شارٹ ٹرم پلان !!

لائف انشورینس کی پالیسی رکھنے والوں کو یہ بات ا چھی طرح سے معلوم ہے کہ لائف انشورینس میں ایک شارٹ ٹرم پلا ن اسکیم ہوتی ہے اور دوسری لانگ ٹر م پلان اسکیم ہے ،شارٹ ٹرم پلان میں پالیسی ہولڈر کچھ عرصے کیلئے انویسٹمنٹ کرتا ہےپھر اسکا نفع لے کر خاموش بیٹھ جاتاہے اور اسی میعاد کے دوران اسکا رسک کور ہوتا ہے جبکہ لانگ ٹرم پلان میں پالیسی ہولڈر کو کسی بھی طرح سے نقصان اٹھانا نہیں پڑتا یہاں تک کے جب وہ مرجاتا ہے تب بھی اسکی پالیسی کا فائدہ اسکے گھر والوں کو لمبے وقت تک ملتاہے۔لیکن لوگ شارٹ ٹرم پلان پر ہی زیادہ سرمایہ داری کرتے ہیں کیونکہ انہیں منافع کھاکر خاموش رہنا اچھا لگتاہے اسی طرح سے مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے وہ کبھی بھی لانگ ٹرم پلان پر یقین نہیں رکھتے انہیں ہر کام شارٹ میں چاہئے ، چاہے وہ تعلیم ہو یا روزگار یا کاروبار انہیں شارٹ کٹ میں ہی سب کچھ ہونا چاہئے ۔یہی وجہ ہے کہ آج 94 سال قبل قائم ہونے والی آر یس یس ملک پر راج کررہی ہے اور 800سال ملک پر حکومت کرنے والے مسلما ن بے بس و لاچا ر ہوچکے ہیںکیونکہ مسلمانوںنے کبھی بھی لانگ ٹرم پلاننگ نہیں کی ہے ۔ بھارت میں پچھلے 2 مہینوں نے کورونا وائرس کی وباء پھیلنے کے بعد جب مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا خصوصََا تبلیغی جماعت کو نشانہ کیا گیا اسکے بعد سے لوگ شدت کے ساتھ اس بات کو محسوس کررہے ہیں کہ کاش مسلمانوں کی حمایت میں بھی ایک میڈیا ہائوز بنا ہوتا تو آج مسلمانوں کی ترجمانی کیلئے ایک طاقت ہوتی ۔ لیکن یہ ابھی بھی سوشیل میڈیا پر زیر بحث مدعہ ہے میڈیا ہائوز کا پلان عمل میں آنے کیلئے کافی وقت ہے ، دوسری جانب ہم دیکھ رہے ہیں کہ لاک ڈائون کے ماحول میں کس طرح سے لوگ کھانے پینے کی اشیاء کو غرباء و مساکین کو تقسیم کرنے کے مقابلہ آرائی کررہے ہیں ، ہماری نظروں کے سامنے ہی ایک چھوٹے سے شہر میں 23 لاکھ روپئے کا راشن ایک گروپ نے خرچ کیے ہیں جبکہ اسی شہر میں اور بھی مسلم گروپس نے امدادی کام کیا ہے ،جبکہ جانکاروں کا کہنا ہے کہ اس شہر میں اتنے بڑے پیمانے پر امداد ی کام کی ضرورت نہیں تھی لیکن نوجوانوںنے کر دکھایا ہے ۔ لاک ڈائون ہوا ،لوگوں کے پاس وسائل نہیں ہیں ، لوگ پریشان ہیں ایسے میں مسلم تنظیموں نے جوش اور ہمدردی کا جذبہ دکھاتے ہوئے محض 10 دنوں میں 23 لاکھ روپئے جمع کردیے۔ اب دوسری مثال لیں ، جب کرناٹک میں ین پی آر کے سلسلے میں احتجاجات ہورہے تھے اس وقت پولیس کے تشدد کا شکار ہونے والے دو نوجوانوں کو ریاستی حکومت کی جانب سے مالی امداد دے کر واپس لی گئی تو مسلمانوںنے اپنی بھائی چارگی اور اخوت کے جذبے کے سائے میں آکر ایک ہی جمعہ کی نماز کے بعد 65.1 کروڑ روپئے وصول کر شہید ہونے والے نوجوانوں کے لواحقین کے سپر د کئے گئے ۔ جب دو شہد اء کیلئے اتنی بڑی رقم جمع ہوسکتی ہے تو کیا کسی مستقبل منصوبے کیلئے مسلمان رقم جمع نہیں کرسکتے ؟۔ یقیناََ مسلمان رقم جمع کرسکتے ہیں ، مسلمانوں کے پاس وہ طاقت اور جذبہ ہے لیکن مسلمان میڈیا کی ضرورت کو مستقل نہیں مانتے ۔ اگر مسلمانوں کے پاس ایک مستقل میڈیا ہائوز قائم ہوجائے تو یقینََا مسلمانوں کے بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں ، جو حکومت آج مسلمانوں کی آواز سننے کے بجائے بہری ہونے کا ناٹک کررہی ہے وہ نہیں کرتی ۔ فوڈ پیکٹ دینا ، پا نی پلانا اس سب کیلئے حکومت کے پاس وسائل ہیں لیکن ان وسائل کو خرچ کرنے اور بچانے کیلئے میڈیا ہی مجبور کرتا ہے کیونکہ آج کے سسٹم میں میڈیا کے بغیر حکومت لنگڑی لولی ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان سنگین حالات میں حکومت خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ جو جوش اور جذبہ مسلمان کسی کو ایک وقت کا کھانا کھلانے کیلئے دکھا رہے ہیں وہی جذبہ میڈیا کو شروع کرنے کیلئے دکھاتے تو آج مسلمان اس قدر ذلیل و خوار نہ ہوتے ۔ اب مسلمانوں کواس سمت میں سوچنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ مسلمان بہت خسارے میں رہ جائینگے ۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 198093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.