نوٹ بندی سے دیش بندی تک

کورونا کی افراتفری کے دوران دوہزار کی نوٹ سےمتعلق ایک افواہ نے عوام کو تشویش میں مبتلا کردیا لیکن ریزرو بینک آف انڈیا نے آر ٹی آئی کے جواب میں وضاحت کردی کہ 2000 روپے کے نوٹ کی چھپائی بند کی گئی ہے لیکن بازار میں موجود 2000 کے نوٹ واپس نہیں لئے گئے ہیں۔ اس طرح گویا نوٹ بندی کے بھیانک خواب کو دھیرے دھیرے بھلایا جارہا ہے لیکن کورونا کے سبب نافذ کی جانے والی دیش بندی کا قہر جاری ہے۔ مستقبل کا مورخ وزیر اعظم نریندر مودی کے دو کارناموں کو نظر انداز نہیں کرسکےگا۔ اتفاق سے دونوں کا اعلان کرنے کے لیے ۸ بجے کا مہورت نکالا گیا اور انہیں ۴ گھنٹے بعد رات 12بجے نافذ کردیا گیا ۔نظام الاوقات کے علاوہ نوٹ بندی اور دیش بندی(لاک ڈاون) ، دونوں میں زبردست ناکامی قدرِ مشترک ہے لیکن ایک فرق بھی ہے ۔ نوٹ بندی کے ٹیکہ آزمائش کےبغیر لگا دیا گیا تھا لیکن دیش بندی سے پہلے اسے آزما کر دیکھا گیا ۔

جنتا کرفیو دراصل دیش بندی کا پیش خیمہ یعنی اس کی ایک عوامی آزمائش تھی۔ اس سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی کہ لاک ڈاون جیسے کے اقدام کو عوام میں شرف قبولیت حاصل ہوگا یا لوگ اس کو ماننے سے انکار کردیں گے ۔ جمہوری نظام میں کسی اقدام کی درستگی یا افادیت کی بہ نسبت اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ناراضگی یا مقبولیت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس لیے بہت سارے غیر مفید کاموں پر وسائل کو کھپایا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اہم ترین مسائل کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ قومی ترجیحات کو جب اقتدار کی حرص و ہوس کا تابع بنادیا جائے تو اس سےجمہوری حکمراں عیش کرتے ہیں مگرجمہور خسارہ اٹھاتے ہیں ۔جنتا کرفیو چونکہ ایک منفی اقدام تھا یعنی لوگوں کو کچھ کرنے کے بجائے رکنے کی تلقین کی گئی تھی اس لیے یہ جاننا مشکل تھا کہ اس میںلوگ اس میں برضا و رغبت شرکت کررہے ہیں یا بادلإ ناخواستہ شامل ہوئے ہیں ۔ اس لیے جنتا کرفیو کے اندر تالی، تھالی یا شنکھ بجانے والا عملی قدم شامل کیا گیا جس میں کچھ کرنے کی ترغیب دی گئی تھی ۔ اس سے یہ پتہ چلانا مقصود تھا کہ لوگ مودی جی باتوں پر کتنا کان دھرتے ہیں ۔

