مشیت ایزدی اپنا کام کرتی رہتی ہے اوروقت کا پہیہ کبھی
نہیں رکتا ۔ عذاب الٰہی ایسے مقام سے آتا ہے کہ جس کا کسی کو وہم و گمان
بھی نہیں ہوتا مثلاً تنورکے ابل پڑنے سےطوفانِ نوح آگیا ۔ آگ کا مسکن سے
پانی کا اُبل پڑنا امعجزے کی ابتدا تھی ۔ حضرت نوح ؑ کا بیٹا اس گمان میں
پہاڑ پر چڑھ گیا کہ وہاں تک پانی نہیں آسکتا لیکن اس کا بھی غرقاب ہوجانا
معجزے کی انتہا تھی۔ کل تک ہر ایرا غیرا نتھو خیرا تبلیغی جماعت کو بلا
ثبوت قومی سطح پر کورونا وائرس کے پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرا رہا تھا۔ آج
دنیا بھر کے دانشور اس نازک گھڑی میں بھی سنگھ پریوار کو عالمی سطح پر نفرت
کے وائرس کو پھیلانے کا سزا وار قرار دے رہے ہیں ۔ مودی بھکتوں پر الزام
بلا ثبوت نہیں لگایاجارہاہے ۔ ذرائع ابلاغ میں ان کے ٹویٹ گواہ بن کر کھڑے
ہوئے ہیں ۔ ان کا حوالہ دے کر جب سوال کیا جاتا ہے تو شیر کی مانند دہاڑنے
والے زعفرانی بھیڑیوں کی خاکی نیکر ڈھیلیہوجاتی ہے۔ وہ اپنا ٹویٹر اکاونٹ
بند کر کےیعنی دم دبا کر چوہے کی طرح بل ِ میں گھس جاتے ہیں ۔ پردھان سیوک
کو ان کی مدد کے لیے میدا ن میں آنا پڑا ہے ۔ ارشادِ ربانی ہے :’’ اگر
تمہیں کوئی تکلیف چھولیتی ہے تو (مخالف) قوم کو بھی اس سے پہلے ایسی ہی
تکلیف ہوچکی ہے اور ہم تو زمانے کو لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے رہتے
ہیں‘‘۔
نریند ر مودی نے جس وقت وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو ان کا دامن گجرات
کے فساد سے داغدار تھا۔ اس وجہ سے ان پر مسلم دنیا تو دور امریکہ تک کے
دروازے بند تھے لیکن حلف برداری کے ساتھ ہی سب کچھ بدل گیا اور امریکہ نے
پابندی ہٹا لی اوراس کی پیروی عربوں نے بھی کی ۔ وزیراعظم مودی نے عرب دنیا
کے ساتھ رشتوں کو مستحکم کرنے کو کافی اہمیت دی اوراگست ۲۰۱۵ میں متحدہ عرب
امارات کا دورہ کیا۔ ہندوستان کے کسی وزیراعظم کا34برسوں کے بعدیہ پہلا
دورہ تھا۔ سعودی عرب نے وزیراعظم کو اعلیٰ ترین شہری اعزاز سعودی عربیہ
’’سیش‘‘ سے نوازا۔ اس کے جواب میں سوربھ اپادھیائے جیسے مودی بھکتوں نے
دبئی میں بیٹھ کر کرونا وائرس کی عالمی وبا ء کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کے
خلاف زہر اگلنا شروع کردیا ۔ اپادھیائے جیسوں نے ٹویٹر پر اپنی بیمار ذہنیت
کا مظاہرہ کرتے ہوئے تبلیغی جماعت پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد
کرکے مودی جی کی مٹی پلید کردی اور وہاں رہنے والے لاکھوں ہندووں کو مشکل
میں ڈال دیا۔
عرب امار ات میں مقیم اپادھیائے نے تو یہ دعویٰ بھی کردیا کہ دبئی کی ساری
ترقی ہندوستانیوں کی مرہونِ منت ہے۔ ان تضحیک آمیز پیغامات کے جواب میں
امارات کی شہزادی ہندآل قاسمی ٹویٹ کیا کہ "شاہی خاندان کے ہندوستانی
تارکین وطن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، لیکن آپ کی بدتمیزی برداشت نہیں کی
جائے گی، یہاں تمام لوگوں کو کام کا معاوضہ دیا جاتا ہے کوئی بھی مفت میں
کام نہیں کرتا ، جس سرزمین سے آپ اپنا سب کچھ کماتے ہیں ،اسی کو تنقید کا
نشانہ بناتے ہیں ، لہذا ایسی تنقید نظر انداز نہیں کی جائے گی‘‘۔ شہزادی
ہندآل قاسمی نے سوربھ جیسے لوگوں کو خبردار کیا کہ” متحدہ عرب امارات میں
سرعام نسل پرستانہ اور امتیازی نظریات کا اظہار کرنے والے پر نہ صرف جرمانہ
عائد کیا جائے گا بلکہ ملک بدر بھی کردیا جائے گا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ
