ڈاکٹر عافیہ کو آزاد کروایا جائے

جو قوم اپنے شہیدوں اور مظلوم بیٹیوں کو بھول جائےاس قوم کی قسمت میں کفار کی غلامی لکھ دی جاتی ہے

تقریباً دو ماہ کے قرنطینہ دور نے دنیا کو سمجھا دیا کہ قیدوبند کی زندگی کیسی ہوتی ہے ۔۔۔ایک آزاد انسان جب محبوس ہوجائے تو اس کی نفسیاتی وجسمانی حالت کیا ہوجاتی ہے؟ ۔۔۔لیکن کچھ نفوس ایسے بھی ہیں جو ایک طویل مدت سے قید کی حالت میں ہیں ۔ان میں سے ایک نام صدیقِ اکبر ؓکی بیٹی عافیہ صدیقی کا بھی ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ڈاکٹر عافیہ جو حافظۂ قرآن بھی ہیں ،وہ 2 مارچ 1972 کو کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی جبکہ اعلی ٰ تعلیم امریکہ میں میساچوسٹس ادارۂ ٹیکنالوجی (MIT) سے حاصل کی اور یہیں سے علم الاعصاب میں Ph.Dکی سند حاصل کی ۔آپ اپنے وطن میں کراچی کے قریب ایک ’’شہرِعلم ‘‘بسانا چاہتی تھیں لیکن افسوس یہ ارادے پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے۔عافیہ کو 30 مارچ 2003 ء میں اس وقت امریکی ایجنسیوں نے کراچی سے اغوا کیا جب وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ ایر پورٹ جارہی تھیں۔اس کے بعد عافیہ کو افغانستان لے جایا گیا اور بگرام جیل میں رکھا گیا ۔دورانِ قید عافیہ کو گولیوں کا نشانہ بنا کے زخمی کردیا گیا۔اس کا انکشاف سب سے پہلے امریکی صحافی یوون ریڈلی نے کیا کہ بگرام جیل میں قیدی نمبر650 پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے جو بری حالت میں ہے۔میڈیا میں شور مچنے پر ڈاکٹر عافیہ کوامریکہ لے جایا گیا تاکہ ان پر امریکی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکے ۔23 ستمبر 2010ء میں نیویارک عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کو 86 سال عمرقید کی سزا سنائی جبکہ جرم کے شواہد اور ثبوت بھی موجود نہ تھے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بقول وہ گن جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اسے نازک سی عافیہ نے لمبے تڑنگے امریکی فوجی کے ہاتھ سے چھینا اور فائر کرنے کی کوشش کی،اس گن پر عافیہ کی انگلیوں کے نشانات بھی موجود نہیں تھے اور وہ امریکی فوجی بالکل صحیح سلامت تھا جبکہ عافیہ شدیدزخمی تھی۔

ہماری تاریخ کے اوراق همیں بتاتے هہیں کہ کبھی محمد بن قاسم بھی یہاں کسی مسلمان بہن کی پکار پر آیا تھا اور اس کو رہائی دلوائی تھی ۔آج اگرہم تک اسلام پہنچا ہے تو کسی مسلمان بیٹی کی چادر کے صدقے ہی پہنچا ہے !!

عافیہ صرف ایک پاکستانی مسلمان بیٹی نہیں ہے بلکہ وہ پاکستان کی عزت بھی ہے، وہ پاکستان کا وقار بھی ہے، وہ پاکستان کی غیرت بھی ہے، وہ پاکستان کا پرچم بھی ہے، وہ اس دھرتی ماں کے جسم کا ٹکڑا بھی ہے جس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے !!

اے میری قوم !کیا ہم بھول گئے قرآن میں بیان کردہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو؟ جس کے بارے میں حکم تھا کہ اسے کوئی کچھ نہ کہے لیکن جب قوم نے اسے مارڈالا تو پھر وہ قوم تباہ کردی گئی!!

اگر آج ہم نےعافیہ کی رہائی کے لیےکچھ نہ کیا تو اس کے قتل میں شریک سمجھے جائیں گے اور تاریخ همیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔

ایک سنجیدہ طبقہ یہ سوال کرتا ہے کہ ہم ڈاکٹر عافیہ کے لیےکیا کرسکتے ہیں؟ گزارش ہے کہ وہ پاکستان کی بیٹی ہے تو پاکستان کو اس کورہا کروانا چاہیے۔قوم میڈیا کو آواز بنائے ۔حکومت پاکستان باضابطہ طور پر اس کی رہائی کے لیے امریکی حکومت سے درخواست کرے۔آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے امریکی حکومت قیدیوں کو رہا کر رہی ہے تو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ممکن ہوسکتی ہے۔بصورت ِِدیگر کسی سیاسی قیدی مثلاً کرنل جوزف یا شکیل آفریدی کے بدلے بھی رہا کروایا جا سکتا ہے ۔

ہمیں سلطان صلاح الدین ایوبی کا یہ فرمان یہ یاد رکھنا چاہیے کہ’’جو قوم اپنے شہیدوں اور مظلوم بیٹیوں کو بھول جائےاس قوم کی قسمت میں کفار کی غلامی لکھ دی جاتی ہے ! ‘‘