اسی تالی اور تھالی پیٹنے کے عمل نے مودی سرکار کو خوش فہمی کا شکار کرکےبڑی گڑ بڑ کردی ۔ شام ۵ بجے کی دعوت پر عوام کے جوش و خروش سے لبیک کہنے کی کئی وجوہات تھیں مثلاً بھکتوں کو اپنی عقیدت کے اظہار کا موقع ملا سو انہوں نے اس کو غنیمت جانا اور فاصلے بنانے کے بجائے ان کو ختم کرکے نہ صرف جلوس نکالا بلکہ ناچ گانا تک کر ڈالا۔ اس کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ لوگ صبح سے شام تک گھر میں بیٹھے بیٹھے بور ہوچکے تھے اور چونکہ کرفیو ابھی پوری طرح ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ پکنکمنانےکے لیے نکل جاتے اس لیے تالی اور تھالی بجانے کو انٹرویل ( درمیانی وقفہ) کے طور پر کیا استعمال کیا گیا۔ عوام نے اپنی دن بھر کی بوریت دور کرنے کے لیے خوب شور شرابہ کیا ۔
جنتا کرفیو کے تیسرا پہلو معروف ہستیوں (celebrities) کے ذریعہ میڈیا میں آکر اپنی شراکت داری درج کرانی تھی۔ ٹیلی ویژن والوں کوجنتا کرفیو کی زبردست کامیابی کو ثابت کرنے کی سپاری دی گئی تھی اس لیے حقِ نمک ادا کرنا ان کی مجبوری تھی لیکن سوال یہ تھا جو شے غیر موجود ہو اس کی شہادت کہاں سے لائی جائے؟ کسی عام آدمی کو ٹیلی ویژن پر دکھاکر اس کا تعارف کرانے سے بہتر ہے کہ ایسے فرد کو تالی یا شنکھ بجاتے ہوئے پیش کیا جائے جو محتاج تعارف نہ ہو۔ اس طرح معروف شخصیات اورمیڈیا کے درمیان ایک ناپاک گٹھ جوڑ بن گیا۔ امیتابھ بچن جیسے لوگ کہ جنھیں آج کل کوئی پوچھتا تک نہیں اور ٹی وی پر آنے کے لیے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں مفت میں شہرت مل گئی۔ بچن نے تو آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کیا کہ اماوس کی رات میں گھنٹی بجانے سے نحوست ٹل جاتی ہے۔ راہل گاندھی اگر یہ بیان دیتے تو میڈیا میں ان کا خوب مذاق اڑایا جاتا کیونکہ اس کے بھی پیسے ملتے ہیں لیکن اگر فلمی دنیا کا سپر اسٹار امیتابھ بچن سیاسی دنیا کے ڈوپر اسٹار نریندر مودی کی تائید میں گھنٹا بجاکر شنکھ پھونک رہا ہو تو کو بھلا اس چیلنج کرنے کی جرأت کون کرسکتاہے؟ کسی میں یہ پوچھنے کی ہمت نہیں تھی کہ شام پانچ بجے اماوس کی رات کہاں سے نمودار ہوگئی؟

کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جنتا کرفیو کی باکس آفس پر سوپر ڈوپر کامیابی نے مودی پروڈکشن کو مالا مال کردیا ۔ ان کے حوصلے بلند ہوگئے ۔ یہ خوش فہمی پھیل گئی کہ سارا ملک وزیراعظم کا شیدائی ہے اور کورونا کے خوف نے ہر کس و ناکس کو مودی جی کی ہر بات ماننے کے لیے بیتاب کردیا ہے ۔فلمی دنیا میں جس طرح مختلف سپر ہٹ فلموں کے (sequel) بنائے جاتے ہیں اسی طرح جنتا کرفیو کے دودن بعد لاک ڈاون کی صورت میں دیش بندی ریلیز کردی گئی۔ اس موقع پر وزیر اعظم بہت جوش میں تھے ۔ انہوں نے رات ۸ بجے ریل اور ٹرین بند کرکےغریب و متوسط طبقے کے تو پر کتر دیئے لیکن داخلی ہوائی سفر پابندی دودن بعد سے لگائی تاکہ پارٹی کو چندہ دینے والے دھنا سیٹھ بڑے آرام کے ساتھ اپنے گھروں تک پہنچ سکیں ۔ یعنی جہاں ووٹ دینے والوں کی مشکلات کے بارے میں بالکل بھی نہیں سوچا گیا وہیں نوٹ دینے والوں کا خوب خیال رکھا گیا۔ آئین کی نظر میں مساوات کے قانون کی اس جدید تشریح اور توضیح میں ووٹ پر نوٹ نے فوقیت حاصل کرلی ۔

