پہلے انحصار پھر خود مختاری کا خواب
(رعنا تبسم پاشا, Dallas, USA)
اپنی بیوی کو مخاطب کر کے لمبی لمبی تقریریں ۔۔۔۔۔ ہماری ماں نے ہمارے لئے یہ کیا ۔۔۔۔۔ باپ نے وہ کیا ۔۔۔۔۔ بڑے بھائی بھابھی نے یوں قربانیاں دیں ۔۔۔۔۔ تو چھوٹے بھائی نے تیوں ساتھ دیا ۔۔۔۔۔ ارے بھائی آپ کے گھر والوں نے یہ سارے احسانات آپ کے اوپر کیے ہیں اور ان کا بدلہ اتارنا بھی آپ کا فرض ہے اور اس کی واحد صورت یہی نہیں ہے کہ آپ پر کیے گئے احسانات کا بدلہ آپ کی بیوی آپ کے گھر والوں کے ساتھ رہ کر چُکائے ۔ اس سے اچھا نہیں ہے کہ شادی سے پہلے ہی لڑکی اور اس کے گھر والوں پر واضح کر دیا جائے کہ ہم علیحدہ رہائش افورڈ نہیں کر سکتے یا یہ کہ افورڈ تو کر سکتے ہیں مگر ہمیں اپنے ماں باپ کے ساتھ ہی رہنا ہے اُنہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جانا منظور ہے تو بولو ۔ اگر لڑکی ساتھ رہنے پر راضی ہو جاتی ہے تو بسم اللہ کریں ۔ اگر وہ نہ مانے کہ آدھی زندگی تو اپنے ماں باپ کے ساتھ گزر گئی اور اب باقی کی زندگی شوہر کے ماں باپ کے ساتھ تو پھر شادی کا فائدہ ہی کیا؟ جس میں کوئی آزادی نہیں پرائیویسی نہیں ۔۔۔ تو آپ اسے سلام کر کے نکل لیں اور یہ مت سمجھیں کہ دنیا ختم ہو گئی آپ کو اپنی ہی شرط پر ایسی لڑکی ضرور مل جائے گی جو الگ رہنے کی بات نہیں کرے گی اور آپ کے گھر میں آپ کے ماں باپ کے ساتھ بخوشی رہنے پر تیار ہو جائے گی ۔ دنیا ایسی بھی لڑکیوں سے خالی نہیں ہوئی بھائی ۔ لڑکیوں کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے ماں باپ کو پہلے سے بتا چھوڑیں کہ وہ مشترکہ خاندانی نظام میں گزارہ کر سکتی ہیں یا نہیں؟ تاکہ وہ کسی بھرے پُرے گھرانے سے آنے والا رشتہ قبول ہی نہ کریں ۔ ورنہ تو کوئی اکیلا چھڑا چھانٹ لڑکا اگر خود اپنا رشتہ لے کر پہنچ جائے تو کون اُسے منہ لگاتا ہے؟ انتہائی استثنائی صورتحال میں بھی لڑکے سے یہی کہا جاتا ہے میاں! کوئی تو تمہارا ہو گا کسی بڑے بزرگ کو ساتھ لے کر آؤ ۔ پھر لڑکا کسی دور پرے کے رشتہ دار یا پھر اپنے کسی شادی شدہ دوست اور اس کی بیگم کو ساتھ لے کر لڑکی والوں کے ہاں جاتا ہے گفت و شنید ہوتی ہے بات آگے بڑھتی ہے ۔ مگر اب ہونے کیا لگا ہے کہ تمام تدریجی مراحل لڑکے کے گھر والوں کے ہی ذریعے طے پاتے ہیں اُس کے والدین شادی شدہ بہن بھائی اور خاندان و گھرانے کے بڑے بزرگ وغیرہ ۔ ساری بات چیت اور قبولیت و منظوری کے مراحل اِنہی کو درمیان میں ڈال کر پایہء تکمیل کو پہنچتے ہیں ۔ اس کے بعد شادی کی ساری تیاری مثلاً لڑکی کے زیورات و ملبوسات ماں بہنوں کے ہاتھوں اور دیگر لوازمات و انتظامات باپ بھائی اور کوئی چاچا ماموں کی بھاگ دوڑ سے انجام پاتے ہیں ۔ لیکن شادی ہوتے ہی کچھ بلکہ زیادہ تر لڑکیاں ان تمام ہستیوں کو اپنے شوہر کی زندگی سے صفر کر دینے پر تُل جاتی ہیں کہ مجھے اِن کے ساتھ نہیں رہنا اور ان کی خدمت مجھ پر فرض نہیں ۔ تو بھئی فرض تو وہ تمام خرافات و لغویات بھی نہیں ہیں جن کا اِنہی بیکار و فالتو لوگوں نے اہتمام کیا ۔ بات اگر شریعت کے احکامات کی ہے تو وہاں تو ذکر ملتا ہے صرف ایک حجرے کا اور سال بھر میں دو جوڑوں کا ، کوئی آسائشات و تعیشات کی تاکید نہیں ۔ اور ایسے ہی احکامات لڑکے کے لئے ہیں کہ کوئی جہیز خوری اور بِھک منگا پن نہیں بالکل سادگی سے نکاح اور اپنی استطاعت کے مطابق سادہ سا ولیمہ ، کوئی مایوں مہندی شیندی بارات و برائیڈل شاور کا تصور تک نہیں ۔ تو کون سے احکامات کی پاسداری کی جا رہی ہے؟ دونوں ہی طرف سے جی بھر کر ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے مگر شریعت النساء کی ساری تان آ کر ٹوٹتی ہے کہ ساتھ نہیں رہنا اور سسرال والوں کی خدمت نہیں کرنی ۔ بلاشبہ پوری اسلامی تاریخ اور شریعہ و فقہ میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا کوئی ذکر یا تصور نہیں ملتا ۔ اور اس نظام میں خوبیاں کم اور خامیاں قباحتیں کتنی زیادہ ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں ۔ مگر دین میں ان تمام خرافات و رسومات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا جو آج ہماری ثقافت کا حصہ بن چکا ہے اور فرائض کا درجہ حاصل کر چکا ہے ۔ اور انہی کی وجہ سے ایک لڑکا سخت زیر بار ہوتا ہے اور شادی ہوتے ہی اسلامی طریقے کے مطابق اپنی ذاتی زندگی کا آغاز نہیں کر سکتا جتنا اصراف دونوں ہی جانب سے شادی کی تقریبات اور مختلف مدات میں کیا جاتا ہے اگر اُن سب سے احتراز کرتے ہوئے سادگی کے ساتھ ایک سنت ادا کر لی جائے تو یقیناً ایک نوبیاہتا جوڑا اپنی عملی زندگی کا آغاز اپنے طور پر کر سکتا ہے مگر دنیا دکھاوے اور مسابقت کی دوڑ نے اسے تقریباً ناممکن ہی بنا کر رکھ دیا ہے ۔ لڑکی کے ماں باپ بھی سخت معاشرتی دباؤ کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں اور خود ان کی اپنی بیٹی ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتی خود غرضی پر کمربستہ ہوئی رہتی ہے ۔ آج کوئی لڑکی گھر پر ہی تیار ہونے کے لئے تیار نہیں مہنگے سے مہنگے نام ور پارلر میں جانا ہے شریکوں پر دھاک بٹھانا ہے ۔ کہیں کوئی کمی نہ ہو ہر چیز اپنی مرضی اور اعلیٰ معیار کی ، چاہے اس چکر میں باپ قرضدار ہو جائے یا بڑا بھائی بوڑھا ہو جائے بس ان کی ہر فرمائش پوری ہونی چاہیئے ۔ پھر اس کے فوراً بعد الگ گھر بھی چاہیئے تو یہ پہلے طے ہونا چاہیئے نہ کہ دونوں ہی فریقین ایکدوسرے کو دھوکا دیں اپنی ترجیحات واضح نہ کریں اور بعد میں زندگی اجیرن ہو ۔ بیوی کو شریعت یاد آ جائے اور میاں جوائنٹ کی برکتوں پر بھاشن جھاڑے ۔ اگر وہاں انصاف نہ ہو ذمہ داریوں کی درست تقسیم نہ ہو اخلاقیات و آداب کا فقدان ہو اور معاملات میں غیر ضروری مداخلت ہو کمزور و سادہ فریق کا مالی و جذباتی استحصال ہو تو ایسا جوائنٹ کسی جہنم سے کم نہیں ہوتا اس کا ہرگز بھی کوئی جواز نہیں تراشا جا سکتا ۔
✍🏻 رعنا تبسم پاشا |
|