اس حقیقت سے کون انکارکرسکتاہے کہ حاکم ومحکوم
برابرنہی ہوتے،حاکم کے پاس فیصلہ سازی کااختیاراورعمل درآمدکیلئے ریاستی
ادارے ہوتے ہیں جبکہ محکوم کے پاس حاکم کے فیصلوں کوتسلیم کرنے کے علاوہ
کوئی راستہ نہیں ہوتا محکوم اپنے حاکم سے مطالبہ کرسکتے ہیں کچھ چھین نہیں
سکتے جبکہ حاکم ایسا کرسکتاہے اورکرتابھی ہے،حاکم کے احکامات کروڑوں،اربوں
محکومین تک فوری پہنچ جاتے ہیں جبکہ کسی محکوم کواپناخط حاکم تک پہنچانے
کیلئے خودکوآگ لگاکرجان دینی پڑتی ہے حاکم کسی بھی وقت کسی کوبھی
پابندسلاسل کرسکتاہے اورکرتابھی ہے پرمحکوم کوحاکم کے سامنے پیش
ہوکراپنادکھ درداورناانصافیوں کی داستان سنانے کی سہولت بھی دستیات نہیں
حاکم عالیشان زندگی گزارتے ہیں جبکہ محکومین کے پاس دووقت کھانے کاانتظام
نہیں،ان حالات میں حاکم ومحکوم سے ایک جیسامطالبہ کرناکہاں کاانصاف
ہوگا؟ہفتے کے دن وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اﷲ کا شکر ہے بڑے نقصان
سے بچ گئے ہیں کورونا کی صورتحال سے عوام کو آگاہ کرتے رہیں گے،پہلے ہمیں
اندازہ تھا کہ25 اپریل تک کورونا 50 ہزارافرادمتاثرکرسکتاتھااوراب خوش
قسمتی سے حالات بہترہوئے ہیں جس کے بعد 12 سے 15 ہزارافرادکے متاثرہونے
کاخدشہ ہے،وزیراعظم نے کوروناکے پھیلاؤکی رفتار کم رہنے پر قوم کو مبارکباد
دی اور بتایاکہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی میں ہر روز صورتحال کا
جائزہ لیا جا رہا ہے جس کے مطابق 15 سے 20 مئی تک کورونا کیسز بڑھنے کا
خدشہ ہے بڑھتے کیسز کے پیش نظر پوری تیاری کر رہے ہیں ہمارے ہسپتالوں میں
سہولتیں موجود ہیں مئی تک کورونا سے لڑنے کیلئے تیاری مکمل کر لیں گے،ہم نے
فیصلہ کیا ہے کہ آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن میں نرمی کی جائے،اینکرز،کالم نگار،
علماء اکرام لوگوں کو بتائیں کہ لاک ڈاؤن میں ان کا فائدہ ہے،سب سے بڑا
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں مزدو رجسٹرڈ نہیں ہیں امریکہ اور کینیڈا میں
مزدور طبقہ رجسٹرڈ ہے انہیں اس صورتحال میں امداد مل رہی ہے،امام مسجد
نمازیوں سے پابندیوں پر عملدرآمد کرائیں رمضان المبارک میں سب لوگ عبادت
کیلئے مساجد جانا چاہتے ہیں مساجد کے عائمہ سے کہتا ہوں کہ سماجی فاصلے پر
عمل کریں،اسی روزصدرمملکت عارف علوی کی سرپرستی میں حکومت اور علماء کے
درمیان نمازجمعہ رمضان المبارک میں تراویح، نمازوں اور اعتکاف کے حوالے سے
مشروط اورجزوی اتفاق ہو گیا ،حکومت اورعلماء کے درمیان طے پانے والے معاہدے
کے مطابق20 نکات میں مساجد میں دریا ں اور قالین نہیں بچھائی جائیں گی، فرش
پر نماز ہوگی، سڑک ا و ر فٹ پاتھ پر نماز تراویح ادا نہیں ہوگی،50 سال یااس
سے زیادہ عمر کے لوگ اورنابالغ بچے مسجد میں نماز ادا نہیں کرینگے، نماز
کیساتھ حفظان صحت کا بھی خیال رکھا جائیگا،بیماری کا شکار افراد مسجد نہیں
جا سکتے، مسجد کے فرش کو کلورین کے پانی سے دھویا جائے،صف بندی کے دوران
نمازی 6، 6 فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوں گے،دو نمازیوں کی جگہ خالی چھوڑی