حکومت کی جانب سے کی جانے والی اس ناانصافی کے خلاف خاموشی کے ساتھ ایک ایسی بغاوت رونما ہوئی جو کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھی ۔ وزیر اعظم کے خلاف ایک غیر معمولی سول نافرمانی کے طوفان نے جنتا کرفیو کے غبارے کی ہوا نکال دی ۔ لاکھوں لوگ اپنے سر سے کفن باندھ کر مع اہل و عیال بغیر کسی سواری کے پیدل نکل پڑے ۔ ان لوگوں نے ثابت کردیا کہ وزیر اعظم کے اعلان پر تالی بجانے والوں سے بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ان احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ۔ ان کے دل میں نہ تو کورونا جیسی وباء کا خوف ہے اور نہ انہیں سرکاری پابندی کی پرواہے۔ ان کو نہ تو کسی سواری کی حاجت تھی اور نہ تو صوبائی سرحدوں کی ناکہ بندی انہیں روک سکی ۔ انسانوں کا یہ سیلاب اپنی جان ہتھیلی پر لے کر نکل پڑا تھا ۔ ان کےآگے حکومت ، پولس ، فوج اور انتظامیہ سب بے بس ہوگئے تھے ۔ ان لوگوں نے نہ تو جنتا کرفیو منایا تھا اور نہ شنکھ یا تھالی بجائی تھی لیکن اپنے دلیرانہ اقدام سے دیش بندی کو پامال کرکے سرکار کی بینڈ بجا دی تھی ۔ مودی سرکار نے جن کو بھلا رکھا تھا انہوں نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ منظر دکھائی دیا؎
جانے کس رنگ سے آئی ہے گلستاں میں بہار
کوئی نغمہ ہی نہیں شور سلاسل کے سوا

غریب و محروم طبقات کا اس طرح نکل کھڑے ہونے پر ملک کے دانشور حضرات نے اپنی تشویش کا اظہار تو کیا لیکن ان میں سےو بیشتر نے اس رویہ کے پیچھے کارفرما وجوہات کا پتہ لگانے کی سعی نہیں کی بلکہ مشاہدات کو بیان کرنے پر اکتفاء کیا۔ اس عمومی بغاوت کی بنیادی وجہ ان غریب لوگوں کا سماج کے دیگر طبقات پر عدم اعتماد ہے ۔ یہ لوگ جان چکے ہیں کہ پیٹ بھرنے کے لیے خون پسینہ بہانہ لازم ہے۔محنت و مشقت کے مواقع ختم ہوجانے کی صورت میں کوئی انسانیت کی بنیاد پر ان کے نام نہیں آئے گا ۔ صارفیت زدہ معاشرے میں مادی فائدہ پہنچا نے محروم شخص کو جینے کا حق نہیں ہے ۔ یہ سفاک سماج اس فرد کو مرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے جس کی مادی افادیت ختم ہوجائے ۔ دیش بندی ان سے روزگار چھین کر انہیں زندہ رہنے کے حق سے محروم کردے گی اور یہ بے حس و سنگدل سماج ان کی موت دو آنسو بھی نہیں بہائے گا ۔ مادہ پرست لوگا س وقت تک اپنے حال میں مست رہیں گے جب تک کے شیئر بازار کا گرنا نہ شروع ہو کیونکہ ان کے نزدیک غریبوں کا بھوک سے مرجانے کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔

مندرجہ بالا نتائج محض خیالی مفروضات پر منحصر نہیں ہیں بلکہ یو ٹیوب پر بکھری ہوئی سیکڑوں مہاجر مزدوروں کی ویڈیوز میں بین السطور یہی پیغام پوشیدہ ہے ۔ انڈین ایکسپریس کے کچھ جانباز نامہ نگاروں نے شمالی ہندوستان کی مختلف سڑکوں پر جب پیدل مزدوروں سے سوالات کیے تو ان کے چشم کشا جوابات نے جمہوریت کی قلعی کھولکر رکھ دی۔ ایک نوجوان نے بتایا چونکہ میں کرایہ نہیں ادا کرسکتا ، جلد ہی میرے پاس پیسے ختم ہوجائیں گے اس لیے جارہا ہوں ۔ نامہ نگار نےایک مزدور کی تو جہ سڑک پر آویزاں ایک بورڈ کی جانب مبذول کرائی کہ جس پر لکھا تھا ایکسپریس وے پر پیدل چلنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے جواب میں نوجوان نے کیمرے کی جانب اشارہ کرکے کہا یہ میری تیز رفتاری کا اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ ایک اور چونکانے والا جواب اس وقت سامنے آیا جب پوچھا گیا تم کیوں چل رہے ہو؟ تم کہاں تک پہنچوگے؟ دور کا مسافر بولا ’’اور راستہ کیا ہے ‘‘ گویا کہہ رہا ہو؎
باعث رشک ہے تنہا رویٔ رہ رو شوق
ہم سفر کوئی نہیں دورئ منزل کے سوا

