”میرا گاؤں رسول پور چک نمبر 119ج ب فیصل آباد“ کتاب سے
لیا گیا اقتباس۔۔۔
مئی 2019ء گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو اس وقت یہ کتاب اپنے آخری مراحل میں
تھی۔ چند دن پہلے ایک اسّی، چوراسی سالہ سکھ بزرگ پاکستان بننے کے بعد پہلی
دفعہ اپنے گاؤں کو دیکھنے اور اس کے دوستوں اور ویلیوں سے ملنے آیا۔ گاؤں
کی تاریخ ڈھونڈنے نکلا تو اس بزرگ سکھ کا تذکرہ چھڑ گیا۔ سکھ مہمان کہنے
لگے کہ جب پاکستان بنا تو اس وقت میں تقریباً چودہ پندرہ سال کا تھا، میرا
خاندان انڈیا کے ضلع امرتسر گاؤں رسول پور سے ہے جہاں آکر آباد ہو اتھا۔ اس
وقت اس گاؤں میں صرف دو گھرمسلمانوں کے تھے۔ لیکن ہمارا آپس اس قدر پیار
اور بھائی چارہ تھا کہ بیان نہیں کر سکتا۔ سکھ بزرگ باتیں بھی کر رہے تھے
اور ان کی آنکھیں ساون کی طرح برس رہی تھیں۔ اپنے دوستوں کا نام لیتے تو بے
تحاشہ روتے، کہ ہمارا بچپن انتہائی خوبصورت تھا، جہاں کھانے کا وقت ہوتا
وہاں ہی کھانا کھا لیتے کبھی میں مسلمانوں کے گھر اور کبھی میرے دوست میرے
گھر۔ شب و روز گزرتے گئے، آزادی تحریک پاکستان دن بدن زور پکڑتی گئی آخر
کار چودہ اگست کو پاکستان بن گیا۔ پہلے پہل تو میرے بزرگوں نے سنجیدہ نہ
لیا لیکن جب پتہ چلا کہ صدیوں سے اکٹھے رہنے والوں میں درمیاں ایک جنگ کا
سا سماں بند چکا ہے کیوں نہ ہم بھی اپنے آبائی گاؤں رسول پور ضلع امرتسر کو
واپس چلیں۔ آنکھوں میں آنسو ہیں، اپنی چادر سے صاف کرتے ہیں بے چارگی کی
نظر سے ادھر اُدھر دیکھتے ہیں۔ کچھ وقفے کے بعد پھر زیادہ رونا شروع کر
دیتے ہیں۔ پوچھا کیوں اتنا رو رہے ہیں؟ کہنے لگے اس وقت میرے ستر سال جدائی
کے سمٹ کر چودہ، پندرہ سال میں سمٹ کر سامنے آگئے ہیں۔ میں ان آنسوؤں کو
جتنا بھی چاہوں روک نہیں سکتا۔کہنے لگے جب سے ہم واپس بھارت گئے ہیں میرے
دادا نے بڑا چاہا کہ میں ایک دفعہ پاکستان جا کر اپنا گاؤں اور گھر دیکھ
آؤں، لیکن آج کل کرتے کراتے وہ نہ آسکے واپس اپنا گاؤں دیکھنے کی حسرت لیے
اس دنیا سے جا چکے ہیں، پھر میرے والد نے بہت بار ہم سے ذکر کیا کہ میرا دل
ہے کہ ایک دفعہ پاکستان جا کر اپنے گاؤں میں اپنے لنگوٹیوں سے مل کر دکھ
سکھ میں شریک ہو کر دیکھوں اور اپنے کھیتوں اور باغوں کو دیکھ آؤں کہ اگر
ہیں تو اب کتنے بڑھے ہو گئے ہیں۔ یہ سب باتیں سکھ بزرگ نے آنکھوں میں آنسو
سجائے ہی بتائیں، لیکن میرا والد بھی اسی سوچ میں آج کل کرتے کرانے اس دنیا
سے چلے گئے۔ میں بھی اس وقت ہوش و حواس میں تھا میرے بھی چند دوست اسی گاؤں
میں تھے۔ سوچا باپ دادا پاکستان آنے کی حسرت لیے دنیا سے چلے گئے کیوں اب
مجھے موقع ملا ہے، اپنی، اپنے باپ دادا کی یادیں سمیٹ کر آؤں۔ کہنے لگے کہ
میں ننکانہ صاحب بابا گورونانک ماتھا ٹیکنے آیا تھا۔ فارغ ہوا تو گاڑی
کروائی سیدھا گاؤں رسول پور آگیا ہوں جبکہ میرے ساتھی پشاور سیر اور خرید
