کورونا وائرس کے بظاہر وزیراعظم نریندرمودی پر اس کےاچھے
اثرات دکھائی دے رہےہیں ۔ وہ اچھی اچھی باتین کرنے لگے ہیں اب اگر ان کے
بھکت اسے سمجھ نہیں پائیں اور الٹا کردیں تو اس کے لیے وزیر اعظم کو موردِ
الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے ۔ خیر کورونا کی دیش بندی میں نرمی سے قبل
انہوں نے فرمایا کووڈ۔19 کا وائرس نسل، مذہب، رنگ، ذات پات، زبان یا سرحد
دیکھ کر حملہ نہیں کرتا۔ اِس لئے بھارت کی طرف سے اِس سے نمٹنے کے طریقہ
کار میں اتحاد اور بھائی چارگی سرفہرست ہونی چاہئے۔فی الحال بے یارو مددگار
وزیراعظم کا حال یہ ہے کہ اندھے بھکتوں کے علاوہ چار آنکھوں والے سرکاری
افسران بھی اس کی بات مان کر نہیں دیتے ۔ مثلاًوزارت صحت کے ترجمان لو
اگروال کوکورونا وائرس کے انفیکشن کو روکنے میں سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل در
آمد کی اہمیت بتانے کے لیے تبلیغی جماعت کے علاوہ کوئی اور مثال نہیں
ملتی۔قومی ذرائع ابلاغ میں صحت یاب ہو کر گھر جانے والوں کی تصویر میں صرف
مسلمانوں کا مجمع نظر آتا ہے۔ میڈیا کا حال یہ ہے کہ وہ سرکار کی فراہم
کردہ تصاویر کو من و عن قبول کرلیتے ہیں۔ اپنے فوٹو گرافر کو تصویر کشی کے
لیے بھیجنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے۔
بی جے پی کے صدر جے پی نڈا، وزیراعظم نریندر مودی اور اقوام متحدہ کی
ہدایات کے خلاف وزارتِ صحت کے لو اگروال نےاپنی پریس کانفرنس میں (سنیچر18
اپریل کو) یہ انکشاف کیا کہ ملک میں اب تک’کووڈ19‘ سے متاثر 14378 لوگوں
میں سے 29.8 فیصد مریض دہلی کے نظام الدین مرکز میں منعقد تبلیغی جماعت سے
جڑے یا ان کے رابطے میں آئے لوگوں سے متعلق ہیں۔ پہلی بات تو یہ بات بتانی
ضروری نہیں تھی لیکن اگر لازم ہوگیا تھا تو دیانتداری سے پورا سچ پیش کرتے۔
ان کے مطابق مجموعی تعداد تو 30فیصد سے کم ہے مگر انفرادی اعدادو شمار
بتانے کے لیے انہوں نے ایسے صوبوں کا انتخاب کیا گیا جہاں یہ تعداد 59 سے
لے کر 83 فیصد تک ہے یعنی جن صوبوں میں تعداد کم ہے انہیں نظر انداز کردیا
گیا۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ کورونا کے مریض مہاراشٹر میں ہیں لیکن وہاں
تبلیغی جماعت کا فیصد نہیں بتایا گیا۔ تیسرے نمبر مدھیہ پردیش اور چوتھے پر
گجرات ہے ان کے اعداد و شمار بھی چھپا دئیے گئے ۔
حیرت اس بات پر بھی ہے کہ جن صوبوں میں کورونا سے متاثرین کی تعداد ہزار سے
زیادہ ہے انہیں چھوڑ کرایسے مقامات کو چنا گیا جہاں وہ سیکڑوں میں ہے بلکہ
تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کے لیے اروناچل پردیش تک کا ذکرکرکے بتایا گیا
کہ وہاں کا واحد متاثر تبلیغی جماعت سے وابستہ ہے ۔ لو اگروال اگر یہ بتاتے
ارونا چل میں کتنے لوگوں کی جانچ کی گئی تو بعید نہیں کہ پتہ چلتا صرف ایک
آدمی کو ٹسٹ کیا اور وہ پوزیٹیو نکل آیا۔ سرکار کو اب یہ بتانا ہوگا کہ
جن لوگوں کی جانچ کی گئی ان میں سے کتنے فیصد تبلیغی جماعت کے ہیں اور کتنے
دیگر لوگ ہیں ۔ ظاہر بات ہے جن کی جانچ کی جائے گی انہیں میں مریض ملیں گے
۔جانچ سے محروم لوگوں میں متاثرین کا کیسے پتہ چلے گا ؟ وہ اعداد نہیں
بتائے جاتے اس لیے کہ ممکن ہے وہ موافق نہ ہوں ۔ بددیانتی کی اس سے گھٹیا
مثال اور کوئی نہیں ہوسکتی۔
حکومت تبلیغی جماعت کےوابستگان اور متعلقین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی جانچ
کرتی ہے۔ ان میں سے جو پوزیٹیو نکلتے ہیں ان کا علاج بھی ہوجاتا ہے لیکن اس
چکر میں جو ہندو چھوٹ جاتے ہیں ان کی نہ جانچہوتی ہے اور نہ علاج ہوتا ہے۔
وہ بیچارے بی جے پی کی گھٹیا سیاست کا شکار ہوکر بلا علاج لقمۂ اجل بن
جاتے ہیں۔ہندوستان کے اندر اموات کے معاملے فی الحال مہاراشٹر کے بعد مدھیہ
