ہسپتال یاترا

کچھ دن قبل عارضہ جگر کی وجہ سے دو مرتبہ عمل جراحت سے گزرنا مقدر ہوا، یہ داستان غم دوسری مرتبہ کی جراحت کے دوران کی آپ بیتی ہے جو کوشش کی کہ فکاہیہ اسلوب میں قلمبند ہو جائے۔

ہسپتال سے فراغت پائے ایک ہفتہ گذر چکا اور بادئ النظر میں آزمائش بھی ختم ہوئی ، لیکن نہیں ، قدر ت کے فیصلے کچھ اور ہوتے ہیں اور اس کا ادراک تب ہوا جب معمول کے معائنے کو میں معالج کے پاس پہنچا اور کچھ گفتگو کے بعد معالج نے الٹرا ساونڈ کی ہدایت کی، جب الٹرا ساونڈ نے جگر کے پار جھانکا تو پتہ چلا کہ’’دل ، جگر تشنہ فریاد آیا‘‘ یعنی جگر کو پھر سے اک آہ و فغاں کی کیفیت میں دیکھا گیا اور معالجین نے تمام رپورٹوں کا ہنگامی جائزہ لینے کے بعد رائے قائم کی گزشتہ جراحت میں کچھ کمی رہ گئی ہے اور جگر کے شاملات میں کچھ ناپسندیدہ عناصر کا اسی طرح قبضہ ہے جس طرح ہمارے ہاں دریاؤں کے شاملات پر مقامی بااثر لوگ قبضہ کر لیتے ہیں اور سیلاب غرباء کی بستیاں اجاڑ نے چل پڑتا ہے جس کا سدباب فوری کاروائی کا متقاضی ہےاسی طرح ہم نہیں چاہتے کہ یہاں بھی کوئی سیلابی صورت حال کا سامنا ہو لہذا آپکو عمل جراحت سے دوبارہ گزرنا ہو گا تا کہ آنے والے متوقع طوفان سے بچا جا سکے، جراحت کا سنتے ہی ایک مرتبہ تو دل پر گویا رقت طاری ہو گئی اور مجھے شک گزرا کہ شاید یہ لوگ مجھ پر عمل جراحت سیکھ رہے ہیں اور ساتھ ہی ذہن میں آیا کہ:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
معالج نے مجھے خاموش دیکھ کر پوچھا کیا ہوا، میں اتنا ہی کہہ سکا جناب دیکھ لیجئے بار بار کی جراحت، کچھ ہی دن میں عید کی آمد آمد ہے کہیں میرے اہل خانہ کے لیے ’’محرم ‘‘نہ ہو جائے، معالج نےاک نگاہ غلط انداز سے مجھے دیکھا اور تسلی دی لیکن جو خوف دامن گیر تھا وہ رہا البتہ اس میں وہ شدت نہ تھی جو گزشتہ جراحت کا سن کر پیدا ہوئی تھی اور اس سے مجھے انگریزی کے اس مقولے پر بھی یقین ہونے لگا کہ بار بار کی مشق ہی انسان کو مکمل کرتی ہے مگر ظاہر ہے کسی بھی ’’شریف النفس‘‘ انسان کو ایسی تکمیل نہیں چاہئے ہو گی ۔
معالج کی ہدایت پر متعلقہ نرس نے ہسپتا ل میں قیام و طعام کے کاغذات تیار کئے اور ہم پورے کروفر کے ساتھ اس ’’قاتل مسیحا‘‘ کے جلو میں اسی گوشئہ طب میں وارد ہوئے جہاں گذشتہ عرصے میں قیام تھا سو خیال گزرا کہ پھر سے ہمیں انہیں نرسوں کی ہمرکابی میسر ہو گی جن سے کچھ دن پیشتر جدائی مقدر ہوئی تھی ، اپنے کمرے میں پہنچے ساتھ آئی محترمہ نے دروازہ کھولا اور ہمیں کمرہ دکھایا اور یہ جا اور وہ جا، ،،،، میں اب اسی شش و پنج میں کہ یہ کیا بات ہوئی، نہ بیٹھے ، نہ ٹہرے نہ کوئی بات کی، بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہے بچھڑ جانے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بستر پر نیم دراز ہوا تو ڈیوٹی نرس وارد ہوئی جس کا تعلق فلپائن سے تھا اس نے مجھے دیکھتے ہے نہایت شستہ انگریزی میں اک نعرہ مستانہ لگایا کہ ،،،،، ارے