کندن بہروپیا اور سچ کا لباس
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
سچی بات کہنا کامیابی کی وہ کنجی ہے جو انسان کو نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی کامیابی عطا کرتی ہے، مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دربار کی ایک سبق آموز کہانی! |
|
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) کبھی کبھی ایک معمولی سا فنکار، تخت و تاج پر بیٹھے شہنشاہ کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ کبھی ایک سادہ سا فقیر، پوری سلطنت کی پیشکش کو رد کر کے کردار کی عظمت کا چراغ روشن کرتا ہے۔ اور کبھی ایک بہروپیا، ہمیں زندگی کی وہ سچائیاں سکھا جاتا ہے جو نہ کتابوں میں ملتی ہیں نہ خطبوں میں۔ یہ واقعہ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دربار کا ہے۔ ایک بہروپیا دربار میں حاضر ہوا۔ نام تھا کندن بہروپیا۔ فن کا دعویدار تھا۔ کہنے لگا بادشاہ سلامت "میں ایسا بھیس بدل سکتا ہوں کہ آپ جیسے علم و حکمت کے شہنشاہ کو بھی دھوکہ دے سکتا ہوں۔" اور آپ مجھے پہچان نہیں پائیں گے جس پر آپ مجھے پانچ سو روپے انعام دیں گے ۔ شہنشاہ جو ایسی باتوں کو فضولیات میں شمار کرتا تھا ، ابتدا میں اسے اہمیت نہ دی، مگر بات شرط تک پہنچی۔ طے ہوا کہ اگر بادشاہ نے کندن کو نہ پہچانا تو پانچ سو روپے دینے ہوں گے۔ سال گزرا، شہنشاہ دکن میں مرہٹوں کے خلاف مہم پر روانہ ہوا۔ مرہٹوں کے خلاف جنگ میں ایک مرحلہ ایسا آیا کہ قلعہ فتح نہ ہو سکا۔مقامی لوگوں نے مشورہ دیا گیا کہ یہاں ایک فقیر ولی ہے کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا لیں۔ شہنشاہ حاضر ہوا، فقیر نے صرف اتنا کہا: "کل نہیں، پرسوں بعد نمازِ ظہر حملہ کرنا۔" اورنگزیب نے ایسا ہی کیا۔ فقیر کی دعا اور بادشاہ کے لشکر کی للکار سے قلعہ فتح ہو گیا۔ اورنگزیب اس فقیر کے قدموں میں جا بیٹھا، بڑے بڑے انعامات پیش کیے، پرگنے بخشے، پشتوں تک رعایتیں دیں۔ فقیر نے سب ٹھکرا دیا، صرف ایک بات کہی: "جو کچھ ہوا، اللہ کے حکم سے ہوا۔ ہم فقیر لوگ ہیں، ہمیں یہ عطائیں زیب نہیں دیتیں۔" کچھ عرصے بعد، شہنشاہ اپنے دربار میں بیٹھا فرمان لکھوا رہا تھا کہ وہی فقیر حاضر ہوا جس کی دعا سے بادشاہ کو مرہٹوں کے خلاف کامیابی ملی تھی، اب کندن بہروپیا کی اصل شناخت کے ساتھ حاضر ہوا، اور دعویٰ کیا: "جناب! میں وہی بہروپیا ہوں، شرط جیت چکا ہوں، میرے پانچ سو روپے عنایت فرمائیں۔" شہنشاہ حیران رہ گیا، کہا "جب میں نے تجھے زمینیں، معافیاں اور انعامات دیے، تب کیوں اپنے آپ کو ظاہر نہیں کیا؟" تو کندن نے وہ جملہ کہا جو صدیوں کے تخت و تاج سے زیادہ قیمتی ہے: کہا! "جن بزرگوں کا روپ دھارا تھا، وہ سچے لوگ تھے۔ ہم جھوٹے لوگ ہیں، میں یہ نہیں کر سکتا کہ سچوں کا روپ دھار کر بے ایمانی کروں۔" یہ فقرہ صرف الفاظ نہیں، کردار کی ایک چمکتی ہوئی تلوار ہے۔ آج جب سچ کا نقاب اوڑھ کر فریب دینے والے ہر طرف چھائے ہوئے ہیں، جب فن کو دھوکہ، چالاکی اور شعبدہ بازی سمجھا جاتا ہے، اس لمحے میں کندن بہروپیا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فن اگر دیانت سے نہ جُڑا ہو، تو وہ صرف دھوکہ ہے۔ کندن نے ہمیں یہ سکھایا کہ کردار کا لباس پہن کر، جھوٹ بولنا بدترین خیانت ہے۔ روپ سے زیادہ نیت کا صاف ہونا ضروری ہے۔ اور اگر آپ کسی سچے کے بھیس میں ہوں، تو سچائی کا حق ادا کرنا لازم ہے۔ یہ کہانی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ فن صرف تفریح نہیں، تربیت بھی ہے۔ اور بعض اوقات ایک فنکار، تاریخ کا وہ کردار بن جاتا ہے جو بادشاہوں کو عاجز کر دیتا ہے۔ آج جب ہم ہر روپ کے پیچھے کسی چال، کسی سازش یا ذاتی مفاد کو دیکھتے ہیں، تو کندن بہروپیا جیسا فنکار ہماری سوچ کو بدلنے آتا ہے۔ وہ ہمیں کہتا ہے: "سچ کا لباس پہنو، تو سچ بن کے جیو۔ جھوٹا ہو، تو سچوں کے بھیس میں مت آؤ۔" |
|