’’ کورونا وائرس میں ملوث مریضوں کی لسٹ میں
نہیں آئیں گئے ۔
ضروری گزارشات ! اگر حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس ماضی کا
حصہ بن جائے تو
اول۔کورونا وائرس سے بچاؤ کی آگاہی کے ساتھ کورونا وائرس کا خوف ڈر ختم
کرنا ہوگا
دوئم ۔ کورونا ٹیسٹ سرکاری اور پرائیویٹ لیب سے بلکل فری کر دیا جائے۔
سوئم۔ کوالیفائڈ اور رجسٹرڈ ہومیوپیتھک ڈاکٹرز سے استفادہ کیا جائے۔
چہارم :۔ سرکاری اور پرائیوٹ معالجین کی حوصلہ افزائی اور حفاظتی سامان بلا
تفریق دیا جائے۔
پنجم ۔ ایسے معالجین جو رضاکارانہ طور پر ’’ کوروناوائرس ‘‘ کے خلاف کام
کرنا چاہے WHO اور یونیسف وغیرہ سمیت حکومت جہاں مناسب سمجھے ’’ بنیادی
ٹرینگ ‘‘ کے بعد زمہ داریاں سونپ دے ۔۔ ایسا کرنے سے ان شااﷲ ’’
کوروناوائرس ‘‘ دیگر وبائی وائرسوں کی طرح ماضی کا حصہ بن جائے گا،
|