کرونا وائرس : سوالات سے ٹکراتے سوالات

جب سے کرونانے دنیاکواپنی لپیٹ میں لیناشروع کیاہے اس حوالے سے طرح طرح کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔ اکثرباتوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے یہ کہاگیا کہ چینی لوگ سب کچھ کھاجاتے ہیں۔ یہ وائرس یہ چیزیں کھانے سے پھیل رہاہے۔ جب یہ وائرس چین سے ایران منتقل ہو ا تو سوال سامنے آیا کہ کیاوائرس واقعی وہ چیزیں کھانے سے پھیلتا ہے ؟ جوبتائی جارہی ہیں۔ اگرایساہی ہے توایران میں جولوگ اس وائرس کا شکار ہوئے وہ تووہ چیزیں کھاتے ہی نہیں جن کے بارے میں کہاگیاہے کہ یہ چیزیں کھانے والوں میں یہ وائرس پھیلتاہے۔ چینی لوگ سب کچھ کھا جاتے ہیں، ایرانی لوگ سب کچھ نہیں کھاتے ۔وائرس دونوں ملکوں میں رہنے والوں میں پھیلا ۔ اب سوال یہ سامنے آتاہے کہ یہ وائرس واقعی کسی چیزکے کھانے سے پھیلتا ہے یا نہیں ۔ اس سوال کاجواب چین کی طرف سے اٹھائے گئے اقدام میں تلاش کیاجاسکتاہے کہ چین نے کتے اوربلی کے گوشت پرپابندی لگادی ہے۔ کرونا وائرس قدرت طرف سے آیاہے یاکسی انسان نے اسے پھیلایاہے۔ اس میں بھی تضادپایاجاتاہے۔ اس حوالے سے کئی ملکوں نے کہا کہ یہ وائرس امریکانے پھیلایا ہے۔ امریکانے یہ وائرس بنایا پھیلادیا۔ اب سب سے زیادہ امریکاہی اس وائرس کاشکارہورہاہے۔ سوال یہ سامنے آتاہے کہ اگروائرس امریکانے ہی بنایا اورپھیلایاہے تواب امریکااس وائرس کوکنٹرول کیوں نہیں کرپارہا۔ اس کی جدیدترین ٹیکنالوجی بھی وائرس کاتدارک کرنے میں ناکام کیوں ہورہی ہے، اس کے ساتھ ایک اورسوال سامنے آتاہے کہ اگریہ وائرس قدرت کی طرف سے آیاہے توسال دوہزارگیارہ میں امریکامیں بننے والی ایک فلم میں وہ سب کچھ کیسے دکھایا گیا جوآج کے دورمیں کروناکے حوالے ہورہاہے۔ فلم میں بھی یہ وائرس سب سے پہلے چین میں پھیلا ،اب حقیقت میں بھی سب سے پہلے چین میں ہی پھیلا، فلم میں یہ وائرس چمگاڈرکی وجہ سے پھیلا، اب حقیقت میں بھی سب سے پہلے چمگاڈر،چھپکلی اوردیگرجانوروں کواس وائرس کے پھیلنے کی وجہ قراردیاگیا، فلم میں اس وائرس کاکوئی علاج نہیں تھا، اب حقیقت میں بھی اس وائرس کاکوئی علاج نہیں ہے۔ فلم میں اس وائر س سے محفوظ رہنے کاایک ہی طریقہ گھروں میں محصوررہنادکھایاگیا، اب حقیقت میں بھی یہی طریقہ بتایااوراپنایاجارہاہے، فلم میں کعبہ بیت اﷲ کاصحن خالی کرادیاجاتاہے ، اب حقیقت میں بھی ایساہی کیاگیا۔ فلم میں یہ وائرس دنیابھرمیں پھیل جاتاہے ، اب حقیقت میں بھی یہ وائرس دنیابھرمیں پھیل چکاہے، فلم میں دنیاکروناکی وجہ سے دنیا بھرکی معیشت زبوں حالی کاشکارہوجاتی ہے، اب حقیقت میں بھی اسی وائرس کی وجہ سے ایساہی ہورہاہے۔اس فلم میں بھی اس وائرس میں مبتلامریضوں کو قرنطینہ کیاہوادکھایاگیاہے اوراب حقیقت میں بھی کروناکے مریضوں کوقرنطینہ کیاجارہاہے۔ اب سوال یہ سامنے آتاہے کہ اگریہ کروناوائرس قدرت کی طرف سے آیاہے توسال دوہزارمیں امریکامیں بننے والی فلم میں وہ سب کچھ کیسے دکھایاگیاجواب حقیقت میں ہورہاہے۔ اگریہ وائرس مصنوعی ہے تواب تک یہ کنٹرول کیوں نہیں کیاجاسکا۔ آپ چاہیں تواس سوال کاجواب اس بات میں تلاش کرسکتے ہیں کہ جیسے تیزی سے آگ پکڑنے والی کسی چیزکے ڈھیرکوکوئی آگ لگا دے یاکسی سے آگ لگ جائے اب آگ توکسی ایک شخص کی وجہ سے لگتی ہے اوراسے بجھاناکسی ایک شخص کے بس میں نہیں ہوتا۔یہ بھی کہاجارہاہے کہ یہ وائرس ایک دوسرے کے قریب ہونے اورہاتھ ملانے سے پھیلتاہے۔ اس لیے لوگوں کوایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے اورہاتھ ملانے سے روکا جا رہا ہے ۔ ہرممکن کوشش کی جارہی ہے کہ لوگ اکٹھے نہ ہوں۔لوگوں کوبیٹھنے بھی نہیں دیاجاتا۔ نیوزچینل پرایک اشتہارچل رہاہے۔ جس میں بتایاجارہاہے کہ اخبارپڑھنے سے کروناوائرس نہیں پھیلتا، اس کے ثبوت کے طورپراسی اشتہارمیں بتایاجاتاہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ وائرس سطح پرزندہ نہیں رہتا۔ اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ وائرس صرف اخبارکی سطح پرزندہ نہیں رہتا یاہرسطح پرزندہ نہیں رہتا۔ اب سوال یہ سامنے آتاہے کہ اگریہ وائرس سطح پرزندہ نہیں رہتا تو دکانوں، ہوٹلوں، جوس شاپ وغیرہ میں بیٹھنے سے کیوں روکاجارہاہے۔ یہ وائر سطح پرزندہ نہیں رہتا توپھرہاتھ ملانے سے بھی یہ وائرس نہیں پھیلنا چاہیے اور ہاتھ ملانے کی اجازت بھی ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ اس وائرس سے بچاؤ کے لیے صفائی پرزوردیاجارہاہے، مختلف دکانوں اورچوراہوں پرہاتھ دھونے کے پوائنٹ بنائے گئے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب میں شاہی خاندان کے ڈیڑھ سوافرادکے اس وائرس کے مریض ہونے کی خبرآئی ہے۔ مختلف ممالک کی سرکردہ شخصیات کے بھی اس وائرس کے شکارہونے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ ہمیں اپنی، لباس کی، گھر، مکان اوردفترکی صفائی رکھنی چاہیے مگرسوال یہ سامنے آتاہے کہ اگریہ وائرس واقعی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ہی پھیلتاہے تودنیاکی جتنی بھی سرکردہ شخصیات کے وائرس کے مریض ہونے کی خبریں آرہی ہیں توکیا وہ سب شخصیات بھی اپنی صفائی کاخیال نہیں رکھتیں۔یہ بھی کہاگیاہے کہ تین افراد ہوں توجمعہ کی نمازہوجاتی ہے علامہ اشرف آصف جلالی مختلف تفاسیرکاحوالہ دے کرکہتے ہیں کہ تین افرادکے ساتھ نمازجمعہ اس وقت اداہوجاتی ہے جب اذن عام ہو، کسی کوروکانہ جائے، اگرپانچ سوافرادبھی ہوں اوراذن عام نہ ہوتوجمعہ کی نمازادانہیں ہوگی۔اگرکسی جامع مسجدمیں چندنمازی موجود ہیں مسجدکے دروازے پریااس سے کچھ فاصلے پرکوئی پہریدارمسلمانوں کومسجدمیں جانے سے روک رہاہے یاجونمازی مسجدمیں موجودہیں وہ مسجدکادروازہ بندکردیتے ہیں کہ کوئی اور نہ آجائے تودونوں صورتوں میں اذن عام کی شرط نہیں پائی جاتی ۔ علامہ صاحب کہتے ہیں اس مسجدمیں موجود افرادجمعہ کی نمازاداکربھی لیں تواذن عام کی شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے ان کی جمعہ کی نمازادانہیں ہوگی۔ ظہرکی نمازتواس مسجدمیں موجودنمازیوں نے پڑھی ہی نہیں ۔ اس مسجد میں موجود مسلمانوں کی جمعہ کی نمازادانہیں ہوئی اورظہرانہوں نے اداہی نہیں کی۔ اب سوال یہ سامنے آتاہے کہ جتنے لوگوں کی نمازجمعہ ادانہیں ہوئی اورظہرکی نماز انہوں نے اداہی نہیں کی تواتنے لوگوں کے فرض نمازکی عدم ادائیگی کی ذمہ داری کس پرہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کواس بارے غورکرناچاہیے ۔صدرعارف علوی کوفتویٰ منگواناچاہیے کہ اس صورت حال کاذمہ دارکون ہوگا۔ سوال یہ بھی سامنے آتاہے کہ امام مسجدجب نمازپڑھارہاہووہ نئے آنے والوں کوکیسے روک سکتا ہے۔آئمۃ المساجد کو ذمہ دارٹھہرانے والوں کواس سوال کاجواب بھی تلاش کرناچاہیے۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ کہاں ہیں وہ پیر، وہ اﷲ کے ولی جوکرامتیں دکھایا کرتے تھے۔ اب دکھائیں وہ کرامت عوام کواس کروناوائرس سے چھٹکارادلائیں۔ گویاکروناوائرس پرقابونہ پائے جانے کوجوازبناکراولیاء کرام کی کرامات کامذاق اڑایا جا رہا ہے، اولیاء کاملین کی کرامات کوجھوٹاثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اولیاء کاملین تواﷲ تعالیٰ کی رضاپرراضی ہوتے ہیں،یہ مان بھی لیاجائے کہ اولیاء کرام نے ایسی کرامت نہیں دکھائی جس سے اس وائرس سے چھٹکارہ مل سکے۔ یہ بھی مان لیاجائے کہ اس وائرس پرقابونہ پائے جانے کی طرح اولیاء کرام کچھ نہیں کرسکتے۔لیکن سوال یہ سامنے آتاہے کہ اولیاء کاملین کی کرامات پرتوآپ یقین نہیں کرتے، وہ سائنس، وہ ٹیکنالوجی، وہ جدید سے جدیدلیبارٹریاں اورترقی یافتہ ممالک کے بڑے بڑے سائنس دان جن پرآپ کویقین ہے، جوسب کچھ کرسکتے ہیں، ان کے پاس دنیاکے جدید ترین وسائل بھی ہیں وہ اب تک اس وباء پرقابوپانے میں کیوں ناکام چلے آرہے ہیں، اب تک اس کے علاج کے لیے ویکسین، گولی، سیرپ ،ڈرپ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ آپ کے مطابق اولیاء کرام اپنی کرامت نہ دکھاکرکروناپرقابونہ پاسکے اس لیے ان کی سابقہ کرامات سوالیہ نشان ہیں ،جدید سائنس، لیبارٹریاں، سائنسدان بھی تواس وائرس پرقابوپانے میں کامیاب نہیں ہوسکے توان سائنس دانوں کی کی گئی ایجادات کے بارے میں آپ کیاکہتے ہیں کیاوہ ایجادات بھی سوالیہ نشان ہیں؟کہاں ہیں وہ سائنس دان جواپنی ایجادات سے دنیاکوحیران کردیاکرتے تھے، کہاں ہیں وہ ترقی یافتہ ممالک دنیاپراپنی حکمرانی کرتے تھے، وہ آئیں اوراس وائرس پرقابو پائیں۔ہے کسی کے پاس اس سوال کاجواب، اس سوال کاجواب تلاش کریں مل جائے تو عوام کوبتادیں، تمام سوالات ایک دوسرے سے ٹکرارہے ہیں۔ ہرایک کوتمام ٹکراتے سوالات میں سے صرف اپنے سوال کاجواب چاہیے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 301559 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.