اپادھیائے جیسے لوگوں کو اس نفرت انگیزی کی شئے کہاں سے ملی ؟ کیا اس کے
لیے حکومت ہند ، میڈیا اور فسطائی ذہنیت ذمہ دار نہیں ہے؟ حق تو یہ ہے اس
شور شرابے نے امارت کیا مسلم دنیا کے سوئے ہوے شیر کو بیدار کردیا ۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کو کسی شخص کا انفرادی معاملہ کہہ کر نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ہندوستان کے اندرحیدرآباد کے بی جے پیرکن اسمبلی
راجہ سنگھ نے بھی تبلیغی جماعت کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ
ہندوستان میں لاک ڈاؤن کے بڑھنے کی وجہ تبلیغی جماعت کے ارکان ہیں۔ تبلیغی
جماعت کے چھپے ارکان کوباہر نکالو، انہیں قرنطینہ کرو، انہیں گرفتار کرواو
یا انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ماردو، کیونکہ انہی کی وجہ سے ملک کی عوام خطرہ
میں ہے۔ وزیر اعظم کا موقف اس کے خلاف تو ہے لیکن ان کی پارٹی راجہ سنگھ
جیسے لوگوں کی سرزنش نہیں کرتی ۔ اس لیے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ تک یہ غیر
ذمہ دارانہ بیان دے دیتے ہیں کہ اگر تبلیغی نہیں ہوتی تو ہم کورونا پر قابو
پاچکے تھے۔ ایسے ہی لوگوں سے ترغیب لے کر مودی بھکت اس طرح کی حماقت کرتے
ہیں اور اس کے جواب میں ہندوستانی سفیر اور وزیراعظم کو لیپا پوتی کے لیے
میدان میں آنا پڑتا ہے۔
متحدہ عرب امارت ہندو تارکین وطن کی نفرت انگیزی کے خلاف ہندی سفیر کو یہ
تنبیہ کرنی پڑی کہ وہاں مقیم تمام ہندوستانی شہریوں کو یہ بات یادرکھنا
چاہئے کہ امتیازی سلوک ہمارے سماجی دھارے اور قانونی حکمرانی کی بالادستی
کے خلاف ہے۔ ہندوستانی سفیر نے اپنے ٹویٹ کے ساتھ مودی کا یہ پیغام بھی
منسلک کیا کہ نوال کرونا وائر س حملہ کرنے سے قبل نسل‘ مذہب‘ رنگ‘ ذات‘
پات‘ زبان‘ سرحد“ کا امتیاز نہیں کرتا ۔ اس کا مقابلہ اتحاد او ربھائی چارہ
سے کرنا چاہئے۔ اس میں ہم ایک ساتھ ہیں۔ اس طرح سفیر نے مودی کے ٹویٹ کا
تناظر واضح کردیا اور اس کی مدد سے شہزادی ہند القاسمی جیسے لوگوں کا غم
وغصہ کم کرنے کی کوشش کی ۔اس معاملے میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی
انسانی حقوق کمیٹی نے آگے بڑھ کر ہندوستان کے اندر کورونا وائرس کی آڑ میں
اسلاموفوبیا مہم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں سے امتیازی
سلوک اور تشدد کیا جارہا ہے۔ اس نے حکومت ہند سے مظلوم مسلم اقلیت کے حقوق
کے تحفظ کی خاطر فوری اقدامات کرنے کا پرزور مطالبہ کیا ۔کورونا کے
بعدسرزمین ہند پر تفریق و امتیاز کا بازار گرم ہے ۔ یہاں تک کہ مریضوں کے
ساتھ بدسلوکی، ان کو بھرتی کرنے سے انکاراور علٰحیدہ وارڈ تک میں منتقل
کرنے کے واقعات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں ۔ نفرت انگیزی کے سبب ، سبزی
بیچنے والوں تک پر حملے کیے گئے اور مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کرنے کی بات
تک ہونے لگی۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے مسلم دنیا کے
کئی رہنماوں اور ارکان پارلیمان کے ٹویٹ وزیراعظم کو ٹیگ کرکے توجہ دلاتے
ہوئے لکھا کہ اس سے ہندوستان کی شبیہ اور ہندوستانی اقتصادیات کو خطرہ لاحق
ہوگیا ہے ۔
بی جے پی اس طرح کے مواقع پر اپنے دفاع کے لیے مختار عباس نقوی جیسے لوگوں
کو پالتی ہے۔ او آئی سی کی ہندوستان میں ’ اسلاموفوبیا‘ کے مبینہ واقعات