اوبھڑ کھابڑ راستوں پر رواں دواں لوگوں کا بال بچوں کے ساتھ چلتے جانا بے معنیٰ سا لگتا ہے لیکن جب ان سے بات کی جائے تو معنیٰ و مطلب کا ایک جہاں روشن ہوجاتا ہے۔ سورت شہر سے راجستھان پیدل جانے والے ایک شخص سے نامہ نگار نے پوچھا حکومت مفت میں کھانا فراہم کررہی ہے تو تم کیوں جارہے ہو؟ تو اس کا جواب تھا میں خیرات پر زندگی نہیں گزار رہا تھا ۔ میں ایک دوکان میں ایمانداری سے کام کر کے اپنے اہل خانہ کو روپیہ بھیجتا تھا۔ میں جیل کی مانند کسی خیمہ میں کیوں رہوں ؟ میرے بچے وہاں ہیں ۔ وہ اگر بیمار ہوگئے تو ان کا خیال کون رکھے گا؟ گاوں میں ہمارے پاس کھیت ہےجس سے ہمیں اناج ملتا ہے۔ وہاں پر کرایہ نہیں لگتا۔ گاوں سے باہر کے مزدور اپنے گھروں کو جاچکے ہیں ۔ اگر ہم دھان نہیں کاٹیں گے تو کون کاٹے گا؟ کیا شہر کے لوگوں کو ان مسائل کا ادراک ہے۔

ایک نوجوان نے شکایت کے ساتھ سوال کیا امیروں کو ہوائی جہاز سے جانے کا موقع دیا گیا ۔ انہوں نے دودن ریل اور بس کی اجازت کیوں نہیں دی؟ کیا حکومت کے پاس کوئی منصوبہ تھا ؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خاموش اکثریت بولتی نہیں یا جوکچھ بولتی ہے اس کو کوئی نشر نہیں کرتا لیکن سوچتی ضرور ہے ۔ اس نے اپنے سفر کی یہ وجہ بیان کی کہ اب ہمارے لیے شہر میں کچھ نہیں ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ کورونا خطرناک ہے ۔ ہمارے گاوں میں ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گے اور اپنے خاندان کا خیال رکھ سکیں گے۔ موت انسان کو خوفزدہ کردیتی ہے۔ اسی سے ڈراتے ہوئے ایک نامہ نگار نے بہار جانے والے ایک مسافر سے سوال کیا پردھان منتری کو نہیں سنا کیا ؟ بار بار کہہ رہے ہیں گھر میں رہو یہ بیماری خطرناک ہے ۔ اس پر ایک دیہاتی کا چونکانے والا جواب سنیے اور سردھنیے اس نے کہا اگر کورونا آئے اور میں مرجاوں تو کیا ایک غریب آدمی (موت سے قبل) اپنے گھر والوں کو دیکھ بھی نہیں سکتا؟ ان جوابات نے علی سردار جعفری کی اس غزل کو زندہ کردیا جس کا مطلع ہے؎
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

عوام کی اس کھلی بغاوت میں حکومت وقت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس بار تو رعایا اپنے گھر وں کی طرف گئی ہے لیکن جب یہ ایوان اقتدار کا رخ کرے گی تو نریندر مودی جیسےحکمراں نیرو مودی کی اقتداء کرتے نظر آئیں گے اور شاہ جی جیسے لوگ بھی وجئے مالیہ کے ساتھ کسی دور دیس میں بیٹھ کر حساب کتاب کرتے دکھائی دیں گے ۔ ملک کی یہ خاموش اکثریت اپنے پیٹ پانی کے چکر میں ای وی ایم کا رخ کم ہی کرتی ہے۔کون جانے وہ دن کب آئے گا جب یہ لوگ خواب ِ غفلت سے بیدار ہوکر ایوان پارلیمان کی جانب یہ نعرہ لگاتے ہوئے چل پڑیں گے کہ ’’سنگھاسن کو خالی کرو اب جنتا آئی ہے‘ ۔ اس روشن دن کے بعد ہی حقیقی معنیٰ میں اماوس کی غلامانہ تاریکی چھٹے گی اور سیاسی افق پر چودھویں کا آزاد چاند طلوع ہو گا۔ اسی امید پر علامہ اقبال نے اپنی شہرۂ آفاق نظم شمع و شاعر کا اختتام کیا ہے؎
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450531 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.