جائیگی، مسجد میں صحن ہو تو وہاں نماز اد ا کی جائے، مساجد میں جائے نماز
لے جانے کی اجازت ہوگی، اجتماعی سحری اور افطاری کا اہتمام نہ کیاجائے، وضو
گھر سے کر کے اور ہاتھ صابن سے دھوکر مسجد آئیں،ماسک پہن کر مساجد میں
آئیں، کسی سے ہاتھ نہ ملائیں، بہتر یہ ہے گھر پر اعتکاف کریں،حفاظتی تدابیر
کے ساتھ نماز تراویح ادا کریں،مسجد اور امام بارگاہ کمیٹی بنائی
جائے،جوپولیس کے ساتھ رابطہ رکھے،مساجد کمیٹی لائحہ عمل کو یقینی بنانے کی
پابندہو گی، مساجد کے منتظمین فرش پر نشان لگائیں گے،کسی بھی وقت حکومت
کواطلاع ملے کہ کسی جگہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا توحکومت فیصلے
پر نظر ثانی کرے گی، حکومت کو اختیار ہے کہ شدید متاثرہ علاقے میں شرائط
مزید سخت کر سکتی ہے ۔وزیراعظم پاکستان نے کالم نگاروں کوبھی مخاطب کیاہے
توایک طالب علم کی حیثیت سے اپنے وزیراعظم کے جائز مطالبے پرپوری پاکستانی
قوم سے اپیل کرتاہوں کہ یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ کوروناوائرس کے
پھیلاؤکومحدودرکھنے کیلئے ہم سب کوموثرکرداراداکرناہے اوروہ کردارہم اپنے
آپ کوگھروں تک محدودرکھے بغیرادانہیں کرسکتے لہٰذابغیرضرورت گھروں سے نہ
نکلیں گھروں کے اندراورضروری کام کے سلسلہ میں باہرنکلتے وقت احتیاطی
تدابیرپرسختی سے خودبھی عمل کریں اوردوسروں سے بھی کروائیں،وزیراعظم نے
کہاکہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں مزدو رجسٹرڈ نہیں ہیں امریکہ
اور کینیڈا میں مزدور طبقہ رجسٹرڈ ہے انہیں اس صورتحال میں امداد مل رہی ہے
، مزدو روں کارجسٹرڈ ہونابہت ضروری ہے اورہمیں اُمیدہے کہ وزیراعظم ماضی کے
حکمرانوں کی طرح غفلت نہیں کریں اورمزدوروں کورجسٹرڈکرکے آئندہ کیلئے یہ
مسئلہ ختم کردیں گے دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس وقت مزدوررجسٹرڈہوں تب بھی
ہمارے حالات ایسے نہیں کہ امریکہ یاکینیڈاکی طرزکاریلیف دے سکیں،جناب
وزیراعظم بے اختیاراورلٹے پُٹے،مہنگائی،بے روزگاری اوربیماری کے ہاتھوں
پریشان بے اختیارعوام سے مطالبہ نہیں اپیل ہی کی جاسکتی ہے جوکالم نگارپہلے
بھی کررہے ہیں اورآج پھرکردی ہے اب اپنے وزیراعظم سے مخاطب ہونے کی جسارت
کرناچاہتاہوں،توآپ بتائیں اے میرے کپتان آپ کافرمان ہے کہ ہم اﷲ ہی کی
عبادت کرتے ہیں اوراﷲ ہی سے مددمانگتے ہیں یہ سچ ہے توکوروناوائرس پھیلنے
پرآئی ایم ایف،اقوام متحدہ،امریکہ اوربرطانیہ سے امداداورقرضوں کی معطلی
یامعافی کی درخواست کیوں؟مشکلات کاشکاربیرون ملک پاکستانیوں،کاروبارکی بندش
اورخوف وہراس کے شکاراندرون ملک پاکستانیوں سے چندہ کیوں مانگاجارہاہے؟اے
میرے کپتان اﷲ کی عبادت اورفضل کابھروسہ تواعمال کی بنیادپرقائم ہوتاہے،اے
میرے کپتان فقط زبان سے اقرارکرلیناکافی نہیں کہ اﷲ ہم فقط تیری ہی عبادت
کرتے ہیں اورصرف تجھ ہی سے مددچاہتے ہیں،اے میرے کپتان قول وفعل میں
اتناتضادکیوں؟میرے کپتان ہم جانتے ہیں کہ عوام کی اکثریت بغیرمحنت یابہت کم
محنت کے بدلے بہت زیادہ بلکہ بہت ہی زیادہ کماناچاہتی ہے چاہے بھیک مانگنی
