کمیشن پہ کمیشن مگر سزا کسی کو نہیں پاکستان کی 73 سالہ
تاریخ سینکڑوں انکوائری کمیشنوں سے بھری پڑی ہے اور ان میں سے اکثر کمیشن
ہمیں یاد بھی نہیں ہیں صرف اس حد تک ہمیں معلوم ہے کہ یہ انکوائری کمیشن
بھی کبھی بنے تھے ان میں سے صرف چند ایک جو کبھی مشہور ہوئے تھے انکے نام
درج کیے دیتا ہوں ایبٹ آباد کمیشن،بینظیر بھٹو قتل کیس کمیشن،حمود الرحمن
کمیشن ،اسامہ بن لادن کے قتل پر کمیشن ،میجر کلیم کیس کمیشن،مہران گیٹ
کمیشن،2011نیٹو حملہ پاکستان کمیشن،2012پاکستان میں جعلی ادویات پر کمیشن
،پرماننٹ انڈس کمیشن،پنجاب ڈسٹربنس آف انکوائری کمیشن،سلیم شہزاد کمیشن،سیف
الرحمن کمیشن سمیت ہماری تاریخ ایسے کمیشنوں اور انکوائریوں سے بھری پڑی ہے
ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے ملک توڑا ،ملک کی بنیادیں کھوکھلی کی ،عوام
کو غربت کی دلدل میں رگڑا دیکر انکے خون سے نہایا اور اپنے محلات کی
بنیادوں سے لیکر آخری اینٹ تک چوری اور ڈاکے سے لوٹا ہوا مال ہی لگایا اگر
ان کمیشنوں میں سے کسی ایک ملزم کو ہی سزا مل جاتی تو آج ہم بھی دنیا کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کررہے ہوتے سو روپے کی خیرات پر ہم اپنے ضمیر
کے قیدی نہ بنتے اور نہ ہی لائنوں میں لگ کر خیرات کے لیے جھولی پھیلارہے
ہوتے مگر ایسا نہ ہوسکا کیونکہ عوامی دباؤ پر تو اعلیٰ سطح کے کمیشن بنا
دئیے جاتے ہیں اور کروڑوں روپے بھی خرچ کئے جاتے ہیں مگر پبلک کرنے کے
بجائے انھیں سرد خانے میں ڈال دیا جاتا ہے کیونکہ ایسے فن میں ہماری کوئی
مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ایسے انکوائری کمیشنوں کی
تعداد بہت کم تھی، لیکن اب تو یوں لگتا ہے جیسے ہر بڑے المیے اور اہم مسئلے
کا حل ہی ایک انکوائری کمیشن کی تشکیل میں پوشیدہ ہے یہ کمیشن بڑے بڑے
سانحات پر بھی بنے اور تبدیلی کے خواہشمند حکمرانوں نے ریفامز لانے کے لیے
بھی بنائے۔لیکن ان تمام کمیشنوں کی رپورٹوں کا مقدر الماریوں کی زینت ہی ہے
کچھ کھلی الماریوں میں پڑی رہتی ہیں اور پھر ایک دن انہیں گرد آلود فائلوں
پر کسی رپورٹر کی نظر پڑتی ہے تو وہ اسے شائع کر دیتا ہے کچھ دن ان پر بھی
تبصرے چلتے رہتے ہیں اور پھر مستقل خاموشی چھا جاتی ہے قیام پاکستان کے بعد
بننے والے ان انکوائری کمیشنوں کی رپورٹوں کو اگر ایک دفعہ بھی سنجیدگی سے
پڑھ کراس پر قانونی ایکشن لیا جاتا تو اس ملک کو ایک بہتر راستے پر ڈالنے
کے لیے مزید کسی رہنمائی کی ضرورت باقی نہ رہتی اور پاکستانی قوم کو دنیا
کی بہترین قوم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں
انتہائی محنت اور جانفشانی سے رپورٹیں نہ مرتب کی گئی ہوں کمیشنوں کی یہ
رپورٹیں اگر منظر عام پر آ بھی جائیں تو ہمارے حکمران اس قدر بے حس واقع
ہوئے ہیں کہ نہ تو انہوں نے کبھی ان کے مندرجات پر غور کیا ہے، نہ ہی اس سے
