پاکستان میں بزنس مین ، سیاستدان ، تاجر اور نہ جانے کون
کون سے طبقات باقاعدہ مافیاز کا روپ دھارچکے ہیں ان میں سے بیشتر کی
بیوروکریسی،فوجی اسٹیبلشمنٹ، ججز،اوراشرافیہ سے رشتہ داریاں ہیں ملک میں جس
کی بھی حکومت ہو یہ سب کے ساتھ اس حکومت میں شامل ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے
پیش ِ نظرفقط اپنے ہی مفادات کا تحفظ ہوتاہے یقین نہیں آتا تو خود گذشتہ
40-30سال کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں آپ کو چند مخصوص خاندان ہی پاکستان کی
تقدیر کے مالک نظر آئیں گے یہ لوگ ہرسال کوئی نہ کوئی بحران ارینج کرکے
کھربوں روپے کمالیتے ہیں اور غریب عوام اپنی قسمت کو کوس کر ہمیشہ جلتے
کڑھتے رہتے ہیں کبھی آٹامافیاسراٹھاتاہے تو کبھی شوگرمافیا،کبھی لینڈمافیا
سرکاری زمین اپنی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں شامل کرلیتاہے ا اور حکمران نعرے
لگانے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتے آٹا، اور چینی چونکہ عام استعمال کی
پراڈکٹس ہیں جس کی کھپت ہمیشہ زیادہ ہے اس لئے یہ ان کا خاص ٹارکٹ ہیں ا س
لئے شوگر ملز مالکان اور آٹا مافیاحکومت سے اربوں روپے کی سبسڈی بٹورنے
کیلئے مختلف ہتھکنڈے اپناتے رہتے ہیں۔ شوگر ملز مالکان اور آٹامافیاگندم
ملک سے باہر بھجوانے کے نام پر حکومت سے سبسڈی اور مراعات لیتے ہیں تاہم
فوائد حاصل کرنے تک آٹا چینی کو ملک میں نامعلوم جگہ پر سٹور کرلیا جاتا
ہے۔جیسے ہی حکومتی مفادات موصول ہوجاتے ہیں اسی آٹاچینی کو مقامی مارکیٹ
میں ہی فروخت کردیا جاتا ہے۔ اسی سال فروری میں وزارت صنعت و پیداوار نے
اقتصادی رابطہ کمیٹی سے رابطہ کرکے بغیر ٹیکس کی ادائیگی کے تین لاکھ ٹن
چینی درآمد کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ ملک میں چینی کی بڑھتی قیمتوں پر
قابو پایا جا سکے۔ ای سی سی نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے خبردارکیا
تھاکہ ڈیوٹی فری درآمد کے نتیجے میں حکومت کو ٹیکس استثنیٰ اور ڈیوٹی کی مد
میں 14 ارب روپے کا نقصان ہوسکتاہے۔ جبکہ قیمتیں کنٹرول میں نہیں رکھی
جاسکیں گی جس سے مہنگائی ہونا یقینی امرہے اس کے باوجود کابینہ کے اجلاس
میں اسد عمر نے مبینہ طور پر یہ معاملہ اٹھایا اور نتیجتاً کابینہ نے چینی
کی درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی ہٹانے کا فیصلہ کیا بعد میں در آ مد کردہ
چینی پر 750 ڈالر فی ٹن کے حساب سے سیلز ٹیکس عائد کیا گیا حالانکہ اس وقت
بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت 375 ڈالرز فی ٹن تھی اس کا مطلب یہ
ہوا کہ جس وقت مقامی چینی پر سیلز ٹیکس کی شرح 11 روپے فی کلوگرام تھی، اس
وقت درآمد کردہ چینی پر 21 روپے فی کلوگرام ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا۔ صاف
ظاہر تھا اس کے نتیجہ میں چینی کا کاروبار کرنے والوں کو مزید 10 روپے کلو
کا فائدہ پہنچایا گیا جس سے شوگرمافیا نے واتوں رات کھربوں روپے کما لئے ۔
جب کابینہ کے کچھ ارکان نے یہ معاملہ حکومت کے روبرو اٹھایا تو اس کے لئے
عمران خان نے واجد ضیاء کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنادیا جس نے
دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کردیا اس کمیشن کی فرانزک رپورٹ سامنے آنے
کاانتظارکیا جارہاہے کہ تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکے توقع ہے کہ 25
اپریل کو انکوائری کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد سب کچھ واضح ہوجائے گا
اب چندسوال توجہ طلب ہیں جن کے جواب حکمرانوں کو ہر صورت تلاش کرناہوں گے
ورنہ اس ساری ایکسرسائزکا کوئی فائدہ نہ ہوگا اولاً طاقتور شوگر لابی سمیت
کون ملوث ہے؟ ثانیاًجب وفاقی حکومت نے ریگولیٹری ڈیوٹی معاف کی تو 750 ڈالر
فی ٹن کے حساب سے سیلز ٹیکس کس نے لگایا۔ اب کورونا وائرس کی وبا کے دوران،
حکومت نے کھانے پینے کی تمام اشیاء پر ڈیوٹی اور ٹیکس ختم کرنے کی کوشش کی
لیکن چینی کے درآمد کنندگان کو 5.5 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے
جبکہ مقامی چینی کیلئے گزشتہ بجٹ میں ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح 4.5 فیصد سے
