وزیر اعظم :لاک ڈاؤن کا توسیعی خطاب

وزیر اعظم نے کورونا کی آمد کے بعد ۲۶ دنوں میں چوتھی بار قوم سے خطاب کیا ۔ ان چاروں کے اندر ناٹک بازی مشترک تھی ۔ پہلی بار ۱۹ مارچ کو آکر ۲۲ مارچ کے جنتا کرفیو میں تالی اور تھالی بجانے کا جشن سجھایا جسے بھکتوں نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔ ۲۴مارچ کو آئے تو لاک ڈاون کے سبب گھر میں بیٹھنے کی تلقین کرکے رخصت ہوئے۔اس کو لاکھوں مفلوک الحال عوام نے سڑکوں پر نکل کر پامال کیا۔ تیسری مرتبہ ۳اپریل دیا بتی جلاکر یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا تو بھکتوں نے دیوالی مناتے ہوئے پٹاخے چھوڑے ۔ اس بار اپنی ۲۷ منٹ کے بھاشن میں انہوں نے ۲۷ سیکنڈ کے اپنے چہرے کو ڈھانکا اور بقیہ وقت کھلے منہ سے بھاشن کیا ۔ یہ ابتدائی ۲۷ سیکنڈ اسی اختراع پردازی کے سبب کی گئی تھی جو ان کی پہچان بن گئی ہے۔ یہ عجیب بات ہے پچھلی مرتبہ چند وزرائے اعلیٰ سے ویڈیو کانفرنسنگ کے دوران وہ اپنے منہ کو ڈھانکے رہے اور اس بار ۱۳۵ کروڈ لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے اپنا ماسک ہٹا لیا ۔ اس کی منطق کوئی نہیں بتا سکتا خیر اس میں شک نہیں کہ مودی جی نے اس بار بہت ساری کام کی بات کیں ۔

دعا سلام کے بعد اپنے کارہائے نمایاں بیان کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ’’ساتھیو! جب ہمارے یہاں کورونا کا ایک بھی کیس نہیں تھا، اس سے پہلے ہی ہندوستان نے کورونا متاثر ممالک سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ ائیرپورٹ پر شروع کر دی گئی تھی‘‘۔ اس بیان نے تبلیغی جماعت کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی ہوا نکال دی ۔ یہ بات کہی جارہی ہے کہ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں ملیشیا جیسے کورونا سے متاثر ممالک سے لوگ شریک ہوئے ۔ ان کے ذریعہ یہ مرض ہندوستان کے شرکاء کو لگا اور پھر ملک بھر میں کورونا جہاد کے تحت پھیلا دیا گیا ۔ اب وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ہندوتان نے بیرونی مسافروں کی اسکریننگ اس وقت شروع کردی تھی جب ملک میں ایک بھی مریض نہیں تھا ۔

اس کا مطلب یہ ہے ملیشیا سے آنے والے یہ شرکاء جب ملک میں آئے تو متاثر نہیں تھے ۔ ان کی ہوائی اڈے پر جانچ کی گئی اور چونکہ وہ کورونا سے متاثر نہیں تھے اسی لیے انہیں داخل ہونے دیا گیا ورنہ ان کو اجتماع میں بھجنے کے بجائے واپس بھیج دیا جاتا ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کورونا سے متاثر کیسے ہوئے ؟ اس کا مطلب ظاہر ہے کہ کورونا ان کے ذریعہ نہیں آیا بلکہ یہاں کے لوگوں نے انہیں لگایا ۔ وزیر اعظم کے ذریعہ چونکہ ملیشیا سے کورونا کے آنے کی اور اجتماع سے پھیلنے اس کی تردید ہو چکی ہے اس اسے مسلم ممالک سے سازش اور کورونا جہاد قرار دینے والوں کو سزا ملنی چاہیے ۔ لیکن کوئی مالک ایسے پالتو ٹومی سزا کیسے دے سکتا ہے جو وقت ضرورت بھونکتا اور حسب اطاعت کاٹتا بھی ہو ؟

وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ساتھیو! جب ہمارے یہاں کورونا کے صرف 550 کیس تھے، تبھی ہندوستان نے 21 دن کے مکمل لاک ڈاؤن کا ایک بہت بڑا قدم اٹھا لیا تھا۔ ہندوستان نے مسئلہ بڑھنے کا انتظار نہیں کیا بلکہ جیسے ہی مسئلہ نظر آیا، اس نے تیزی سے فیصلہ لے کر اسی وقت روکنے کی مکمل کوشش کی‘‘۔ یہ درست بات ہے لیکن ملک میں پہلا معاملہ تو 30 جنوری 2020 سامنے آگیا تھا ۔ اس کے بعد ۷ ہفتوں تک حکومت نے بیرون ممالک سے آنے والوں کی جانچ اور ان تنہائی میں رکھنے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔ ملک کے اندر لاک ڈاون تک کورونا سے متاثرین کی تعداد بڑھتی رہی مگر سرکار خواب غفلت میں مبتلا تھی۔ حکومت اور برسرِ اقتدار جماعت کی ترجیحات میں کورونا شامل نہیںتھا ۔ اس وقت ملک کا وزیرداخلہ قوم کی فکر کرنے کے بجائے مدھیہ پردیش میں اپنی پارٹی کا اقتدار قائم کرنے کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف تھا۔ اس کے علاوہ ایوان پارلیمان کی نئی عمارت اور وزیراعظم کے نئے گھر کے منصوبے کو لوک سبھا کے اندر منظور کیا جارہا تھا۔