کچھ سبق سیکھا ہے اور نہ ہی ان کے بتائے گئے خطرات سے بچنے کے لیے کوئی
تدبیر کی گئی ہیں پاکستان کے ہر شعبہ بشمول عدلیہ، انتظامیہ، پولیس، صحت،
تعلیم، زراعت غرض کونسا شعبہ ایسا ہے جس کے بارے میں کروڑوں روپے خرچ کرکے
اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن نہ بنائے گئے ہوں، لیکن پاکستان میں چور اور
کرپٹ مافیا اتنا مضبوط ہے کہ ایسے انکوائری رپورٹس سردخانے کی نذر ہوجاتے
ہیں۔انکوائری کمیشن کی اس تاریخ میں حالیہ تازہ ترین انکوائری کمیشن آٹا،
چینی اور پاور سیکٹر پر بنائی گئیں جن کی رپورٹس میڈیا پر گردش کررہی ہیں
اور وزیراعظم عمران خان نے اپنے آس پاس بڑے بڑے مافیا کی موجودگی کے باوجود
وفاقی کابینہ سے منظور کراکر پبلک کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے اوریہی
فیصلے پی ٹی آئی کی بقا کے لئے ضروری ہیں پی ٹی آئی ورکرز بلکہ پوری
پاکستانی قوم کی یہی خواہش ہے کہ قوم کو سچ بولا جائے اور ان چوروں، لٹیروں
اور مفاد پرست ٹولے سے نجات حاصل کی جائے ان انکوائری رپورٹس کو صرف پبلک
کرنے نہیں ان پر فوری اور سخت ایکشن لینے کی بھی ضرورت ہے اور جو جو بھی اس
میں ملوث ہیں ان کو نشان عبرت بنایا جائے وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم
کے لئے ایک بڑا امتحان ہے یہی موقع ہے عمران خان کے پاس کہ وہ ملکی خزانہ
لوٹنے والوں کو نشان عبرت بنا کر نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دیں اگر ایسا نہ
ہوا تو جیسے پہلے والے حکمران عوام کو لولی پاپ دیتے آئے ہیں ویسے ہی یہ
تبدیلی کے نام پر عوام کو بیوقوف بنا کرتاج حکمرانی اپنے سر پر سجانے آئے
تھے آخر میں واپڈا کے ایک مزدور رہنما جناب ساجد کاظمی کا وٹس ایپ پر موصول
ہونے والا پیغام وزیرِاعظم کی اطلاع کے لیئے عرض کرتا چلوں کہ سابقہ دورِ
حکومت میں پی اے سی کمیٹی اسلام آباد نے پوائنٹ لیا تھا کہ لیسکو میں چالیس
ارب روپے کا فراڈ کیا گیا ہے قائدِ مزدور خورشیداحمد کی قیادت میں ہائیڈرو
یونین نے ہر فورم پر لائیو ٹی وی چینلز پر سڑکوں اور چوکوں پر وقت کے منصفِ
اعلیٰ اور سپہ سالارِ پاکستان کو مخاطب کر کر کے چیخ و پکار کی مگر آج تک
کوئی انکوائری سامنے نہیں آئی چلیں وقت گذر گیا آپکو احساس ہو گیا آپکو
اطلاع مل گئی کہ ڈاکووں ،چوروں اور لٹیروں نے اس پیداواری منافع بخش ادارے
کو بے دردی سے لوٹا پروکیورمنٹ میں تو حد کر دی گئی جہاں کوئی چیک اینڈ
بیلنس ہی نہیں ہے آپی پیز اور دوسرے بین الاقوامی معاہدوں میں اپنی حرام
خوریاں چھپانے کے لیے کبھی نجکاری کے ڈرامے کیے گئے توکبھی لوڈ شیڈنگ کے
اوراس سارے عمل میں معصوم سادہ لوح پاکستانی پستے رہے۔سابقہ ادوار میں
محکمے کی بہتری کے لیئے کوئی پلاننگ یا پالیسی بھی منظر پر نہیں آئی ہاں
البتہ اپنی نااہلی اور فراڈ چھپانے کے لیئے انہوں نے جو منفی ، اوچھے غیر
