آر ایس ایس اور مسلم تنظیموں کا تاریخی پس منظر قسط (1)

آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ہندوستانی عوام کو تعلیمی، معاشی،اقتصادی اور سماجی خستہ حالی سے رستگاری دلانے کے لیے کئی تنظیمیں وجود میں آئیں،بلکہ برطانوی سامراجی دور سے ہی ہندو اور مسلم رہنماؤں نے اپنے عوام کی نمائندگی اور ان کی فکری،معاشی،اقتصادی،علمی اور سماجی پس ماندگیوں کو دور کرنے کے لیے کئی ملی،فلاحی،مذہبی اور سیاسی تنظیموں کی بنیاد رکھیں اور ہنوز وہ سلسلہ جاری ہے۔ ملک میں اس وقت اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے نام پربہت سے تنظیم اور ادارے کام کررہے ہیں، جن کی صحیح گنتی، تو شاید حکومتی رکارڈ میں بھی نہ ہو، لیکن ان میں سے بعض وہ تنظیمیں جو ملک اور مسلمانوں میں اپنی کسی نہ کسی کارکردگی کی وجہ سے سرخیوں میں رہی ہیں؛ ان میں جمعیۃ علمائے ہند(1919) آل انڈیا مسلم پرسنل لابوڈ(1973)جماعتِ اسلامی ہند (1948) امارتِ شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (1921)مرکزی جمعیت اہلِ حدیث (1906)مجلسِ احرارِ اسلام ہند (1929)آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت (1964)کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ (1920) رضا اکیڈمی ممبئی (1978)آل انڈیا سنی کانفرنس (1925)مرکز المعارف (1983)اسلامک ریسرچ اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (1998)اسلامک ویلفیئر سوسائیٹی (1996)منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا(1981) نیشنل ڈیویلپمینٹ فرنٹ (1993)اورنیو ایج اسلام (2008)قابل ذکر ہیں۔ ساتھ ہی برادران وطن نے بھی کئی مذہبی اور سماجی تنظیموں کی بنیاد رکھی،جن میں آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کا نام سب سے اونچا ہے۔ مسلمانوں کی نمایندہ تنظیموں کے حوالے سے یہ سوالات بہت اہم ہیں کہ گذرتے ایام کے ساتھ ہندوستان کے سیاسی مستقبل میں ان کے اقدامات عام لوگ خصوصاً مسلمانوں کے حق میں کتنے با اثر ثابت ہوئے اور ان سے ان کے کتنے مسائل کا حل ممکن ہوا؟ نیز آزادی کے بعد جو تنظیمیں اپنی شاندار کار کردگیوں اور مناسبِ حال پیش رفتوں کی بنیاد پر ملک کی سیاست میں اپنی علمی،سیاسی،معاشرتی اور معاشی برتری درج کرانے میں کامیاب رہیں اور جو تنظیمیں روز اول سے ہی سماجی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہیں اور آزادی کے ستر سال بعد ہنوز وہ انہی عوامی مسائل کے حل کے لیے کوشاں نظر آرہی ہیں،ان کی اس طویل کوشش کے باوجود ناکامی،بلکہ مسلم عوام کے سیاسی، سماجی،تعلیمی،معاشی اور اقتصادی زوال وپستی کے کیا اسباب ہیں ؟ اور آج کیوں ملک کی سرزمین ان کے لیے تنگ ہوتی نظر آرہی ہے؟ حالانکہ آرایس ایس اورسرکردہ مسلم تنظیمیں تقریباً ایک دوسرے کی ہم عصرہیں، پھر بھی ان کی خدمات، سرگرمیوں اور عمل درآمدگی میں اتنا زیادہ تفاوت کیسے ہے؟ ذیل کے صفحات میں ہم نے انہی مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل ان تنظیموں کا کچھ تعارفی خاکہ پیش کردینامناسب ہے تاکہ ان کی خدمات اور سرگرمیاں سامنے آجائیں اور آیندہ ان کے احوال و مسائل کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہو۔

جن اداروں کے تعارف یا ان کی خدمات پر روشنی ڈالی جارہی ہے،ان سے متعلق زیادہ تر معلومات انہی کی ویب سائٹس اور ان کے نمایندوں کے ذریعے مہیا کی گئی عبارتوں پر مبنی ہیں، تاکہ اپنی تحریر میں ان میں سے کسی بھی ایک تنظیم کو بہتر یا برتر قراردینے یا ان کی تحقیر و تذلیل کے الزام سے بچ سکوں،البتہ جس تنظیم کے بارے میں جتنی معلومات فراہم ہوسکیں،انہی پر اکتفا کیا گیاہے۔

