ایک ذرا سی بات اگر امریکا سمجھ جائے تو......؟؟

امریکی ڈرامہ، اُسامہ کی شہادت، دفترخارجہ کی بے بسی اور آرمی چیف کا گرما گرم بیان....

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان جو دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں سب سے بڑا امریکی اتحادی جانا جاتا ہے اور جس کی شاندار کارکردگی کا اعتراف خود امریکی بھی کئی مرتبہ اپنے یہاں اور کئی عالمی فورموں پر دہشت گردی کے حوالوں سے منعقد ہونے والے سیمیناروں اور مواقعوں پر کرچکے ہیں کہ امریکا کو دہشت گردوں اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑنے اور اِنہیں ختم کرنے میں ہر قدم پر جتنا ساتھ پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی نے دیا ہے اتنی مدد تو ہماری کوئی اور بھی نہیں کرسکا ہے اور یہاں اِس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان نے امریکی جنگ میں اتحادی ہونے کے ناطے اَب تک ہر اُس نقصان کو بھی سب سے زیادہ برداشت کیا ہے جو اِس امریکی اتحادی جنگ میں کوئی اور تو کیا خود امریکا بھی برداشت نہیں کرسکا ہے اَب اِن تمام امریکی اعترافات کے بعد یہاں سوچنے اور سمجھنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ پاکستان بھلا اپنے یہاں دہشت گردوں کو کیوں کر پناہ دے سکتا ہے ...؟ جو ایک طرف ڈومور کی امریکی راگ پر اپنے یہاں جگہ جگہ پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر کے اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی نہتے اور بے گناہ شہریوں کو مار رہا ہے تو دوسری طرف اپنے اِس عمل سے اپنے عوام میں اپنے خلاف غم وغصے اور نفرت کو بھی پروان چڑھا رہا ہے۔اَب ایسے میں پاکستان کے علاقے میں اُسامہ بن لادن کی شہادت کے بعد سے امریکا کا پاکستان پر یہ الزام لگانا بے بنیاد ہے کہ پاکستا ن نے دیدہ و دانستہ طور پر اِس کے مطلوب ترین دہشت گرد اُسامہ بن لادن کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی تھی امریکا کی یہ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اَب تو امریکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں اُسامہ بن لادن کی طرح اِس کے یہاں رونما ہونے والے سانحہ نائن الیون کے اور بھی سرگرداں دہشت گرد پناہ لیئے ہوئے ہیں جن کی تلاش کے لئے اَب امریکا کا یہ کہنا انتہائی معنی خیز لگتا ہے کہ اوباما پاکستان کی خودمختاری کو پامال کر کے امریکی فوجی آپریشن کے ذریعے اَن تک پہنچنے کے لئے ایک اور کاروائی کرنے کا اپنا حق اپنی پوری ڈھٹائی کے ساتھ محفوظ رکھتے ہیں۔

