کرونا اور ضم شدہ قبائلی علاقے ۔؟

کوئی بھی آزمائش ،آفات جنگیں یامصائب قوموں کے لیے ایک امتحان ہوتی ہیں اور ایسے مواقعوں پر قربانی ،ایثار،اتحادواتفاق اورایک دوسرے کی مددوتعاون کرنے والی قومیں ہی بحرانوں سے نکل کرکامیابی کے سفرپرگامزن ہوتی ہیں اورجوقومیں ایسے حالات سے بھی سبق نہیں سیکھتی توان کاحال ہماری قوم جیساہوتاہے ،کروناکی وبانے ہماری قوم کوبدترین مذہبی ،سیاسی ،سماجی ،معاشرتی اورفرقہ وارنہ طورپرتقسیم کردیاہے ،پوری قوم انتشارکاشکارہے حکومت قوم کومتحدکرنے کی بجائے اختلافات کوہوادے رہی ہے وزیراعظم کارویہ معاندانہ ہے،وہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھے کوتیارنہیں ،عوام کوصحت کی سہولتیں میسرنہیں ،پریشان حال عوام کے لیے حکومت کے پاس کوئی ایجنڈہ نہیں ۔

حکومت کاسارازورمساجداورعلماء کے خلاف صرف ہورہاہے ،اسلام آبادسے کراچی تک تعاون کے باوجود علماء کوگرفتارکیاجارہاہے ان پرمقدمات بنائے جارہے ہیں تبلیغی جماعت کے غیرملکی مہمان پریشانی کاشکارہیں حالانکہ وزیراعظم کے اعلان کے بعد علماء نے مدارس بندکردیئے سالانہ امتحانات ملتوی کردیئے ،مساجدمیں نمازیوں کومحدودکرنے کے حکومتی فیصلے کی تائیدکی حکومت نے جس مسئلے پرفتوی چاہاعلماء نے پہلے ہی دے دیا تبلیغی جماعتیں جہاں تھیں انہیں وہاں روک دیاگیا اس کے باوجود حکومت کروناکومذہب سے جوڑکراپنی انتظامی ناکامی اورغفلت پرپردہ ڈالناچاہتی ہے ۔

ایسے میں وزیرستان سے خبرآئی ہے کہ پی ٹی ایم کے رہنماء ببانگ دہل یہ اعلان کررہے ہیں کروناوائرس کے حوالے سے حکومت کے ساتھ تعاون نہ کیاجائے جن لوگوں کوکروناوائرس کی تشخیص ہوئی ہے وہ قرنطینہ سنٹرجانے کی بجائے گھروں میں رہیں،ہم آوازویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی ایم کے سربراہ منظورپشتین اورمحسن داوڑکی تصاویرکے ساتھ پمفلٹ اوربینرزمختلف مقامات پرآویزاں کیے گئے ہیں جن میں کہاگیاہے کہ کرونا کے حوالے صرف پی ٹی ایم کی بات سنیں۔ اور پی ٹی ایم نے اب تک وزیرستانیوں کو یہی بتایا ہے کہ کرونا مرونا کچھ نہیں بس پیسے کمانے کی چال ہے۔

پشتون تحفظ موومنت کی یہ نام نہادتحریک پختون بھائیوں کے ساتھ زیادتی کررہی ہے ایک طویل جدوجہداورقربانیوں کی بدولت ا ن علاقوں میں جوامن اورخوشحالی آئی تھی پی ٹی ایم کی قیادت اس سے خوش نہیں ہے ان کی کوشش ہے کہ کروناجیسی وباان علاقوں میں پھیلے ،بدامنی کاراج ہودہشت گردوں کی حکومت ہوتاکہ یہ اپنی سیاست کرسکیں ان کی ان حماقتوں کاہی نتیجہ ہے کہ قبائلی اضلاع وزیرستان ودیگرعلاقوں میں ایک دفعہ پھر حالت خراب ہورہے ہیں ، وزیرستان میں فوجی آپریشنز سے بھاگے ہوئے شدت پسند دوبارہ وزیرستان میں آگئے ہیں،مقامی لوگوں کے مطابق شدت پسند طالبان نہ صرف اپنے پرانے ٹھکانوں کو آباد کرنے میں مصروف ہیں بلکہ مسلح ہوکر ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر کرتے بھی نظر آتے ہیں وہ پہلے تو اپنے آبائی علاقے تک محدود تھے اوراب وہ رفتہ رفتہ پرانے ٹھکانوں کو ایک دفعہ پھر آباد کرنے لگے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں سیکورٹی اداروں پرحملے بڑھ گئے ہیں ۔
مبصرین کے خیال میں قبائلی اضلاع میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے بعد سے دہشت گرد افغانستان منتقل ہوگئے تھے، اگر اس وقت افغانستان اور پاکستان میں ایک ساتھ کارروائیاں ہوتیں تو دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن تھا۔پی ٹی ایم اورٹی ٹی پی کاگٹھ جوڑبھی اب ڈھکاچھپا نہیں رہاپی ٹی ایم کی پالیسیوں کانتیجہ ہے کہ شدت پسنددوبارہ سے وزیرستان میں جمع ہورہے ہیں اس وقت جب پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہے فوج اورسیکورٹی ادارے پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اورپاک فوج قومی خدمت میں مصروف ہے ایسے وقت میں دشمن نے مغربی اورمشرقی بارڈرپرحملے شروع کردیئے ہیں ایک طرف بھارتی فوج کنٹرو ل لائن پرحملہ آورہے تودوسری طرف بھارتی ایجنٹ وزیرستان ودیگرعلاقوں میں سرگرم ہیں ۔

قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخواہ میں ضم ہونے کے باوجود بنیادی سہولیات کا فقدان ہے تاہم وہاں تعلیم اور صحت عامہ کا ڈھانچہ پہلے ہی دہشتگردی کی وباکاشکارہوچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں ہزار سے زیادہ تعلیمی ادارے اور صحت عامہ کے مراکز طالبان کی شورش کے دور میں بموں سے اڑا دئیے گئے تھے۔ پورے قبائلی علاقے کے سرکاری ہسپتالوں میں اب تک نفسیاتی بیماریوں کا کوئی معالج موجود نہیں جبکہ اس کے ساتھ دیگر بیماریوں کے ڈاکٹرز کا بھی فقدان ہے، قبائلی علاقے میں کورونا سے نبٹنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے،ایسے میں پی ٹی ایم کی قیادت کی طرف سے لوگوں کوکروناوائرس سے بچاؤمیں رکاوٹ ڈالنابہت بڑے المیے کوجنم دے سکتاہے۔

دہشتگردی سے متاثرہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں اب تک کورونا وائرس کا کوئی تصدیق شدہ کیس نہیں مگرباجوڑسمیت دیگرایجنسیوں میں کروناوائرس کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں مزدور طبقہ بڑے شہروں میں لاک ڈاون کے بعد جنوبی اور شمالی وزیرستان واپس منتقل ہوچکے ہیں اسی طرح بہت سے لوگ تبلیغ اور عمرہ کے سفرسے واپس اپنے گھروں میں جاچکے ہیں جبکہ کرم ایجنسی میں بھی بڑی تعدادمیں لوگ ایران کی زیارات کے بعد پہنچے ہیں جس سے مستقبل قریب میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آ سکتے ہیں کیوں کہ علاقے میں کسی قسم کی ٹیسٹنگ نہیں کی جا رہی۔پی ٹی ایم اورٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کی وجہ سے حکومتی سطح پرلاک ڈاون پر عملدرآمد کمزور ہے اور مقامی لوگ بھی تعاون نہیں کررہے ہیں۔دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ان علاقوں کے ہزاروں طلباء ،مزدوراورتاجرملک کے دیگرشہروں کارخ کریں گے خدانخواستہ اگران علاقوں کی درست ٹیسٹنگ نہ کی گئی تووائرس پھیلنے کاخطرہ بدستورموجود رہے گا ۔
ان حالات میں ایف سی نے خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں کورونا وائرس کے بارے میں آگاہی مہم کا آغاز کر دیاہے ،مختلف اضلاع میں موذی وائرس سے بچا ؤکیلئے پمفلٹس تقسیم کئے جارہے ہیں۔ وارسک میں خواتین کیلئے پہلا قرنطینہ مرکز قائم کیاگیاہے جہاں بہترین سہولیات بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔سوات سکاٹس نے ضلع خیبر سمیت مختلف علاقوں میں کورونا وائرس کے حوالے سے شہریوں کو آگاہ کیا۔ شہریوں نے بھی ایف سی کی آگاہی مہم کا خیر مقدم کیا۔ ایف سی کی جانب سے اپرکرم میں مستحق خاندانوں میں راشن بھی تقسیم کیا ، فرنٹیئر کور نے پارا چنار اور قریبی علاقوں میں کورونا وائرس سے بچا ؤکیلئے جراثیم کش سپرے بھی کیا۔

صوبائی حکومت کی جانب سے اگرچہ چار کروڑ انیس لاکھ روپے کا بجٹ منظور ہوچکا ہے دوقرنطینہ مراکز ابھی تک کھولے گئے ہیں مگر حکومت کی جانب سے تاحال ڈاکٹرزاور دیگر سٹاف کو حفاظتی کٹس فراہم نہیں کی گئیں ہیں جس سے صورتحال گھمبیرہونے کاخطرہ ہے ،اس کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کے پھیلاو اور لاک ڈاون کی وجہ سے ملک کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بند ہے وہاں بیشتر سکول، کالجز اور جامعات نے طلبہ کے لیے آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ لیکن قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں نہ صرف طلبا و طالبات احتجاج کررہے ہیں بلکہ وہ دنیا سے بھی کٹ کر رہ گئے ہیں۔

ایسے میں قبائلی عوام کے ساتھ ایک مرتبہ پھر پولیوکے قطرے پلانے سے روکنے جیسی بدترین مہم کروناوائرس کے حوالے سے بھی چلائی جارہی ہے اس مہم میں پی ٹی ایم پیش پیش ہے یہ نام نہادلیڈرچاہتے ہیں کہ جس وائرس نے عالمی طاقتوں کونڈھال کردیاہے اسی طرح قبائلی علاقوں کے عوام بھی بے بس ہوجائیں جوپہلے ہی تباہ حال ہیں اس وائرس کا مقابلہ یہ اپنی جہالت سے کرناچاہتے ہیں ایسے میں حکومت کی طرف سے ا ن شرپسندعناصرکے خلاف بھرپوراقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 80982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.