کورونا کے قہر کی ابتداء میں حکومت ِ ہند چین کے
وُہاں شہر سے اپنے 300 طلباء کو واپس لانے کا اہتمام کیا ۔ اس مشکل وقت میں
بھی ایک ہندوستانی ہائیڈرو بایولوجسٹ ارونجیت نے وہیں رہنا پسند کیا ۔ اس
صورتحال کا موازنہ 24 مارچ کو ہندوستان میں نافذ ہونے والے لاک ڈاون سے
کریں جس ملک کا چہیتا وزیر اعظم اپنے لوگوں کورونا وائرس کی موت سے بچانے
کے لیے گھر میں رہنے کی تلقین کررہا تھا اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس کی
مرضی کے خلاف نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ارونجیت پردیس کے اندر 73 دنوں تک اپنے
کمرے میں تنہا بند رہے۔وہ ہندوستان لوٹ سکتے تھے، لیکن انہوں نے سوچاکہ اگر
وہ ہندوستان آجائیں تو ممکن ہے کورونا وائرس کی کچھ علامات بھی ان کے ساتھ
ہندوستان پہنچ جائ اور ان کے اہل خانہ کو بھی خطرہ لاحق ہوجائے لیکن یہی
بات ہندوستان کے اندر بسنے والے ان لوگوں کے ذہن میں نہیں آئی جو شہروں سے
گاوں کی جانب چل پڑے تھے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کے فیصلے ایک ایسے فیصلے کی
جس میں کوئی سیاسی یا معاشی مفاد نہ ہو عوام نے ایسی مخالفت کیوں کی؟ وہ
کیا چیز تھی جو ان لوگوں کو گھر میں بندرکھنے کے بجائے سڑکوں پر لے آئی؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے اس قبر میں اترنا پڑے گا جس میں یہ غرباء
اور مساکین رہتے ہیں۔
یہ ہمارے سماج کو وہ غریب اور پسماندہ طبقہ تھا جسے پانی پینے کے لیے ہر
روز کنواں کھودنا پڑتا ہے ۔ یہ لوگ جن گھروں سے نکلے ہیں ان کو وہ کرائے کا
مکان ہے جس کا ہرماہ گھر کا کرایہ دینا پڑتا ہے۔ اس کرائے کی ادائیگی کے
لیے ہر روز محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے۔ جب ان کی کمائی بند ہوجاتی ہے تو
کرایہ بھی ادا نہیں ہوپاتا اور اپنے جھروکے میں کھڑے ہوکر گھنٹی بجانے والا
اور دیا جلانے والا مکان مالک ان کا سامان سڑک پر پھینک دیتا ہے۔ وہ متوسط
اور امیر طبقہ خود تو وزیراعظم کی اطاعت کرکے گھر میں بیٹھ جاتا ہے لیکن
اپنے کرایہ دار کو بغیر لکشمی کے ان کے گھر میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔
اس خودغرضانہ اور منافقانہ رویہ نے غریبوں کو سرکارکی خلاف ورزی پر مجبور
کیا تھا۔ حکومت کو اگر ان غرباء و مساکین کے دکھ درد کا احساس کا ہوتا تو
وہ پہلے یہ اعلان کرتی کہ اگلے ایک ماہ تک کوئی مکان مالک کرایہ دار سے گھر
خالی نہیں کرائے گا یا سرکاری خزانے سے کرایہ ادا کیا جائے گا ۔ اس صورت
میں نہ کوئی گھر خالی کراتا اور نہ کوئی گھر سے نکلتا ۔ یہ پاکھنڈی حکمراں
اگر غریب عوام کے ہمدرد و بہی خواہ ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی ۔
انسان کی بنیادی ضروریات میں مکان سے پہلے روٹی کا نمبر آتا ہے۔ اپنے
گھروں سے نکل پڑنے والے ان غریبوں کے پاس بینک بیلنس تو دور وہ بنک اکاونٹ
بھی نہیں ہوتا جس میں وزیر خزانہ ان کی امدادی رقم جمع کرانا چاہتی ہیں۔
ایسے میں و ان کے لیے سرکاری امداد سے استفادہ کیونکر ممکن ہے ؟ اب سوال یہ
ہے کہ اگر یہ لوگ اجنبی شہر کے گھر میں بیٹھ رہیں گے تو کھائیں گے کیا؟
سرکار نے انسانی ہمدردی کا پروچن دے کر ٹھیکے داروں کو بغیر کام کےتنخواہ
دینے کی تلقین تو کردی لیکن یہ بھول گئی کہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر وہ
انسانیت کا جنازہ بہت پہلے اٹھا چکی ہے۔ اس نے عوام کے سامنے خود غرضی اور
جعلسازی کے ایسے عملی نمونے پیش کیے ہیں کہ ان کے بھکتوں کے دل میں ایثار و