پڑے چاہے قرض اٹھاناپڑے چاہے سودکاگناہ سرلیناپڑے چاہے رشوت کی کمائی
ہوچاہے ذخیرہ اندوزی ہویہاں تک کہ کچھ تو وطن فروشی سے بھی گریزنہیں کرتے
پرآپ نے توکہاتھابھیک مانگنے والوں کی کوئی عزت نہیں کرتاہم پاکستان کوعظیم
فلاحی ریاست بنائیں گے اورکبھی کسی سے بھیک نہیں مانگیں گے کبھی قرض نہیں
لیں گے چلوقرض لیناتوسمجھ آتاہے پرہماراکپتان بھیک کے لیے ہاتھ پھیلائے
گایہ توقع کسی کو بھی نہ تھی،اے میرے کپتان کوروناوائرس پوری دنیامیں
پھیلاہے اور بیرون ملک پاکستانی ہم سے کہیں زیادہ پریشان اورمددکے مستحق
ہیں جبکہ آپ نے ان کاحال پوچھنے کی بجائے پیسے مانگنے شروع کردیئے ہیں معاف
فرمائیے گابات کچھ ہضم نہیں ہورہی،اے میرے کپتان 12ہزارکی گندم چار سے چھ
افرادپرمشتمل نارمل خاندان کیلئے پورے سال یعنی 12 ماہ کاراشن ہوتاہے،مشکل
وقت میں بھیک مانگنے غیراﷲ کے سامنے دست درازکرنے سے کہیں بہترہے پیٹ بھرنے
کیلئے آٹا سب کیلئے اس قدرسستاکردیاجائے کہ مفت معلوم ہواورقوم سے اپیل کی
جائے کہ مشکل دن چٹنی،نمک،مرچ یااپنی مالی حیثیت کے مطابق سستی دال سبزی کے
ساتھ گزاراکریں ہم بھیک نہیں مانگ سکتے لہٰذاہمیں دستیاب وسائل میں
صبروشکرکرناہے،کوئی مزیدسوال کرے تواسے بتائیں کہ ہم فقط اﷲ ہی کی عبادت
کرتے ہیں اور مدد بھی اﷲ ہی سے مانگتے ہیں جواﷲ تعالیٰ عطافرماتاہے اسی میں
شکربھی کرتے ہیں،اے میرے کپتان اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کے
حکمرانوں نے ملک کوبے دردی کے ساتھ لوٹاہے پریہ بھی سچ ہے کہ آپ کے ساتھی
بھی انہیں حکمرانوں کے تربیت یافتہ اورانہیں کے نقش قدم پرہیں،یہ بھی حقیقت
ہے مخلص،محب وطن اورایماندرقیادت نایاب ہوچکی ہے پراس وقت حکومت آپ کی
سربراہی میں قائم ہے توسوال بھی آپ سے ہی کیے جائیں گے اورآپ جواب دہ بھی
ہی ہیں،اے میرے کپتان عوام حکومت کے ساتھ اسی وقت تعاؤن کریں گے جب حکومت
اُن کی اُمیدوں،اپنے انتخابی وعدوں پرپورااترے گی اوراپنی ذمہ داریاں
ایمانداری کے ساتھ سرانجام دے گی یہ بات آپ خودنہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ
دہراتے بھی ہیں کہ ہمارامسئلہ غربت ہے جس کے باعث لاک ڈاؤن پر ڈنڈے کے
زورپرعمل کرواناممکن نہیں اورڈرہے کہ مکمل لاک ڈاؤن ہواتوخدشہ ہے کہ
کوروناسے زیادہ لوگ بھوک سے مرجائیں گے تواے میرے کپتان پھرآپ یہ بھی
بتائیں کہ حساب کس کودیناپڑے گا؟ٹھیک ہے ساری خامیاں،غلطیاں،خرابیاں ماضی
کے حکمرانوں کی ہیں پرحاکم وقت آپ بھی ہیں ماضی گزرچکاماضی کے حکمران بھی
گزرچکے اب ذمہ داری آپ کی ہے اے میرے کپتان اﷲ کی عبادت کرنے والے اﷲ سے
مددمانگنے والے مشکل وقت میں گھبراکرغیراﷲ کے سامنے گڑگڑایانہیں کرتے بلکہ
اپنے اﷲ کی طرف اوربھی زیادہ متوجہ ہوجایاکرتے ہیں اپنی خطاؤں کی معافی طلب
کرتے ہیں آئندہ کیلئے توبہ کرتے ہیں اﷲ کی رسی کومضبوطی سے تھام کراسی کے
احکامات کونافذکرتے ہیں،کیاآپ نے ایساکیا؟اﷲ کی عبادت کرنے والاانسان
اورحاکم وقت یہ کیسے کرسکتاہے کہ خود پیٹ بھرکھائے اُس کے دسترخوان
پردرجنوں کھانے سجیں اورمحکومین بھوک سے مرجائیں؟
|