جمہوری اورغیر اخلاقی ہتھکنڈے ضرور استعمال کیے وہ روزِ روشن کیطرح عیاں
ہیں۔ بھائی جی سارے پاور سیکٹر کے سارے لائن مین، ریڈنگ سٹاف اور بی ڈی
سٹاف غرض کہ ہر کیٹگری کے آفیشلز مل کر دس سال میں چار ارب کا گھپلا نہیں
کر سکتے اور آج تک محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیئے کو ئی جامع پالیسی
نہیں بنائی گئی کیونکہ جن لوگوں نے پالیسیاں بنانی ہوتی ہیں انھیں لوٹ مار
سے فرصت نہیں جبکہ ہمیشہ چور آپریشنل آفیسرز اور آفیشلز کوہی گردانہ گیا جو
دن رات، بارش،آندھی طوفان ، گرمی سردی میں بجلی کی ترسیل کا بوسیدہ نظام
سنبھالے ہوئے ہیں کبھی اپنی قیمتی جان دیکر، کبھی جھلس کر، کبھی جسمانی
اعضاّ کٹوا کر معذوری لیکر جبکہ ان جانبازوں کے لیئے ویلفیئر کی کوئی
پلاننگ نہیں حالانکہ آجکے جدید دور میں اگر کسی مزدور کا کوئی جسمانی عضو
کٹ جائے تو مصنوئی اعضا لگ جاتے ہیں کہ بندے کی معذوری کسی حد تک کم ہو
سکتی ہے مگر آج تک کسی کو مصنوعی اعضا محض فنڈز کی عدم دستیابی کیوجہ سے
نہیں لگوا کر دیا گیا۔کوئی مالکانہ حقوق پر ہاوسنگ سکیم نہیں،بنیادی حق
بچوں کی تعلیم کے لیے کالج اور یونیورسٹی کوئی نہیں،حادثات سے بچنے کے لیئے
مستقل بنیادوں پر معیاری ٹی اینڈ پی نہیں خریدی جاتی ڈنگ ٹپاو پالیسی
اختیار کر رکھی ہے طرہ یہ کہ موجودہ کرونا وائرس سے بچنے کے لیئے آپریشنل
آفیسرز کو کہہ دیا گیا ہے کہ اپنے وسائل میں سے ماسک، گلوز اور سینیٹائزرز
خریدیں حالانکہ فیلڈ سٹاف کے لیئے ڈانگڈی کا ہونا اشد ضروری ہے۔ سب سے اہم
بلکہ اہم ترین بات کہ کام کے دوران جان لیوا حادثے کی صورت میں مرنے والے
کے آئینی طور پر یا حکومتی سطح پر شہید کا درجہ نہیں دیا گیا ویسے اتھارٹی
کہتی ہے کہ ''لائن مین ریڑھ کی ھڈی ہے''اسی بے انصافی کا شکار ریڈنگ سٹاف
ہے کہ اسے بھرتی تو بطورِ میٹر ریڈر کیا جاتا ہے مگر کام اس سے تین چار
نوعیتوں کے لیے جا رہے ہیں اور جب سابقہ ادوار میں ملازمین یا محنت کشوں کے
حقوق یعنی تنخواہ اور الاونسسز کی بات ہوئی تو انکی اکانومی کمزور ہو جاتی
تھی اور مہنگائی کا تناسب پس پشت ڈال کر کبھی سات فیصد سے زیادہ تنخواہ
نہیں بڑھائی گئی اور موجودہ حکومت نے پاس شدہ الاوْنسسز فنڈز کی کمی کا
بہنانہ بنا روک رکھے ہیں پوسٹ اپ گریڈیشن کے بنیادی حقوق بھی اسی فارمولے
کا شکار ہیں فیلڈ سٹاف میں ایک اور اہم کیڈر بل ڈسٹری بیوٹرز کا ہے یہ کیڈر
بھی لائن سٹاف اور ریڈنگ سٹاف کیطرح اربابِ اختیار کی بے انصافی کا شکار ہے
الغرض فیلڈ سٹاف کو انگریز دور کے ظلم و زیادتی، جبرواستبداد کے طرزِ حکومت
کیطرح دباو میں رکھ کر کام لیا جارہا ہے آخر میں وزیر اعظم جناب عمران خان
صاحب سے گذارش ہے کہ اس وقت تمام سرکاری ملازم آپ سے انصاف کی توقع کر رہے
ہیں کیونکہ آپ انصاف کے چیئرمین ہیں۔
|