قربانی کا خیال بھی نہیں آسکتا۔ رہنماچونکہ اعلیٰ درجے کے موقع پرست اور
ابن الوقت ہیں اس لیے ان کی اتباع کرنے والے قوم کی بے لوث خدمت نہیں
کرسکتے ۔
جمہوری نظام میں اعلانات عوام کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں بلکہ ان کو
بیوقوف بناکر ان سے فائدہ اٹھانے یعنی ووٹ بٹورنے کے لیے کیے جاتے ہیں ۔
اسی طرح کا اعلان وزیر خزانہ نے کردیا کہ کوئی بھی شہری بھوکا نہیں سوئے گا
۔ غریبوں کے لیے ۲ روپئے کلو چاول اور ۳ روپئے کلو گیہوں فراہم کیا جائے گا
لیکن اس کی رسد (سپلائی )کو یقینی نہیں بنایا گیا ۔ ان لوگوں میں سے کئی تو
ایسے ہیں کہ جن کے پاس راشن کارڈ تک نہیں ہے ۔ جن کے پاس ہے تو وہ گاوں کے
پتہ پر ہے ۔ سرکار نے ایک فارم جاری کیا جس میں بغیر راشن کارڈ والوں کو
اناج کی فراہمی کا اعلان کیا گیا مگر اس پر کلکٹر کی دستخط کو لازم قرار
دیا گیا۔ کلکٹر کے دفتر میں جاو تو وہاں جواب ملتا ہے کہ ابھی ان تک تحریری
حکمنامہ نہیں پہنچا ۔ ایسے میں ٹیلی ویژن پر اعلان کرنے کے بجائے اگر ہر
محلے میں ضروریات زندگی کو مفت میں پہنچایا جاتا تو وہ لوگ اپنے بال بچوں
کو لے کر سیکڑوں میل کے سفر کی صعوبت کیوں برداشت کرتے ؟
خود غرض سیاستداں تو اپنے ذاتی مفاد کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے لیکن غریبوں
کا معاملہ صرف ان کی اپنی ذات تک محدود نہیں ہے کہ اپنا پیٹ بھر گیا تو کام
ہوگیا۔ وہ لوگ چار پیسے کماتے ہیں تو اس میں سے دو پیسہ گاوں میں اپنے
بوڑھے والدین اور بھائی بہن کے لیے بھیجتے ہیں ۔ انہیں اپنے گھروں میں بند
رکھنے کے لیے یہ یقین دلانا بھی ضروری تھا کہ دور دیس میں بوڑھے ماں باپ کا
پیٹ بھی بھر رہا ہے ۔ اس کے بغیر اس جم غفیر کو محض یہ کہہ کر روک دینا
ناممکن تھا کہ تمہاری وجہ سے کورونا وائرس شہر سے نکل کر گاوں پہنچ جائےگا۔
جن سیاستدانوں کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں وہ تو کورونا کی وباء سے ڈرتے ہیں لیکن
ملک کی ایک بہت بڑی آبادی کورونا سے زیادہ بھکمری سے خوفزدہ ہے۔ اس خاموش
اکثریت کے درد کو برسوں تک نظر انداز کیا گیا لیکن اس بار اس نے اپنے جذبۂ
عمل سے اپنے من کی بات ساری دنیا تک پہنچا دی ۔ ان لوگوں کے نزدیک وزیر
اعظم کے من کی بات اور وزیرخزانہ کے دھن کی بات بے معنیٰ ہے۔ سرکار کی
کسیوعدے پر ان کو اعتماد نہیں ہے ۔ وہ سرکار کو اپنا ہمدرد و خیر و خواہ
سمجھتے ہی نہیں ۔
کورونا نے اس سوال کو بھی اہم بنا دیا ہے کہ عوام کے نزدیک سیاستداں کس
چڑیا کا نام ہے؟ لوگ انہیں قومی یا ریاستی انتخاب کے وقت منصۂ شہود پر
نمودار ہونے والے چمگادڑ کی حیثیت سے جانتے ہیں کہ جس کے جلسے میں جا کر
تالی بجانے پر بغیر محنت کے ایک دن کی مزدوری کے ساتھ ایک وقت کا کھانا مفت
میں مل جاتا ہے۔ ان اچھی اچھی تقریروں سے تھوڑا بہت تفریح کا سامان ہوجاتا
ہے ۔ طرح طرح کے دلپذیر نعروں کو سن کر دل تو بہلتا ہے مگر جذبات بھی
بھڑکتے ۔ وہ کبھی کبھار ان سے فساد برپا کروا کر اپنے ہی بھائیوں کا مال
لوٹنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں ۔ نظم و نسق کو قائم کرنے کے نام پر
آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں ۔ سرکاری خزانے اور عوامی رشوت پر عیش
کرتے ہیں۔ سرکاری سیاستداں انہیں یہی سب کرتے کراتے نظر آتے ہیں ۔ اس لیے
وہ ان پر اعتماد کرنے کے بجائے خود اپنے اعزہ و اقارب کے کا سہارا بننے یا
مدد لینے کی خاطر اپنے گاوں کی جانب نکل گئے کیونکہ ؎
نہ ہو جس پہ بھروسہ اس سے ہم یاری نہیں رکھتے
ہم اپنے آشیاں کے پاس چنگاری نہیں رکھتے
