ناآشنا

سبزعینک لگاکردیکھنے سے سبزۂ گل نہیں اگتے،خوش حالی پکارنے سے خوشحالی نہیں آتی،”نظام بدل دیں گے” کانعرہ لگانے سے کب بدلا ہے نظام! “تبدیلی، نیاپاکستان”اچھاہے یہ نعرہ،لیکن بے جان لفظ ہیں یہ سب، جب تک فراہم نہیں ہوجاتے۔ انصاف، انصاف کی گردان بے اثررہتی ہےجب عدالتوں میں انصاف نہ ملے یاملنے میں اس قدرتاخیرہوجائے کہ مدعی خاک ہو جائیں تو حقوق انسانی کتابوں میں د رج رہ جاتے ہیں چاہے آبِ زر سے لکھے ہوئے ہوں اور انسان خاک بسرہوں۔ خواب، خواب رہتاہے جب تک تعبیرنہ پائے۔خواہش،تمناہی رہتی ہے جب تک آسودہ نہ ہوجائے۔الفاظ کی بازی گری، تقریروں کا سرکس اوراچھلتے کودتے مسخرے،بس جی بہلانے کیلئے تواچھاہے لیکن جی کے بہلنے سے کب بدلاہے کچھ ۔

چلتے پھرتے مسخروں کی اچھل کودکودیکھئے اورجی بہلائیے۔اتنے سارے مائیک دیکھتے ہی غبارے کی طرح پھول کرکپاہو جاتے ہیں اورپھر دیکھتے اوردیکھتے چلے جائیے۔جناب لوگوں کوروٹی چاہئے،گزربسرکیلئے روزگاردرکار ہے،انصاف چاہئے، بدل دیں گے ہم نظام،کٹ مریں گے ہم اپنے عوام پر،پہاڑچھید کر دودھ کی نہریں نکالیں گے،اپنے خون سے سینچ دیں گے یہ گلشن،”اقتدارمیں آکرپہلے چھ مہینے میں واضح تبدیلی”وغیرہ وغیرہ لیکن اپنے نام کی تختیاں توہر روز نصب ہورہی ہیں لیکن ترجیحات بالکل ہی تبدیل ہوگئی ہیں۔عوام کے ساتھ ساتھ ہم بھی سردھنتے رہتے ہیں۔واہ،واہ…جیوے بھئی جیوے۔کوئی سرپھرا سوال کربیٹھے کہ جناب ایسے کیسے بدلے گانظام،کیا خالی خولی لفظوں سے پیٹ بھریں گے؟توپھررعونت سے تنی گردن ذراسی خم ہوتی ہے: ”گھبرانانہیں،آپ دیکھتے جائیں”یہی تودیکھ رہے ہیں۔عوام جودل میں سوچ رہے ہوں قیادت اسے بھانپ لیتی ہے اوراس کانہ صرف اظہارکرتی ہے بلکہ خودکواس کانمونہ بناکرپیش بھی کرتی ہے۔اوریہ جوبابااقبال نے میرِ کاررواں کیلئے شرائط بتائی ہیں:
نگہ بلند سخن دلنوازجاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفرمیرِکاررواں کیلئے

کوئی آپ کوایسانظرآتاہے؟عوام کیاچاہتے ہیں اوروہ پکار پکارکرتھک گئے ہیں۔ چیخ چیخ کران کے گلے بیٹھ گئے ہیں لیکن کون سن رہاہے،ان کے دل کی پکار! بس اپنی کہے چلے جاتے ہیں۔انہیں سامنے کی چیزنظرنہیں آتی۔ہم ان سے بصیرت اور فراست کے طلبگارہیں۔اندھوں سے بلندنگاہی کے طلبگار …سخن دلنواز توتب ہوجب آپ میں اخلاص کادریابہہ رہاہو۔جاں پرسوزکورہنے دیجئے ،یہ توبہت مقامِ بلند ہے،بہت کٹھن ہے… سوز تودل کاجوہرہے،یہاں دل ہی نہیں توجوہرکی تلاش کے کیامعنی!