تم پھر آ گئے، میں نے اس سے بھی اچھی انگریزی میں کہا کیا کرتا آپکی یاد نے ستایا تو ہسپتال یاترا کی سوجھی، اس نے قاتل تبسم سے میرے جملے کا شکریہ ادا کیا اور روایتی ادا سے کہا کہ ویسے تم پہلے سے بہت بہتر لگ رہے ہو، میں نے بھی فوری عرض کیا محترمہ اگر آپ یونہی مجھے دیکھا کریں تو میں ہر دفعہ آپکو پہلے سے زیادہ اچھا لگوں گا، اس نے مسکراتے ہوئے ٹی وی آن کیا اور ریمورٹ مجھے تھماتے کہنے لگی کہ باتیں خوب کر لیتے ہو، میں نے برجستہ کہا کہ میں باتوں کا کوئی خاص ماہر نہیں لیکن ’’تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات‘‘ تو میں کیا کروں وہ مسکراتے ہوئے چلی اور کہنے لگی کہ ابھی دوسری نرس آئے گی معمول کے معائنے کے لئے اور آج کے شیڈول سے بھی تمہیں آگاہ کر دے گی، میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔۔۔۔کہ اب زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
کچھ دیر میں ملک ہند کی ایک کیرالہ النسل نرس برآمد ہوئی ، جس کی آمد ہی ایسی تھی کہ۔۔۔۔۔۔ نہ صحرا میں ہولے سے چلی باد نسیم نہ بیمار کو بے وجہ قرار آیا ۔
مجھے دیکھتے ہی مضروب اردو میں کہا کہ آپ تو پہلے بھی یہاں آئے تھے ، میں نے فقط جی کہا، پوچھنے لگی کہ آپ دلی سے ہو ، عرض کیا نہیں پاکستان سے، بولی آپکو اردو آتی ہے، کہا کہ محترمہ ہم اردو ہی بول رہے ہیں ، گویا ہوئی نہیں آپ دلی والوں جیسا بولتے ہو، میں نے سادہ لیکن پروقار انداز میں کہا کیا کیجئے ہم اور دلی والے دل والے جو ہوئے، اتنی دیر میں وہ فشار خون دیکھ چکی تو حیرت سے بولی آج بلڈ پریشر پہلے سے زیادہ ہے، میں نے دل میں کہا محترمہ آپکو دیکھ کراور ہو بھی کیا سکتا ہے، پھر دل کی دھڑکن دیکھی تو میرے استفسار پر کہنے لگی کہ معمول کے مطابق ہے جس پر میں یہ سوچ کر مسکرا دیا کہ :
جوق درد جوق تمناؤں کے دھوکے کھا کر
دل اگر اب بھی دھڑکتا ہے تو حد کرتا ہے
پھر اس نے مجھے بتایا کہ کوئی چیز نہیں کھانی شب دس بجے کے لگ بھگ سیٹی سکین ہوگا اور ساتھ ہی اپنی ٹرالی سے آٹھ عدد پانی کی بوتلیں جن میں کچھ محلول بھرا تھا اور اوپر نمبر درج تھے میرے سرہانے رکھے میز پر سجاتے ہوئے بولی کہ یہ ساری بوتلیں لکھے ہوئے نمبروں کی ترتیب سے پینی ہے اور ایک عدد نیم سفید گاؤن نکال کر مجھے تھمایا کہ لباس اتار کر یہ پہن لینا۔ اس کے جانے کے بعد میں نے حسب ہدایت لباس اتارا اور گاؤن پہن کر جو آئینہ دیکھا تو فرط جذبات سے آنکھیں بھر آئیں کہ:
’’قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا‘‘
میں نے دی گئی پانی کی بوتل کو کھولا اور اس کی رنگت سے اندازہ کیا کہ شاید مشروب مشرق ہے لیکن ایک ہی گھونٹ سے اندازہ ہوا کہ یہ کسی اور ہی سمت کا مشروب ہے جو حلق سے معدے تک بھونچال برپا کرتا گیا اور مجھے اک امتحان سے دو چارکر دیا کہ ایک دو نہیں پوری کی پوری آٹھ بوتلیں تھیں جو زہر مار کرنی تھی۔