دیش بندی کے خلاف جب غیر متوقع طور پر یہ بے اختیار ریلا نکلا تھا تو سرکار
کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ان کو کیسے قابو میں کرے ؟ امیت شاہ جو کورونا
کے خوف سے اپنی تجوری میں چھپے بیٹھے تھے اچانک بیدار ہوئے اور ریاستوں کو
وزرائے اعلیٰ کو حکم دیا کہ سختی سے کرفیو نافذ کیا جائے ۔ ان کو سوچنا
چاہیے کہ دہلی پولس ان کے قبضے میں ہے ۔ وہ اگر ایک شہر سے نکلنے والے
لاکھوں لوگوں کو روکنے کی سکت نہیں رکھتے تو گجرات کا وزیراعلیٰ راجستھان
جانے والے پیدل محنت کشوں کو کیسے روکے گا َ ؟ راجستھان سے اتر پردیش جانے
والے مزدوروں کو کیسے روکا جائے گا؟ کرناٹک سے تمل ناڈو آنے والوں کو
روکنے کی کیا سبیل ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔ انہوں ریاست اور ضلعی سرحد کو سیل
بند کرنے کی تلقین بھی کی لیکن اگر کوئی خاندان سو دوسو کلومیٹر چل کر سرحد
پر آجائے تو اس کو واپس بھیجنا کس قدر غیر انسانی عمل ہوگا اس پر غور کرنے
کی توفیق وزیرداخلہ کو نہیں ہوئی ۔ ان میں اگر عقل سلیم ہوتی تو ایسا
ناعاقبت اندیش فیصلہ کرنے کے بجائےپریشان حال لوگوں کے لیے راستے کی سہولت
کا بندوبست کرتے۔
ان احمقانہ فیصلوں کے خلاف مجبوراً بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ کو بھی
وزیراعظم کی پابندی کے خلاف بسوں کا انتظام کرنا پڑا ۔ ان بسوں میں سماجی
فاصلے کی تلقین پوری طرح پامال ہوگئی ۔ لوگ بسوں کے اندر تو دور چھت پر بھی
سوار ہوگئے۔ اس کے بعد ہائی وے پر ان کے لیے اسٹیڈم تک میں کیمپ لگانا پڑا۔
یعنی کہاں تو ۵ افراد کے جمع ہونے پر پابندی تھی اس لیے شاہین باغ کو اکھاڑ
پھینکا گیا اور کہاں پانچ سو سے پانچ ہزار لوگوں کو ایک جگہ جمع کردیا گیا
۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ ان کیمپوں میں انہیں ۱۴ دن رکھا جائے گا ۔ اس طرح
دیش بندی میں مجمع نہ لگانے کے مقصد کو سرکار نے ازخود فوت کردیا ۔ وہ
میڈیا جو تبلیغی جماعت کے مرکز میں جمع لوگوں کے سبب پریشان ہے اس کو
سرکاری اسٹیڈیم میں جمع یہ بھیڑ نظر نہیں آتی جو دو دن قبل ہزاروں کی
تعداد میں بس اڈوں پر جمع تھی۔ حکومت کے لیے یہ مسئلہ کچھ یوں ہوگیا ہےکہ
چھوڑو تو بھاگتا ہے پکڑو تو کاٹتا ہے اور ہر صورت میں نقصان پہنچاتا ہے۔
بات چین سے شروع ہوئی تو وہیں ختم کی جائے۔ وُہان میں زندگی معمول پرآنے
لگی ہے لیکن جب وہ کورونا وائرس کا مرکز بنا تو وہاں رہنے والےپاکستانی
طلبا وطن واپسی کے لیے بے چین ہوگئے۔ تاہم پاکستانی حکام نے واپس لانے سے
انکار کر دیا لیکن اب ان طلبا کا بھی کیرالا کے اورنجیت کی طرح خیال ہے کہ
چین میں رہنا زیادہ بہتر ثابت ہوا اوراب وہ بھی پاکستان واپس آنا نہیں
چاہتے۔ ہوزونگ یونیوسٹی میں سول انجنیئرنگ کے طالب علم ندیم بھٹیکا کہنا ہے
کہ وہ ایک جذباتی فیصلہ تھا، لیکن اب ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا وہاں رکنا بہتر
تھا ۔ پاکستان میں تو ٹیسٹنگ کٹس اور پی پی ای کی کمی ہے اور حکومت سماجی
فاصلے سے متعلق ضوابط کو بھی سختی سے نافذ نہیں کر پا رہی۔وُہان یونیورسٹی
کےطالبعلم امجد حسین کا بھی خیال ہے کہ پاکستان میں کورونا کے حوالے سے
سہولیات کا فقدان ہے جبکہ ی چینی حکومت نے ہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ یہ
ہندو پاک کے سیاستدانوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ان کے باشندے ایک غیر
ملکی حکومت پر ان کی اپنی سرکار سے زیادہ اعتماد کیوں کرتے ہیں؟
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|