کم کرکے صرف 0.25 فیصد کر دی گئی تھی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے
کہاجاسکتاہے کہ حکومت کی جانب سے مقامی شوگر انڈسٹری کی بھرپور سرپرستی
جاری ہے اور قیمت پاکستانی عوام سے وصول کی جا رہی ہے۔ اب کہا جاتا ہے کہ
مسابقتی قیمتوں پر چینی کی د رآمد سے حکومت کو ملک میں چینی کی بڑھتی
قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ چونکہ آج چینی کی قیمت 90-85 روپے
فی کلوگرام تک ہوگئی ہے اور ڈالر 167 روپے کا ہوچکا ہے یہ صورتحال مقامی
مارکیٹ میں چینی پیدا کرنے والوں کیلئے بہت خوشگوار ہے جبکہ ایف آئی اے کی
انکوائری رپورٹ میں پہلے ہی خبردار کیا جا چکا ہے کہ رمضان المبارک کے
مہینہ میں چینی کی قیمت 100 روپے فی کلوگرام ہو جائے گی۔ اب تو شک شبہ کی
کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ شوگر ایکسپورٹ پالیسی سے فوائد حاصل کرنے
والوں میں بااثر نامور سیاسی شخصیات شامل ہیں جہانگیر ترین گروپ نے چینی پر
دی جانے والی کل سبسڈی کا 22 فیصد حاصل کرکے 56 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی
اسی طرح وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار کے گروپ نے 35 کروڑ سے
زائد کی سبسڈی لی، المعیز گروپ نے 40 کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی ، مئی
2014ء سے جون 2019ء تک کے عرصے میں چینی کی قیمت میں 16 روپے فی کلو
کااضافہ ہوا، شوگر برآمد کنندگان نے 3 ارب روپے کی سبسڈی اور قیمت میں
اضافے دونوں کا فائدہ اٹھایا جس سے قیمت میں اضافہ اور بحران پیدا ہوا یہ
بھی رپورٹ تیارکرلی گئی ہے کہ گذشتہ پانچ سال میں حکومت کی جانب سے 25 ارب
روپے کی سبسڈی دی گئی اس بہتی گنگا سے آر وائی گروپ ، جہانگیر ترین ، ہنزہ
گروپ ، فاطمہ گروپ ، شریف گروپ ، اومنی گروپ اور چوہدری گروپ نے فیضیاب
ہوئے۔ شوگر ملوں کو سبسڈی ملنا، چینی کی صنعت کا سیاست میں اثرورسوخ
ظاہرکرتا ہے ۔اس سارے معاملہ کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ چینی مافیا کے
کچھ لوگوں نے وزیراعظم کو دھمکی دی ہے کہ اگر شوگر کمیشن کی جاری تحقیقات
بند نہ کی گئیں تو چینی کی قیمتیں 110 روپے فی کلوگرام ہو جائے گی اسی ایک
بات سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ شوگرمافیا کس قدر طاقتورہے ۔ کہا جاتا ہے
کہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کو بھی اسی مافیا نے دھمکی دیتے ہوئے کہا
تھا کہ تحقیقات بند کی جائے۔ اس طرح کا ایک سکینڈل 4جنوری 2017میں بھی
سامنے آیا تھا جب پشاور کے ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس اور انویسٹی
گیشن نے پانچ ہزار چارسو بیس میٹرک ٹن چینی کی بر آمد کا ایک فراڈ سامنے لے
آیا تھا۔ یہ چینی چارہزارآٹھ سو چھ تھیلوں میں پشاور کے رنگ روڈ پر واقع
ایک غیر قانونی ویئر ہاوس میں ذخیرہ کی گئی تھی بہرحال چینی اور آٹا بحران
پر جاری تحقیقاتی رپورٹ پر ملک بھر میں ہنگامہ برپا ہے اس بحران کے ذمہ دار
اہم شخصیات میں موجودہ کابینہ میں شامل ایک وزیر کے عزیز اور ان کے ایک
قریبی سیاسی ساتھی جہانگیر ترین‘ مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہی اور
دوسرے بااثر افراد شامل ہیں بلاشبہ وزیراعظم کے لئے ایک بڑی آزمائش کھڑی کر
دی ہے۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارہورہاہے اس لئے عوام کو
خوشگوارحیرت ہے کہ پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے ایک سیکنڈل میں اپنے سیاسی
رفقاء کے ناموں کے ساتھ انکوائری رپورٹ شائع کرنے کی اجازت دی۔ یقینا
پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم ہورہی ہے اب سیاسی حلقوں میں سوال یہ اٹھ
رہا ہے کہ میں فورینزک رپورٹ ملکی سیاست میں کتنی ہلچل پیداکرسکتی ہے؟
بیشترلوگوں کا خیال ہے کہ یہ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ وزیراعظم عمران خان
کی حکومت بھی جاسکتی ہے یہ تو بات یقینی ہے کہ عمران خان ان اہم شخصیات کے
خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہیں تو وہ ایک تاریخ رقم کریں گے لیکن ساتھ ہی
ان کے لئے سیاسی چیلنجز بھی درپیش ہوں گے اب دیکھتے ہیں 25 اپریل کے
بعدکیاہونے والا ہے؟
|