معروف صحافی تولین سنگھ اسی زمانے میں امریکہ سے لوٹیں تو انہیں حیرت ہوئی کہ ہمارے ذرائع ابلاغ سے کورونا غائب ہے اور مدھیہ پردیش کے سیاسی جوڑ توڑ میں خود بھی پھنسا ہوا ہے اور عوام کو بھی الجھائے ہوئے ہے۔ ملک کے اندر ایک طرف تو سی اے اے اور این پی آر کے خلاف تحریک جاری ہے اس کے برخلاف بی جے پی والے این پی آر کی حمایت میں کل ہند تحریک چلارہی ہے۔ اس دوران کورونا سے متاثرین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا تھا اور صوبائی حکومتیں عملی اقدامات کررہی تھیں لیکن مرکزی حکومت خیالی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ حزب مخالف کے رہنما کورونا کے سبب مستقبل میں پیش آنے والے طبی مسائل و معاشی مشکلات کی جانب متوجہ کررہے تھے مگر برسرِ اقتدار جماعت کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی تھی اور میڈیا بھی خواب غفلت میں مبتلا تھا۔سرکار کی بے حسی کو ختم کرنے میں میڈیا ایک اہم کردار ادا کرسکتا تھا لیکن اس سے مجرمانہ کوتاہی سرزد ہوئی۔

وزیر اعظم اب اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’یہ ایک سچائی ہے کہ اگر دنیا کے بڑے بڑے طاقتور ملکوں میں کورونا سے جڑے اعداد و شمار دیکھیں تو ان کے مقابلے میں آج ہندوستان بہت سنبھلی ہوئی حالت میں ہے۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے کئی ممالک کورونا انفیکشن کے معاملے میں ایک طرح سے ہندوستان کے برابر کھڑے تھے۔ آج ان ممالک میں ہندوستان کے مقابلے میں کورونا کے کیسز 25 سے 30 گنا زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ ان ممالک میں ہزاروں لوگوں کی موت ہو چکی ہے‘‘۔ یہ اچھی بات ہے لیکن وزیراعظم نہ تو ان ممالک سے اپنے درجہ حرارت کا موازنہ اور ٹسٹ کی تعداد سے۔ جن ممالک میں کورونا کا قہر بڑھا وہ سرد ممالک ہیں اور کورونا کا جرثومہ کم درجۂ حرارت پر تیزی سے پھیلتا ہے۔ ہندوستان میں گرما کی آمد سے کمی آئی نہ سرکار کے فیصلوں سے ایسا ہوا۔ مودی جی اگر ان ممالک میں ہونے والے ٹسٹ کا موازنہ کرتے تو پتہ چلتا کہ ہمارے یہاں فی دس لاکھ کا اوسط ان دنوں ۲۲ سے ۹۲ تک تھا جبکہ وہاں ۲۰ ہزار سے ۵ ہزار تک تھا۔ جیسے جیسے ٹسٹ بڑھ رہے ہیں متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

وزیر اعظم نے اپنے خطاب کے اختتام میں ۷ اہم نصیحتیں کیں ۔ ان میں پانچویں بات یہ تھی کہ ’’ جتنا ہو سکے اتنا غریب فیملی کی دیکھ ریکھ کریں، ان کے کھانے کی ضرورتوں کو پوری کریں‘‘۔ یہ اچھی بات ہے لیکن بنیادی طور پرغذا فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے انہیں بتانا چاہیے کہ اس بابت مرکزی اور صوبائی حکومتیں کیا کررہی ہیں۔ چھٹی بات،’’ آپ اپنے کاروبار، اپنی صنعتوں میں، اپنے کام کر رہے لوگوں کے تئیں ہمدردی رکھیں، کسی کو ملازمت سے نہ نکالیں‘‘۔ جس وقت وزیراعظم یہ کہہ رہے ہیں ٹائمز آف انڈیا جیسے اخبارات اپنے صحافیوں کو نکال رہے ہیں ۔ نیوز نیشن نے اپنا انگریزی شعبہ بند کردیا ہے ۔ کوئنٹ نے بڑی تعداد میں صحافیوں کی چھٹنی کردی ہے۔ کیا وزیر اعظم یہ خبریں نہیں ملتیں ۔ اگر ایسے بڑے ادارے یہ کرنے پر مجبور ہیں تو چھوٹےے موٹے لوگوں پر اس پروچن کا کیا اثر ہوگا ؟ کون جانے اپنے وزیر اعظم کس خیالی دنیا میں رہتے ہیں؟

وزیر اعظم کے خطاب اور ساتویں اور آخری بات سب سے زیادہ اہم تھی ، ’’انہوں نے ملک کے کورونا جنگجوؤں، یعنی ہمارے ڈاکٹر، نرس، صفائی اہلکار، پولس اہلکار، ایسے سبھی لوگوں کی ہم عزت کریں، انھیں فخر کا موقع دیں‘‘۔آج کل یہ حالت ہے کہ لوگ کورونا کا علاج کرنے والے اسٹاف کو گھروں سے نکال رہے ہیں ۔ ان کو اپنی کالونی میں گھسنے سے روک رہے ہیں اور ان کی اپنی پارٹی کے رکن پارلیمان قنوج میں تحصیلدار کو گھر میں گھس کر اس کی پتائی کرتے ہیں تو ایسے میں بیچارے صفائی اہلکاروں کی کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ وزیر اعظم اگر یہ بتاتے کہ اہم ان جنگجووں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کو کیا سزا دی گئی تب تو اس کا اثر پڑتا ورنہ اس طرح کی وعظ و نصیحت ایک کان سے سن کر دوسرے اڑا دی جاتی ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450625 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.