خدا بھی ان کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد کرنا چاہتے
ہیں. یہ کہاوت بہت بار اپنے والدین اور اساتزہ سے سننے کو ملی ہے پس حقیقت
میں آج دیکھیہے.اس وقت پاکستانی عوام کی جو حالت ہے اس میںیہ کہاوت صادق
آتی ہے. پوری دنیا میں مہلک کورونا وائرس سے کہرام مچا ہے. یورپی ممالک میں
میتوں کا انبار لگا ہے اور پاکستان کی عقل مند عوام گھر میں ٹک کر نہیں
بیٹھ رہی. زبان کے چٹخارے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے.
چنانچہ جب صوبائی حکومتوں کی جانب سے لاکڈاؤن کا اعلان کیا گیا تو لوگ ایک
ڈیڑھ ہفتہ تو سکون سے بیٹھے مگر زبان کے چٹخاروں نے بیٹھنے نہیں دیا. آخر
کار ایکایککرکے صبح کے وقت ملنے والی پوری کی دکانیں کھلنا شروع ہوگئیں اور
لوگوں نے بھی اس سے جوق در جوق استفادہ حاصل کرنا شروع کر دیا. بات کروں
اگر شہرقائد کی تو یہاں پر بیشتر ایسے چھوٹے علاقے ہیں جو مکمل کھل چکے ہیں
نہ تو وہاں پر رینجرز ہے اور نہ ہی پولیس. یہ کیسا ہے لاکڈاؤن ہے؟ کیا
ایسےلاکڈاؤن کا ہمیں کوئی فائدہ ہوگا؟ کہ جس میں صبح دس بجے سے لے کر پانچ
بجے تک عوام کھلم کھلا سڑکوں پر گھومتی ہے.
سوال ہے...کیاکورونا وائرس صرف رات کو نکلتا ہے؟ خدارا معاملے کی سنگینی کو
سمجھیں چلیں دودھ والے, سپر اسٹور یا سبزی والے اپنی دکانیں کھولتے ہیں
سمجھ میں آتا ہے. مگر یہ جو لوگ اوپٹکس کی, پلاسٹک کی اور پوری کی دکانیں
کھول کھول کر بیٹھ رہے ہیں ذرا ایک دفعہ اٹلی کی حالت ملاحظہ فرمالیں.
مانتے ہیں نقصان ہورہاہوگا مگر صرف آپ ہی اس کا شکار نہیں ہر ایک بندہ اس
وقت اس کے زیر اثر ہے. یہ بھی سننے میںآرہا ہے کہ الیکٹرونک والے بھی
دکانیں کھولنے والے ہیں 14 اپریل سے. اگر یہی حال رہا تو کپڑے والے بھی
اپنی دکانیں کھول لینگے اور پھر دیکھیےگا ابھی تو صرف مرد حضرات ہی سڑکوں
پہ نظر آتے ہیں پھر خواتین بھی نکل کھڑیہونگی. آخر کو عید کی شاپنگ بھی تو
کرنی ہے. اس کے بعد کیا حالات ہونگےیہ سوچ کر ہی ایک بھیانک سی تصویر سامنے
آ جاتی ہے.
ان دکانداروں کو کیا لگتا ہے صرف ان کا ہی نقصان ہورہا ہے. اگر غور کریں تو
اس وقت سب بند ہے اسٹاک مارکیٹ مسلسل گر رہی ہے , یونیورسٹیز کے سمسٹرز
لیٹہوگئے ہیں, بورڈز کے امتحان آگے بڑھ گئے ہیںیہاں تک کہ فیکٹریز میں بھی
کام رکا ہوا ہے سب کچھ درہم برہم ہوگیا ہے. مگر پھر بھی ان لوگوں کو احساس
ہینہیں.بہت سے دکاندار تو ایسے بھی ہیں جو اپنا ویڈیو پیغام چلا رہے ہیں کہ
ہم ہر چیز کو سینیٹائز کرینگے خدا کو مانیں آپ سے غلطی بھی ہو سکتی ہے اگر
آپ کسی چیز کو سینیٹائز کرنا بھول گئے تو. صرف پندرہ سے بیس دن کے کہانی
تھی سکون سے بیٹھ جاتے گھر پہ. سوچیں جس پیسے کے لئے آپ گھر سے باہر نکل
رہے ہیں اگر وہی آپ کی موت کا بہانہ بن گیا تو. مریضوں کیتعداد دن بہ دن
بڑھتی جا رہی ہے مگر یہاں کس کو فکر ہے جس طرح سے وزیراعظم صاحب سکون سے
ہیں اسی طرح سے عوام سکون سے بیٹھی ہے. اگر یہی حالات رہے تو نہ جانے
پاکستان میں آنے والے مہینوں میں بھییہ وبا ختم ہوگی کہ نہیںیہ کہنا
انتہائی مشکل ہے.
ایک لمحے کو سوچئیےکہ اگر آپ کیرہائش گاہ کے قریب سے چھ جنازے ایک ساتھ
اٹھیں تو کیسا منظر ہوگا. |