پر تشویش کے بعد اقلیتی امور کے مرکزی وزیر نے کہا کہ سیکولر ازم اور ہم
آہنگی ہندوستان اور ہندوستانیوں کے لئے 'سیاسی فیشن' نہیں بلکہ ’پرفیکٹ
پیشن‘ ( جنون وجذبہ) ہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ان مشترکہ اقدار
اور پختہ عزائم کےسبب کثرت میں وحدت ہے۔ نقوی صاحب اگر یہی بات تبلیغی
جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کے وقت کہتے تو آج یہ ذلت
اٹھانے کی نوبت نہ آتی ۔نقوی کا کہنا ہے کہ ’’اقلیتوں سمیت ملک کے تمام
شہریوں کے آئینی، سماجی اور مذہبی حقوق کی ہندوستان کےدستوریمیں ضمانت ہے۔
کسی بھی حالت میں ہماری کثرت میں وحدت کی طاقت کمزور نہیں ہو سکتی۔ ہمیں
ہوشیار اور متحد ہو کر ایسی قوتوں کے پروپیگنڈے کو شکست دینا ہے‘‘۔ کاغذ پر
تو یہ ضمانت موجود ہے لیکن عمل کی دنیا اس کا نام و نشان نہیں ہے اور اس کے
لیے ان کی حکومت اور پارٹی ذمہ دار ہے ۔
عباس نقوی صاحب کہتے ہیں کہ جعلی خبروں ، اشتعال انگیز باتوں اور افواہ
پھیلانے والی سازش سے ہم لوگوں کو ہوشیار رہنا چاہئے۔بی جے پی کا آئی ٹی
سیل فی الحال افواہوں اور اشتعال انگیزی کا مرجع و منبع بنا ہوا ہے اس لیے
عوام کو ہوشیار کرنے کے بجائے عباس نقوی وزیراعظم نریندر مودی سے کہہ کر اس
کو بند کروادیں۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری ۔ اس کےبعد بھی اگر
کوئی شرارت کرے تو اس کو جیل بھجوادیا جائے مسئلہ ازخود حل ہوجائے گا اور
اعلان کرنے ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی کہ وزیراعظم کی قیادت میں ملک کے
تمام شہریوں کی حفاظت ہو رہی ہے۔پورا ملک متحد ہوکر مذہب،علاقائیت،ذات پات
کی تنگ قیود وحدود سے اوپر اٹھ کرکورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔کل تک
تو خود مختار عباس نقوی بھی تبلیغی جماعت پر کڑی تنقید کرکے فرقہ پرستوں کے
ہاتھ مضبوط کررہے تھے ۔ آج ڈنڈا پڑا تو عقل ٹھکانے آئی۔
وزیر موصوف نے ایک سوال کے جواب میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان اقلیتوں
کے لئے اور خاص طور پر مسلمانوں کے لئے جنت ہے۔ ان کے سماجی، اقتصادی،
مذہبی حقوق پختہ اور مستحکم ہیں۔ تعصب میں مبتلا ہو نے والوں کو ملک کی
زمینی حقیقت کو دیکھنا چاہئے۔ گذشتہ ساڑھے پانچ برسوں کے اندر سرکاری
ملازمتوں میں مسلمانوں کی تعداد بڑھی ہے۔ تعلیم کے میدان میں وہ آگے بڑھے
ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اقتصادی طور پر خود کفالت میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک ترقی
کر رہا ہے تو مسلمان بھی ترقی کر رہے ہیں۔ یہ عجیب چمتکار ہےاقلیتوں پر
حکومت کا بجٹ کم ہورہا ہے اور وہ خوشحال ہو رہے ہیں۔ ویسے نقوی صاحب کو یہ
بھی بتانا چاہیے کہ دہلی کے جن علاقوں میں فساد ہوا کیا وہ ملک کے اندرنہیں
ہیں ؟ کیا وہاں کے مسلمانوں کی مزاج پرسی کے لیے جانے کی کسی بی جے پی کے
رہنما ی کو توفیق ہوئی ؟ جامعہ ملیہ میں جب پولس نے گھس کر ظلم کی انتہا
کردی تو وہ اور ان کے ساتھی کہاں تھے؟ شاہین باغ کے خلاف جب دن رات اشتعال
انگیزی کی جارہی تھی تو انہوں نے یہ نصیحت کیوں نہیں فرمائی ؟ وزیر موصوف
کے ذریعہ ہندوستان کو مسلمانوں کے لیے جنت قرار دئیے جانے کو پڑھ کر یہ بات
سمجھ میں آگئی کہ غالب نے نقوی جیسے راج درباریوں کی خیالی جنت کے بارے
میں کہا تھا ؎
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
|