یہ سوہنی دھرتی جہاں بچے گٹروں میں گرکرمرجاتے ہیں اورمزدورایڑیاں رگڑرگڑ کر،جہاں خودکشیاں دکھوں کامداوا بن جائیں، خاک بسراپنے لختِ جگر کے گلے میں برائے فروخت کابورڈ لٹکائے سڑک پرکھڑے ہوں،جہاں بیمارہسپتالوں میں دم توڑرہے ہیں، جہاں زندہ لوگوں کومردہ خانے میں رکھ دیا جائے،جہاں جعلی ادویات کے بیوپاری انسانوں کوموت کے گھاٹ اتاررہے ہوں،نوجوان سڑک چھاپ رہے ہوں،جہاں مظلوم قید اورظالم آزادہوں، جہاں دین کو بھی تجارت بنالیاگیاہو،جہاں پر ظلم کے نظام کی حکمرانی ہو اوروحشت رقص کناں،جہاں دانشوری اپنے محلات میں محو آسائش وآرام ہواو ر آنکھ کھلتے ہی انقلاب،انقلاب پکارنے لگے۔ ایسے خوش فہمی کے موسم میں ہم جی رہے ہیں۔

ہمارے ہاتھوں میں انقلاب کے سازہیں اور ہم انہیں بجارہے ہیں۔ہمارے ہاتھ تالیاں پیٹ پیٹ کرلہولہان ہوگئے ہیں۔ ہمارے خواب روٹھ گئے ہیں۔اب ہمیں چاندبھی روٹی نظرآتاہے۔مہنگائی نے جینا دوبھر کردیاہے،آٹا،بجلی،پانی ہماراوظیفۂ جاں ہے۔ایسے میں جب کوئی اپنی لاکھوں کی گاڑی میں بیٹھ کرہاتھ ہلاکر انقلاب کانعرہ لگائے توہم دیوانوں کی طرح اس کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں۔کوئی بے روزگارنوجوان وزیراعلیٰ کی گاڑی کے پیچھے جیوے جیوے کانعرہ لگاتے ہوئے دوڑرہاہو تو پولیس کے ہتھے چڑھ کرپٹتاہے اور سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاجاتاہے۔کیایہی ہے تبدیلی؟جن چہروں کوہم روزانہ ٹی وی اسکرین پرمائیک کے پیچھے سے ارشاد فرماتے سنتے ہیں،ایسے چہرے کب تبدیلی لائے ہیں!اداکاراچھے ہیں،ہرکردارمیں ڈھل جاتے ہیں۔خوب مزے اڑاتے ہیں، ڈیل ڈیل کرکے پاک پوتربن جاتے ہیں اوراشراف کہلاتے ہیں۔ہم اورآپ سادہ ہیں۔ سادہ ہیں یابے وقوف؟ سادگی تواچھی خوبی ہے لیکن بے وقوفی؟چلئے رہنے دیتے ہیں۔ذراسوچئے تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی ،سراب کوپانی سمجھنے والوں نے کب فلاح پائی ہے؟ دھوکاہی دھوکا،فریب … … … سب کچھ بکاؤ……سب کچھ۔ دنیابھی دین داری بھی۔
وہ جواقتدارکے حصول کیلئےپاکستان میں آزمودہ گھسے پٹے سیاسی چہروں کو ساتھ ملا کرتبدیلی کادن رات نعرہ لگاکرقوم کی نوجوان نسل کونت نئے خواب دکھا کرہلکان ہوئے جارہے ہیں،اپنی جماعت میں انتہائی شریف النفس ایماندارقانون دان ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین صاحب کومحض اس لئے برداشت نہ کر پائے کہ انہوں نےاپنی ہی جماعت کے بدعنوان عناصر کی نشاندہی کی اوربالآخرانہوں نے مستعفی ہوکراس تبدیلی سے اپنی جان چھڑالی اورموصوف اب بھی ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے آئے دن اورعوام کے کمزورحافظے سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی دلیری سے دندناتے پھررہے ہیں۔

اگرآپ اسی میں خوش ہیں توپھرروتے کیوں ہیں؟ ہنسیں،کھیلیں،موج اڑائیں۔اسے ہی اگرزندگی کہتے ہیں توموت کوکیا کہتے ہیں؟ عزتِ نفس کیاہوتی ہے ؟ حقوقِ انسانی کیاہوتے ہیں؟آزادی کیاہوتی ہے؟خودمختاری کی تعریف کیاہے اوریہ جمہوریت کس بلاکانام ہے کہ جب بھی حکمرانوں کو ان کے انتخابی وعدے یاددلائیں توجمہوریت پرلرزہ طاری ہوجاتا ہے ۔ اب یہ توآپ ہی مجھے بتائیے کہ جمہوریت کی کیاخوبیاں ہیں،میں تودورِجدید کی نئی لغت سے ناآشنا ہوں۔
کیٹاگری میں : آج کاکالم، پاکستان
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315793 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.