تھوڑی دیر گزری کہ دو نرسیں اور آن پہنچیں روایتی سلام دعا کے بعد ایک نے کہا کہ آپکے بازو میں کینولا لگانا ہے اور ساتھ ہی دوسری نرس کو اشارہ کیا اور عربی میں کچھ کہا جو مجھے اندازہ ہوا کہ دوسری محترمہ زیر تربیت ہیں اور سینئر کی زیر نگرانی اب میرے بازو پر اپنا زور بازو دکھائیں گی بس اس کے ساتھ ہے میرا دائیاں بازو جس پر سر رکھنا چاہئے محترمہ نے اس پر ہاتھ رکھ دئے اور پھر لگی طبع آزمائی کرنے، بار بار کی شدید چبھن سے میں نے بازو کی طرف دیکھا تو محترمہ کے کانپتے ہاتھ دیکھ کر پریشانی ہوئی، کچھ ثانئے کے بعد اس نے بازو پر دوسری جگہ کا انتخاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ٹھیک رہے گا اور پھر سے سوئی لیکر لگی کشیدہ کاری کرنے اتنے میں بازو لہو لہان ہو چکا اور بستر پر بھی جا بجا خون کے دھبے اب سئینر نرس نے کہا کہ بازو کی بجائے ہاتھ کی پشت پر کینولا لگاتے ہیں، میں نے اس سے عرض کی محترمہ مجھے اللہ نے دوسرا بازو بھی عطا کیا ہے آپ ادھر توجہ دے لیں اور میرے ہاتھ کو بخش دیں ، وہ کہنے لگی اصل میں نس نہیں مل رہی میں نے عرض کیا کہ میں اپنی نس نس سے واقف ہوں اور میری جتنی صحت گر چکی ہے اب تو رگ رگ آپکو دور سے پکارتی ملے گی، اگر آپ ان محترمہ کی بجائے اپنے دست شفقت سے کام لیں تو تمام نسیں ہاتھ باندھیں حاضر ہوں گی اور آپ جس نس میں چاہیں اس سوئی کو دفن کر دیں مجال نہیں کہ میرا خون کوئی ابال کھائے۔ خدا خدا کر کے کینولا لگانے کا مرحلہ بخیر و خوبی انجام پایا اور وہ دو عدد ادویات کی ڈرپیں لگا کر چلتی بنی، اتنے میں وہی فلپائنی نرس آن دھمکی جو ان سب کی سینئر تھی اور احوال پوچھا کہ کینولا کی وجہ سے درد کی شکایت تو نہیں میں نے کمال ضبط سے کہا کہ ہم پاکستانی صرف محبت کرتے ہیں شکایت نہیں کرتے اس نے بھر پور قہقہہ لگایا اور پھر بستر کے ساتھ لگے بٹن کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ پھر بھی اگر کوئی شکایت ہو تو یہ بٹن دبا دینا میں چلی آؤں گی، میں نے بٹن کی طرف دیکھ کر کہا کہ میرا تو ابھی سے دل کر رہا ہے کہ بٹن دبائے رکھوں لیکن اس نے شہادت کی انگلی دائین بائیں ہلاتے مخمور انداز میں کہا نہیں صرف شکایت کی صورت میں۔۔۔۔۔۔ میں سوچنے لگا کہ مجھے اور کیا شکایت ہوگی۔۔۔۔۔۔۔
رات کو لگ بھگ دس بجے ایک نیم جان قسم کی عربی نرس وہئل چئیر لیے کمرے میں آئی ، اگرچہ میں مانتا ہوں کہ ’’ وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ ‘‘ لیکن اسکو دیکھ کر مجھے یقین ہوا کہ کائنات میں بے شمار گوشے ایسے ہیں جو نہایت بے رنگ ہیں ان میں ایک قریہ وہ بھی ہے جہاں اس وقت میں کھڑا تھا، ابھی میں صدمے کی حالت میں تھا کہ اس نے عربی میں کچھ کہا جو میری سمجھ میں مطلق نہیں آیا تو میں نے اس سے التماس کیا کہ کیا ہی خوب ہو جو رات کے اس پہر ہم انگریزی زبان میں گفتگو کریں ، اس نے مضروب قسم کی انگریزی میں مجھے کہا کہ سی ٹی سکین کے لئے جانا ہے آپ اس وہیل چئیر پر تشریف فرما ہو جائیں ، میں نے اس کی جان جس پر گمان تھا کہ کسی بھی وقت جان آفریں کے سپرد ہو سکتی ہے دیکھتے ہوئے عرض کیا کہ نہیں جناب ابھی میں چلنے پھرنے کے قابل ہوں میری جراحت کل ہے لہذا میں پیدل ہی آپ کی معیت میں چلنا پسند کروں گا، اس طرح اس کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتے سی ٹی سکین کی جانب چل پڑے وہئل چئیر ہنوز ہمارے ساتھ تھی،