پردیش اور پھر گجرات کا نمبر آتا ہے۔ لو اگروال نے بڑی مکاری سے ان تینوں
صوبوں کے اعدادو شمار کو چھوڑ دیا اور یہ نہیں بتایا گیا کہ ان میں تبلیغی
جماعت کے وابستگان کتنے ہیں ؟ افسوس کہ ایسا کرنے والا کوئی سیاستداں نہیں
بلکہ ان کے رحم وکرم کا محتاج سرکاری افسر ہے۔ ایسا افسر جو اپنے وزیراعظم
کی نصیحت کو قابلِ اعتناء نہیں سمجھتا۔
لو اگروال اتنا نیچے گرنے کے بجائے اگر یہ بھی بتاتے کہ تبلیغی جماعت کے
علاوہ باقی ماندہ جو ۷۰ فیصد لوگ کورونا پوزیٹیو پائے گئے وہ کن مندروں اور
مٹھوں سے آئےتھے تو بہتر ہوتا کیونکہ لاک ڈاون کے بعد مختلف مذہبی مقامات
پر عقیدتمند پھنس گئے تھے۔ دوارکا کے مندر جو 1700 لوگ تھے۔ انہیں سرکاری
بسوں سے گھر پہنچانے کے بعد یا پہلے کیا ان کی جانچ کی گئی؟ اجین کے مہاکال
مندر سے جن 300عقیدتمندوں کوسرکار نے باہر بھیجا ان کا کیا ہوا؟ نیز انہیں
بتانا چاہیے تھا کہ اجین میں موجود 107 لوگوں میں سے 2پوزیٹیو پائے گئے ہیں
۔ ان کے ذریعہ کتنے لوگوں تک یہ بیماری پھیلی کون جانے؟امرتسر کے دربار
صاحب میں تو ایک چینی اور 8 پاکستانی سمیت جو200لوگ پھنس گئے تھے ان کا کیا
بنا؟ یا دربار سرائے رام داس میں جو 150 لوگ موجود ہیں ان کی صرف اسکریننگ
کی گئی ۔ اگر ٹسٹ کیا جاتا تو پتہ چلتا کہ کتنے پوزیٹیو ہیں ۔ تبلیغی جماعت
کے مرکز میںجس طرح ملیشیائی باشندے تھے اسی طرح امرتسر میں بھی ملیشیا
کے180 شہری پھنسے ہوئے ہیں لیکن چونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں اس لیے کوئی ان
کی جانب توجہ نہیں دیتا۔ دوارکا میں کولکاتہ اور بہار ۱۲۸ شردھالو اب بھی
ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ ان کی تفصیل بھی کوئی نہیں بتاتا۔
سب سے دلچسپ صورتحال تروپتی کے بالاجی مندر کی ہے۔ اس مندر کے انتظام و
نصرام کے 16ہزار اہلکار تعینات ہیں۔ ان سبھی کو اہل خانہ کے ساتھ نیچے
آشرم میں بلالیا گیا ۔اس کے بعد 7-7 کے لیے ان میں سے ایک ایک ہزار کو
جانچ کرکے اوپر مندر میں بھیجا جاتا ہے اور واپس آنے پر ان کی جانچ کی
جاتی ہے۔ لواگروال کو چاہیے کہ یہ بتائیں کہ اس ایک مہینے میں جو چار ہزار
لوگ آئے گئے ہیں ان میں سے کتنے کورونا پوزیٹیو نکلے اور ان کے اہل خانہ
کا کیا حال ہے؟ لو اگروال کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ایودھیا میں اب تک
4ہزار لوگوں کو قرنطینہ میں کیوںبھیجا گیا اور چونکہ ان میں 266 لوگ بیرونِ
ملک سے لوٹ کر ہندوستان آئے تھے اس لیے ان میں کتنے فیصد پوزیٹیو نکلے
۔وزیراعظم نے اپنے پیغام میں یہ بھی کہاکہ مستقبل کا دارومدار اتحاد اور
پریشانیوں کا مل جل کر مقابلہ کرنے پر ہوگا۔مستقبل میں بھارت کی اہم سوچ کو
دنیا میں اہمیت اور وقار ملے گا۔
وزیراعظم کے مطابق اس بحران کے بعد نہ صرف بھارت بلکہ پوری انسانیت میں ایک
مثبت تبدیلی لانے کی صلاحیت پیدا ہوگی لیکن کیا لو اگروال جیسے لوگوں کی
فتنہ سامانیاں اس خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے دیں گی ؟ مودی سرکار کے
لواگروال جیسے اہلکار اگراپنی ناکامی کی پردہ پوشی کے لیے تبلیغی جماعت کی
آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے باز نہیں آئیں اور وزیر اعظم ان کی
سرزنش بھی نہیں فرما ئیں تو ایسے میں ان کے اخلاص پر شک تو ہوتا ہی ہے۔ ان
افسران کو حاصل کھلی چھوٹ سے گمان گزرتا ہے کہ یہ پروچن کہیں مگر مچھ کے
آنسو تو نہیں جو عوام کوبیوقوف بنانے کے لیے بہائے جاتے ہیں۔ ان کی حیثیت
ان ہاتھی کے دانتوں کی تو نہیں جوصرف دکھانے کے کام آتے ہیں اور کھانے کے
لیے لو اگروال یا وگی ادیتیہ ناتھ جیسے کوگوں کے خونخوار دانت استعمال کیے
جاتے ہیں ۔ یہ تضاد اتفاق ہے یا سازش اس کی وضاحت وزیر اعظم کے سوا کوئی
نہیں کرسکتا؟
|