آج بہت عرصے بعد لکھنے کے لیے قلم اٹھایا ہے اس لیے سمجھ
نہیں آرہا کہ کہاں سے شروع کیا جائے لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر کس بات سے
شر وعات کی جائے یہ فیصلہ مشکل ہے ، پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ
کورونا ہے یہ یا کورونا پہ سیاست ہے ؟ پاکستان میں اس وقت موت کے کنویں کے
سامنے کھڑے ہو کر بات بے بات سیاست کی جا رہی ہے اور اس سیاست کی زد میں
سراسر ہماری وہ عوام ہے جسے کورونا کا نہیں بلکہ بھوک سے مر جانے کا خوف ہے
وہ طبقہ جو اس وقت کورونا کے ڈر سے گھروں میں قرنطینہ نہیں ہیں بلکہ بغیر
کسی احتیاتی تدابیر کے گھر سے باہر سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں کبھی رینجرز کے
ڈنڈے کھاتے ہیں کبھی پولیس پکڑ کر مرغا بنا دیتی ہے مگر اس سوالی کو کوئی
آدھی روٹی نہیں دیتا ، حکمران نیوز چینلز پے بیٹھ کر یہ تو کہ رہے ہیں کہ
اپیل ہے آپ سے گھروں سے باہر نا نکلو لیکن اللہ کے بندوں ان سے تو پوچھو کے
کیوں موت کے منہ میں چلے آرہے ہو ؟ کیا کرے وہ پاپڑ والا غبارے والا جھاڑن
والا جس نے ذخیرہ نہیں کیا ہوا گھر میں جس کے بچے بھوکے ہیں جس کے گھر میں
بھوک کے باعث فساد ہو رہے ہیں کیا وہ آدمی کورونا کے خوف سے گھر پہ بیٹھے
گا ؟ اور خاص طور پہ وہ طبقہ جو اس وبا اور لاک ڈاؤن سے پہلے اچھی خاصی
زندگی بصر کر رہا تھا جنکے گھر میں ہر دوسرے روز کڑھائی گوشت پکتا تھا اور
وہ بمعہ اہل و عیال گھومنے پھرنے جایا کرتے تھے مگر اب کسی کو فیکٹری
مالکان نے ڈاؤن سایزنگ میں نکال دیا یا اس کے آفس والوں نے تنخواہ دینے سے
منع کردیا وہ کہان جائے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے یا در در ہاتھ پھیلائے
؟ غریب کو دوکان کھولنے کی اجازت نہیں لیکن اچھے خاصے صاحب حیثیت لوگوں کو
رمضان ٹرانسمیشن کے نام پہ گیم شوز کے نام پہ اپنی دوکان سجانے کی مکمل
اجازت ہے ۔۔ کیا یہ انصاف ہے ؟ ہمارے سیاست دانوں کو جب ووٹ درکار ہوتے ہیں
تب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس گھر میں کتنے افراد رہائش پزیر ہیں کون کیا
کرتا ہے کسے کیا چاہیے مگر اب جب راشن تقسیم کا معاملہ ہے تو وہ ڈیٹا ہی
جمع ہو کر نہیں دے رہا جس کے تحت حق حقدار تک پہنچے ۔۔۔
اس نازک صورتحال میں بھی سیاستدان اپنے پسندیدہ مشغلے میں مصروف ہیں انہیں
ہر حال میں خود کو ہیرو اور سامنے والے کو زیرو دکھانا ہے اپنے قصیدے پڑھ
کہ مخالف پر طنز کے تیر برسا کر اپنا فرض پورا کر کے چلتے بنتے ہیں کیا یہی
ذمہ داری نبھانے عوام کے ووٹ لیے تھے کہ وقت آنے پہ معلوم ہی نہ ہو کہ
حکومتی امداد کا صحیح حقدار کون ہے اور کون نہیں ؟ خیر سے یہ تو وہ حکومت
ہے جس کے رہنما بینظیر انکم سپورٹ کے ایک ہزار ہر مہینے بقائدگی سے لیتے
ہیں یہ کیا جانیں گے کہ انکا کونسا ووٹر اس وقت کتنے دن سے بھوکا ہے وہ
کورونا سے مر رہا ہے یا بھوک سے ، یہ وہی لوگ ہیں جنہیں ووٹ چاہیے ہوتا ہے
تو قبر سے بھی ووٹر کو نکال لاتے ہیں اور جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو زندہ
کو بھی قبر میں اتار دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی ہی ایک تحریر میں میرے الفاظ حکومت کی حمایت میں تھے کو تھوڑا صبر اور
حکومت ابھی نئی ہے لیکن اب میں تحریر کو ان لفظوں پہ ختم کرونگی کہ خدارا
اس قوم کہ مزید صبر کا امتحان نہ لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|