رات بسر ہوئی ، صبح نو بجے کے لگ بھگ وہی فلپائینی نرس حسب معمول مسکراتے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ سیٹی سکین کی رپورٹس آ گئی ہیں اور کچھ دیر میں جراحت کی واردات ہوگی تیار رہنا، میں نے عرض کیا کہ کیا جراحت کے دوران تم بھی موجود ہو گی کہنے لگی کیوں ِ؟، ، میں نے کہا کچھ نہیں بس سوچ رہا تھا کہ تمہیں مسٹر چپس اور کیتھرین برجز کی کہانی سناؤں گا، اس پر اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ تم پہلے مریض ہو جس کو عین جراحت سے پہلے مزاق کی سوجھی ہے، میں نے کہا ویسے تو مجھے ہمیشہ دور کی سوجھتی ہے۔۔۔۔ خیر ،،،،،،یہاں مزاق ہی سہی۔۔۔۔ اور۔۔۔ اسکو فلسفیانہ انداز میں کہا کہ محترمہ زندگی بذات خود ایک مزاق ہی تو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں سرجن ترکستانی جنہوں نے پہلے بھی جراحتی عمل انجام دیا تھا ایک خاتون سرجن کے ساتھ وارد ہوئے اور تعارف کروایا کہ یہ سرجن ہدیٰ سلمان ہیں ، میں خاتون سرجن کو دیکھ کر کچھ اور ہی سمجھا اور پوچھا کہ کہیں آپ غلط کمرے میں تو نہیں آ گئے کیونکہ ہمارے ہاں تو کوئی غنچہ شوق اب کھلنے سے رہا، اس پر سرجن ترکستانی نے کہا نہیں میں جراحت شروع کروں گا اور سرجن ہدیٰ اس کو ختم کریں گی تب ہی تین معاون نرسیں آئیں مجھے بستر سے اترنے کا کہا اور ایک پلاسٹک کی چادر بچھا کر پھر مجھے لیٹنے کا اشارہ کیا اور اور پھر عمل جراحت مکمل کرنے کے بعد جگر میں لگ بھگ ایک چھ انچ لمبی سوئی داخل کر کے اس کے ساتھ ایک نالی اور تھیلی منسلک کی اور زخم کا منہ ایسے ہی بند کر دیا جیسے ہمارے ہاں کسی ضرورت مند کا منہ بند کیا جاتا ہے۔ یہ نالی اور تھیلی اب مزید بہتر گھنٹوں تک جگر سے بذریعہ سوئی منسلک رہنی تھی جو اس ساری روداد کا سب سے زیادہ کرب ناک اور تکلیف دہ مرحلہ تھا۔۔۔۔۔۔ اب سرجن ترکستانی نے جو اعلان کیا وہ سن کر ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ، موصوف کہنے لگے کہ ہمارا شک غلط نکلا ہے الٹرا ساؤنڈ رپورٹوں میں جو مائع نظر آ رہا تھا وہ پیپ نہیں ہے بلکہ خون رس رہا ہےجو اگر نہ بھی نکالا جاتا تو تین سے چار مہینے میں ادویات سے ٹھیک ہو جاتا، اس پر اس نے سوالیہ انداز میں مجھے پوچھا تمہیں پتہ ہے یہ خون کیوں نکلا، میں نے دل میں غالب سے معذرت کر کے کہا ’’ جب ’’جگر‘‘ سے ہی نہ ٹپکا پھر لہو کیا ہے‘‘ اور جواب دیا کہ جناب مجھے کیا پتہ سرجن آپ ہیں میں تو نہیں،تو ا س پر حضرت کہنے لگے کہ گذشتہ جراحت کی وجہ سے جگر پر ’’ہیما ٹوما‘‘ ہو گیا تھا اب میری جانے بلا کہ یہ ہیما ٹوما کیا ہے خیر اس پر میں نے عرض کی کہ اگر یہ خون تھا تو اب یہ نلکی اور تھیلی کا عذاب دینے کی کیا ضرورت ہے اس پر جناب نے کہا کہ نہیں اب خون نکل رہا ہے تو اس کو نکلنے دو اور پھر ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