داری کے لیے چلے گئے ہیں۔
گاؤں میں ان کی ملاقات اس وقت کے ایک بزرگ سے ہوئی۔اس بزرگ اور گاؤں کے چند
لوگوں وساتھ لے کر اپنی زمینوں اور کھیتوں پر گئے حسرت بھری نگاہوں سے
دیکھتے اور بتاتے کہ یہاں یہ تھا وہاں یہ تھا۔ کبھی کھیت کے کھال کے کنارے
بیٹھ جاتے تو کبھی آموں کے باغ میں بیٹھ جاتے۔ کہنے لگے کہ یہ آموں کا باغ
جو فوجی مقبول کے نام سے مشہور تھا کہ میرے دادا نے لگایا تھا لیکن اس کے
آم میں نے بھی کھائے ہیں۔ لیکن اب یہ آموں کا باغ ختم ہو چکا ہے۔ مزید کہنے
لگے کہ۔۔۔پھر سکھ بزرگ اپنی کہانی سناتے ہیں کہ جب طے کر لیا گیا کہ اب
واپسی کے علاوہ کوئی حل نہیں تو پھر کافی سامان ادھر گاؤں میں ہی تقسیم کر
دیا۔ کچھ سامان ساتھ لے کر چلے گئے۔ جانور، گائے بھینس وغیرہ اپنے مسلمان
دوستوں کے حوالے کر دیں۔ گھر کا سامان باندھا، سب گاؤں کے میرے دوست بیل
گاڑی پر لوڈ کرکے رات کے اندھیرے میں رسول پور سے تقریباً بارہ کلومیٹر دور
ریلوے اسٹیشن گٹی پر چھوڑنے جاتے، گھر سے پہلے بڑے اور چند عورتوں کو ساتھ
سامان باندھ کر ریل گاڑی پر الوداع کرتے تھے۔ اس طرح میں میری ماں اور والد
صاحب رسول پور سے رات کے اندھیرے میں ریلو ے اسٹیشن پر سامان لوڈ کرنے لگے۔
ریل کے چلنے میں چند منٹ باقی تھے کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ وقت کے آخری
لمحات کو سمیٹنے لگا، ہم سب بار بار ایک دوسرے کو گلے ملتے، خوب روتے اور
پھر سے ملنے کے ایک دوسرے کو کہتے، جب میری والدہ نے یہ منظر دیکھا تو کہنے
لگی وے میرے پتر نریندر سنگھ بس اب ملاقات کے آخری لمحات ہیں جی بھر کے ان
دوستوں اور بزرگوں کو دیکھ لو، گلے مل لو۔ والدہ یہ الفاظ سن ہم سب کی
ہچکیاں بندھ گئیں خوب گلے لگ کر روئے، اتنے میں گارڈ نے سٹی بجائی گاڑی نے
حرکت شروع کی۔ ایک پاؤں میرا پائیدان پر اور دوسرا پلیٹ فارم پر،والدہ نے
کہا پتر اوپر چڑھ آو۔”ہن وچھوڑے پئے گئے نیں!! پھر رات کے اندھیرے میں ایک
دوسرے کو ہاتھ ہلاتے نظر آنے لگے، گاڑی آہستہ آہستہ دوری ہوتی گئی میرے
بچپن کے دوست دور اندھیرے میں گم ہو گئے، اب اندھیروں کو پار کرکے ستر سال
بعد ملنے آیا ہو ں تو سب حقیقت میں چھوڑ کر چلے گئے۔۔ اس کے ساتھ ہی
نریندرسنگھ کی آنکھوں برسنے لگے، آہیں بھرنے لگا،آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے
کہنے لگا شاید میری قسمت یہی تھا اب میری والدہ کے بول پورے ہو گئے ”ہن
وچھوڑے پئے گئے نیں“یہ وہ حقیقت جو چھپانے نہیں چھپتی پرانے دور دوستی اور
بچپن پھر کہاں ملتا ہے۔ بزرگ سکھ گاؤں میں ان تمام جگہوں پر گئے جہاں جہاں
انہوں نے اس گاؤں میں رہتے ہوئے زندگی گزاری، اب وہ نشانیاں ختم ہو چکی
تھیں۔ اپنے گھر کو دیکھا تو لوگوں نے بتایا چند سال پہلے ان مکانات کو گرا
نئے تعمیر کیے گئے۔ اس طرح وہ کچھ پرانی یادوں کو پختہ کرتے کرتے مزید
یادیں سمیٹ کر لے گئے۔۔
|