جبکہ پاکستان سمیت دنیا اِس بات پر بھی یہ یقین رکھتی ہے کہ دو مئی کی شب امریکی افواج نے پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد کے ایک گھر سے لیجنڈ مرد مجاہد اُسامہ بن لادن کو جس ڈرامائی انداز سے شہید کیا یہ امریکیوں کی پاکستان کے خلاف اُس سازش کا حصہ ہوسکتا ہے جس کی بنیاد پر امریکا دانستہ طور پر پاکستان میں اپنا ایک اور جنگی محاذ کھولنا چاہتا ہے اور اِس امریکی ڈرامے پر پاکستان بھر میں حکومتی سطح سے لے کر ایک عام شہری تک پچھلے دنوں سے جو خاموشی چھائی طاری رہی یہ پُراسرار خاموشی اُس وقت کسی حد تک ٹوٹ گئی جب سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے انتہائی سہمے اور ڈرے ہوئے لہجے میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں امریکی آپریشن اور اُسامہ کی ہلاکت کے حوالے سے اپنا ایک محتاط رویہ رکھتے ہوئے امریکا کا نام لئے بغیر نام جب یہ کہا کہ” ایبٹ آباد کے واقعہ کے حوالے سے کوئی کسی قسم کی غلط فہمی میں نہ رہے ایسا واقعہ دُہرایا گیا تو اِس کے انتہائی تباہ کُن نتائج ہوں گے اور اِن کا اِسی ڈرے سہمے لہجے میں یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ یکطرفہ کاروائی کرنے والے تباہی سے دوچار ہوں گے اور اِس موقع پر اُنہوں نے اپنے اِسی انتہائی دھیمے اور بجھے ہوئے لہجے میں یہ بھی کہا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ آپریشن میں امریکا نے پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا اور نہ ہی پاک فوج کو اِس آپریشن کے بارے میں کچھ بتایا گیا اِس حوالے سے اِن کا یہ کہنا ایسا لگا کہ جیسے یہ اپنے اِسی انتہائی دھیمے اور خوشامندانہ لہجے میں امریکا پر یہ باور کرنا چاہ رہے ہوں کہ دہشت گردی سے نمٹنے میں آئی ایس آئی کا شاندار ریکارڈ ہے آئی ایس آئی اور القاعدہ کے مابین روابط کا امریکی الزام بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہے جبکہ یہاں میرا خیال یہ ہے کہ سلمان بشیر کو امریکا کو یہ بات سمجھانے کے لئے کسی دھیمے اور خوشامندانہ لہجے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اِنہیں یہ بات باآوازبلند اور اپنی اُسی کڑک دار آواز اور لہجے میں کہنی چاہئے تھی جس انداز سے یہ اکثر پریس کانفرنسیں کیا کرتے ہیں ۔

یہاں مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر کی پریس کانفرنس اور اِس میں اِ ن کے استعمال کئے گئے لب و لہجے سے قوم کو شدید مایوسی ہوئی اور اَب قوم اپنے حکمرانوں سے یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ ہمارے حکمران، سیاستدان اور کچھ نجی ٹی وی چینلز کے اینکرپرسن کو دہشت گرداعظم امریکا کی کسی بھی ایسی سازش سے دبنے اور سہمنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جس کے ذریعے امریکا بدمعاش پاکستان کو بلیک میل کر کے اِس کو کٹھ پتلی بنانا کر اِس سے اپنے گھناؤنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہو۔

جبکہ یہ امر قابل ستائش اور حوصلہ افزاء ہے کہ جس روز سلمان بشیر اپنی پریس کانفرنس میں اپنے خوشامدانہ لہجے میں دہشت گرد اعظم امریکا کو سمجھانے اور یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اَب اگر اِس نے پاکستان میں ایسے اعتماد میں لئے بغیر کوئی ایسی ویسی کاروائی کی تو ہم اِس کو نہیں چھوڑیں گے اُسی دن آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف جنرل کیانی کی زیرصدارت کورکمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی جس کا صرف ایک نکاتی ایجنڈا ایبٹ آباد کا واقعہ تھا جس سے خطاب کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے جب ” مس ایڈونچر کا جواب دینے ، امریکا سے فوجی اور انٹیلی جنس تعاون پر نظر ثانی کرنے ، ملک میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرنے سمیت ایبٹ آباد جیسا دوسرا واقعہ برداشت نہ کرنے والا گرما گرم بیان سامنے آیا تو عوام کے اندر شدت سے یہ احساس پیدا ہوا کہ ہماری فوج ابھی اپنے وطن اور قوم کی حفاظت سے غافل نہیں ہوئی ہے دو مئی کا واقعہ امریکا کی ایک ایسی سازش ہے جس سے امریکا افواج پاکستان اور پاکستان کی اپنے شعبے کے لحاظ سے دنیا بھر میں ماہر اور مایہ نازخفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی کارکردگی پر ایک ایسا سیاہ دھبہ لگانا چاہتا ہے کہ جس سے اِس کی قوم میں اِس کا بنا بنایا مورال متاثر ہو اور قوم یہ چیخ پڑے کہ ہر سال قومی بجٹ سے اُسی فیصد حصہ افواج پاکستان اور اِن خفیہ ایجنسیز پر کیوں خرچ کیا جاتا ہے جو اُسامہ جیسے دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں اور ملک اور قوم کی حفاظت سے غافل ہیں ۔جب کہ امریکا کو یہ ایک ذرا سی بات سمجھ لینی چاہئے کہ اِس واقعہ کے بعد قوم کا اعتماد پاک فوج پر اور بحال ہوا ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971933 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.