دنیا میں وبائی امراض کا سلسلہ کچھ نیا نہیں ــ۔تاہم بچپن
سے لے کر آج تک اپنے ارد گرد کے ماحول میں وبائی امراظ کے پھیل جانے کا خوف
اس قدرشدّت اختیار کر جائیگاکبھی سوچا نہ تھا۔تاریخ کی روشنی میں اگر بات
کریں تووبائی امراظ کے شواہد ہمیں قبل از مسیح سے ملتے ہیں۔ایک قدیم
وباجسکا میں یہاں تذکرہ کرنے جارہا ہوں،پانچ ہزارسال قبل چین کے ایک گاؤں
میں پھیلی۔یہ وبا اتنی قدیم ہے کہ اس کی صحیح تاریخ اور نام کا اندازہ
لگانا مشکل ہے۔ اس گاؤں کے ایک ہی گھر میں لاتعداد ڈھانچے برآمد ہوئے۔جس
میں بچے بوڑھے اور جوان لوگوں کے ڈھانچے شامل تھے۔ جسے بعد میں
جلادیاگیا۔ماہرین کے مطابق یہ وبا اتنی تیزی سے پھیلی اسوقت کے لوگوں کو
ایک دوسرے کو دفنانے کا بھی موقع نہ مل سکا۔اس جگہ کو بعد میں ہامن منگھا
کانام دے دیا گیا۔
اسی طرح430 ـقبل از مسیح AthensاورSparta کے درمیان جب جنگ کا آغاز ہوا۔تو
کچھ عرصہ بعد ہی اک جان لیوا وبانے جنم لیا۔جس نےAthens کو کافی جانی نقصان
پہنچایا ۔اس وبا نے ایک لاکھ ہلاکتوں کے ساتھ پانچھ سال تک اپنے پنجے گاڑھے
رکھے۔کہا جاتا ہے کہ اس وبا کی بدولت لوگوں کو سر میں گرمی کی شدِّت ہوتی
اور آنکھیں سرخ ہونے کے ساتھ ساتھ جلنے لگتیں۔اس کے ساتھ ساتھ حَلَق اور
زبان سے خون جاری ہونے لگتااور سانس رکنے لگتی۔سائینسدان آج تک اس وبا کا
اندازہ نہیں لگاسکے۔تاہم کچھ سائینسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ شدید نوعیّت کا
ٹائیفیڈ،بخار اور اِبولا کی کوئی قسم ہوسکتی ہے۔
ببونک(Bubonic):۔
اگر ہم ماضی قریب یعنی انیسویں صدی پر نذر ڈالیں تو ہمیں ایک ایسی خطرناک
وبا نظر آتی ہے جسنے صرف چین اور انڈیا میں ایک کڑوڑبیس لاکھ لوگوں کی جان
لی ۔ اس وباکو ببونک کا نام دیا گیا۔ ایک سے ساتھ دن کے اندر لوگوں کو شدید
بخار ہونا، سر میں شدید درد اور الٹی ہونے کے ساتھ ساتھ جسم کا وہ حصہ جہاں
سے یہ بیکٹیریا داخل ہوتا تھاوہاں سوجن ہوجانااس کی علامتوں میں شامل تھا۔
اس وباکا آغاز1855 میں ہوا اور یہ پانچ سال کے عرصے یعنی1860تک چین اور
انڈیامیں موجود رہی۔
سپانش فلو(Spanish Flue):۔
انیسویں صدی میں ایک اور مہلک وبا نے جنم لیا، جسے سپانش فلو کا نام دیاگیا۔
اسکا آغاز 1918سے ہوا اور تقریباََایک کڑوڑستَّرلاکھ لوگوں کی اموات واقع
ہوئیں۔1920میں اس وبا کا خاتمہ ہوا۔آکسفورڈکی ایک تحقیق کے مطابق اس وباکا
مرکز فرانس کو قرار دیاگیا۔ جہاں برطانیہ کے فوجی جو جنگ میں زخمی ہوئے تھے
وہاں موجود خیموں میں زیرِعلاج تھے۔ اس وبا نے ایک وقت میں اتنی شدّت
اختیار کرلی تھی کہ روزانہ کی بنیاد پر تقریباََایک لاکھ فوجیوں کی اموات
واقع ہونے لگیں۔بعد میں اس وبا سے امریکا اور چین بھی متاثر ہوئے اس وبا سے
متاثرہ شخص جب چھینکتا یاکھانستاتواس سے پانچ لاکھ وائیرس ہوامیں معلق ہوکر
قریبی شخص میں منتقل ہوجاتے۔اس وباکے نتیجے میں آدھے سے زیادہ مرنیوالوں کی
عمریں20سے40سال کے درمیان تھیں۔تاہم اس وبانے 2009میں ایک بار پھر سے جنم
لیا۔اور ایک ہی سال کے عرصے یعنی 2010تک ڈیڑھ لاکھ سے پانچ لاکھ افراد کو
اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اِبولا(Ebola):۔
یہ وبا پہلی مرتبہ1976میں دریائے ابولا کے قریب دریافت ہوئی ،جوکونگو میں
واقع ہے۔ 23مارچ 2014میں کافی سالوں بعد ابولاکا پہلاکیس سامنے آیا۔وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ اس وائیرس نے چھ مختلف ممالک میں28637لوگوں کو اپنی
لپیٹ میں لیا۔جبکہ 11315 افرادکو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔اس وائیرس
کا اختتام 2016میں ہوا ۔ یہ وائیرس کس طرح وجود میں آیا اس بارے میں کوئی
حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ۔ تاہم ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ وائیرس
جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہواجس میں بندر اور چمکادڑسرفہرست ہیں ۔یہ
وبا ایک دوسرے کو چھونے یاآنکھوں،کانوں اور منہ کے زریعے تیزی سے پھیلتی ہے
۔سر میں درد ، پٹھوں میں درد ، گلے کی سوجن، کمزوری معدے میں سوزش اس وباکی
اہم علامتوں میں شامل ہیں۔
کرونا وائرس (Coronavirus COVID-19)
31دسمبر2019کو چین نے عالمی ادارہِ صحت کو وُہان شہر میں ایک نامعلوم
وباسے آگاہ کیا۔ ابتدا میں جوافراد اس وبا سے متاثر ہوئے ــانکا تعلق وہان
کی ہول سیل Seafoodمارکیٹ سے تھا۔بعدمیں اسی مارکیٹ کو وبا کا مرکزبھی
کہاجانے لگاجسے یکم جنوری 2020کو چینی حکومت کیجانب سے مکمّل طور پر سیل
کردیاگیا۔5جنوری کو چینی ماہرین نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ ممکنہ طور پر
یہ وباسارس نامی وبا کی ایک قسم ہوسکتی ہے۔ جو2002سے2003تک چین میں رہی
جسکے نتیجے میں پوری دنیا میں 770افراد کی اموات واقع ہوئیں ۔7 جنوری کو یہ
وباچین سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی اور چین کے بعد فرانس میں پہلا
کیس سامنے آیا۔اور اسی روز وعالمی ادارہ صحت نے یہ اعلان کیا کے یہ ایک نئی
وبا ہے جسے Covid-19 کانام دیدیاگیا۔ اور ساتھ ساتھ یہ کہا گیا کہ اس وبا
کا تعلق کرونا فیملی سے ہے جسمیںSARS,EBOLA جیسی وبائیں شامل ہیں ۔ 7 اپریل
2020کے اعداد وشمار کے مطابق پوری دنیا میں کروناوائیرس سے متاثرہ افراد
کی تعدادتیرہ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ جبکہ اس وبا نے 76000سے زیادہ افراد
کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ 29600افراد
ایسے ہیں جو اسے شکست دے کر صحت یاب ہو چکے ہیں۔ یہ وبا مزیدکتنی جانیں لے
گی ،آخرکب تک جاری رہے گی، اس سے مزید کتنا جانی نقصان ہوگا ،کیا اسکی
ویکسین بنائی جاسکے گی ،اگر بنائی جاسکے گی تو کب تک ان تمام سوالات کے
جواب دینا مشکل ہے۔جہاں اس وبا نے دنیا کی بڑی بڑی صنعتوں کا پہیہ جام کیا
، وہیں کچھ مثبت تبدیلیاں بھی واقع ہوئیں جیسے فضائی آلودگی میں کمی، صحت
کے نظام میں اضافہ، جنگ بندی وغیرہ۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وبا نہ
صرف پوری دنیا کی معیشت پہ منفی گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ بلکہ سماجی ،سیاسی
،معاشی اور ا قتصادی سطح پر بہت بڑی تبدیلیاں چھوڑجائیگی جوآئندہ آنے والے
دنوں میں دنیاکی سمت کاتعین کرینگی۔
|