اگلی صبح وہی فلپائنی نرس حسب معمول مسکراتے ہوئے کمرے میں آئی اور ہاتھ نچاتے ہوئے انگریزی میں پوچھا ’’ ہاؤ از لیور‘‘ شدت سے دل چاہا کہ کاش یہ اردو زبان سے آشنا ہوتی اور پھر ’’ ہاؤ از لیور ‘‘ کی بجائے پوچھتی کہ ’’ جگر۔۔۔۔ کیسا ہے‘‘چند گھنٹوں کے بعد میرے معالج نرسنگ سٹیشن کی مینجر کے ساتھ وارد ہوئے احوال کا پوچھا تو میں نےشدید تکلیف کی شکایت کی جس پر انہوں نے ساتھ آنے والی محترمہ سے کوئی مشکل سا نام لیکر کہا کہ انکو وہ انجیکشن دیں اور مجھے کہنے لگے کہ یہ سب سے تگڑا درد کش انجیکشن ہے اور اس سے نشہ سا بھی طاری ہو گا بلکل ہیروئن کا لطف ملے گا ، اس انجیکشن کے بعد واقعی تکلیف رفع ہوئی نشہ بھی خوب رہا لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ کسی ہیروئن کا لطف ندارد۔۔۔۔۔
نصف شب کے قریب نرس آئی فشار خون دیکھا نبض اور شوگر دیکھی اور پھر اس تھیلی کو دیکھنے لگی جو جگر سے منسلک تھی اور گویا ہوئی کہ خون کا اخراج بند ہو چکا، تو میں نے اتنا ہی کہا کہ،،،،،،،،،،،،،، کریدتے ہو اب راکھ جستجو کیا ہے،،،،،،،،،،،،،، دو دن تک یہی معمول رہا حتیٰ کہ رات کو بھی ہر دو گھنٹے بعد یہی معاملہ دہرایا جاتا اس سے جہاں ایک طرف اہل ہسپتال کا خلوص اور سنجیدگی نظر آئی وہیں مجھ سا صوم و صلوٰہ کا پابند مسلمان اس ’’ کار مسیحائی‘‘ سے اکتا گیا۔
اگلے چوبیس گھنٹو ں میں گاہے بگاہے زخم کا معائنہ اور منسلک تھیلی کا جائزہ لیا جاتا رہا، دوبارہ الٹرا ساؤنڈ کیا گیا اور پھر معالج نے آ کر خبر سنائی کہ چونکہ اب خون کا اخراج مکمل تھم چکا لہذا س نلکی اور تھیلی کی مزید ضرورت نہیں سرجن ہدیٰ سلمان کچھ دیر میں آ کر اس عذاب سے نجات دلائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر میں سرجن ہدیٰ تشریف لائیں زخم کا معائنہ کیا اور ٹانکے کھولے ساتھ ہی سوئی کو باہر کہ کھنچا ادھر سوئی نکل رہی تھی ادھر درد کے مارے میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی، سوئی کی حرکت باقاعدہ مجھے جگر میں محسوس ہوئی اور ایسا لگا جیسے کسی گہرے نیم بھر ے زخم کو پھر سے کرید دیا گیا ہو ، خدا خدا کر کے سوئی نکل چکی جگر میں درد نے شدت اختیار کی پہلو میں وحشت مچلی اور میں نےسرجن ہدیٰ سلمان کے مسکراتے چہرے کی طرف دیکھا اورزیر لب کہا:
گل برگ تر سمجھ کر لگا بیٹھی ایک چونچ
’’بلبل‘‘ ہمارے زخم جگر کے کھرنڈ پر



 

Rashid Mehmood
About the Author: Rashid Mehmood Read More Articles by Rashid Mehmood: 20 Articles with 29175 views I am a qualified CPA and professional Financial and Audit Manager with over 12 years of experience in a variety of industries in key roles at national.. View More