جمعیۃ علمائے ہند:
یہ ہندوستانی مسلمانوں کی معروف ومشہورتحریکی،رفاہی اور مذہبی تنظیموں میں سے ایک ہے۔ نومبر 1919ء میں خلافت کانفرنس کے موقع پر انقلابی علمائے کرام نے ’’جمعیۃ علمائے ہند‘‘ کے نام سے باضابطہ دستوری جماعت کی تشکیل کی، جس کے پہلے صدر مفتی اعظم مولانا محمد کفایت اللہ (م1952ء)منتخب ہوئے۔ اس تنظیم کا قیام علمائے کرام کی انقلابی تحریک کا فیصلہ کن موڑ تھا۔ مسلح انقلاب کی راہ ترک کرکے عدم تشدد اور اہنسا کا راستہ اختیار کیا گیا اوربلاشبہ تحریکِ آزادی کے تمام محاذوںپرجمعیۃعلمائے ہندنے قومیت،حبِ وطنی،اخوت وبھائی چارہ اور اتحادواتفاق کا عَلَم مضبوطی سے تھامے رکھااور ملک کا وقار بحال کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا۔ یہ اسی کے حریت پسندوں کی حق گوئی وبے باکی تھی کہ تحریک آزادی کی کوششوں میں اس کے ہر نمائندے کو مہینوں انگریزی جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ بالآخرانہی مجاہدین ملت کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں 15اگست 1947ء کو رات کے تقریباً بارہ بج کر دو منٹ پرملک کی آزادی کا اعلان ہوا، لیکن اس وقت تک برطانوی شاطر حکمراں اپنی پھوٹ ڈالنے والی سیاست میں کامیاب ہوچکے تھے۔ اس مبارک گھڑی میں ہندو مسلم اتحاد کی وہ عمارت جس کی تعمیر میں جمعیۃ علمائے ہندکے اکابر کی مساعی جمیلہ شامل تھیں وہ لرزہ براندام ہوگئیں۔ نفرت کی آندھی میں صدیوں کے پروردہ رشتے کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹ گئے۔ تقریباً اٹھائیس برس میں فرقہ وارانہ یگانگت و مفاہمت اور ملکی اتحاد کا جو سرسبز درخت کھڑا ہوا تھا اس کی جڑیں ہل گئیں۔ اس وقت شمالی ہند کے مسلمانوں کے سامنے کربلا جیسے مناظر تھے،اس بھیانک تاریکی میں جمعیۃ علمائےہندکے مجاہدین آزادی نے امید کا چراغ روشن کیا۔ لڑکھڑاتے قدموں کو سہارا دیا، حوصلوں کو بحال کیا اور اس طرح آزادی کے بعد جمعیۃ علمائےہندکی جماعتی تاریخ کا دوسرا باب شروع ہوا۔

جنگ آزادی کے بعد1948ء میں جمعیۃ علمائے ہند نے فیصلہ کرلیا کہ وہ باضابطہ سرگرم سیاست میں حصہ نہیں لے گی اور صرف دینی اوررفاہی خدمات تک خود کو محدودرکھے گی،چونکہ آزادی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ حوصلہ کھو چکی ملت اسلامیہ کا اعتماد بحال کرنا اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کرنا تھا کہ ہندستان ان کا ملک ہے اور وہ یہاں کے حقیقی باشندے ہیں۔اس درمیان کسٹوڈین کے مظالم اور فرقہ پرستوں کے ذریعے پے درپے فرقہ وارانہ فسادات بھی جمعیۃ کے سامنے ایک چیلنج بن کر آئے،لیکن اکابرین جمعیۃ نے تعمیر ملت کے ساتھ ساتھ ان طاقتوں کا بھی جم کر مقابلہ کیا، ساتھ ہی شریعت اسلامیہ اور مساجد ومقابر کے تحفظ کے لیے بھی جد وجہد کرتی رہی۔ آزادی کے بعد مسلم پرسنل لا کا تحفظ ایک اہم مسئلہ تھا، اس پربھی جمعیۃ علمائے ہند نے بڑی بڑی تحریکیں چلائیں اور تحفظ شریعت کانفرنس اور اوقاف کانفرنس منعقد کرکے عوامی شعور کو بیدارکیا۔
جمعیۃ علمائے ہند کی دس بڑی خدمات :
(1) فرقہ پرستوں سے مقابلہ اور فرقہ وارانہ فساد متاثرین کی بازآبادکاری:
فرقہ پرستی کا طوفان جو تقسیم وطن کے زمانے میں شروع ہو ا تھا، وہ جمعیۃ علما کی کوششوں سے کچھ حد تک رک گیا تھا،لیکن 1961ء میں جبل پور کے بھیانک فرقہ وارانہ فساد نے اس افسوسناک باب کا دروازہ پھرسےکھول دیا۔ اس فساد میں مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ جمعیۃ علمائےہند کے اکابر نے نہ صرف وہاں لوگوں کی امداد کی بلکہ عین فساد کے موقع پر جبل پور پہنچ کر فساد روکوانے اور مسلمانوں کی عزت وآبرو کی حفاظت کی نادر مثال قائم کی۔ جبل پور کے بعد فساد کا سلسلہ جاری ہو گیا، تو جمعیۃ علمائے ہند اپنی روایت کے مطابق ہمیشہ پہلے پہنچ کر خدمت خلق کا فریضہ انجام دیتی رہی؛ خاص طور سے1969ء کا گجرات فساد، 1979ء کا جمشید پور فساد، مرادآباد فساد (1980ء)، میرٹھ فساد (1982ء) نیلی آسام فساد (1983ء) بھیونڈی فساد (1984ء)، میرٹھ ہاشم پورہ قتل عام (1987ء) بھاگلپور فساد (1989ء) حیدرآباد (1990ء) ممبئی فساد (1993ء) اور گجرات قتل عام (2002ء)، آسام فساد (2012ء) مظفر نگر فساد (2013ء) یہ انتہائی بھیانک قسم کے فسادات ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مولانا اسعد مدنیؒ سے لے کر آج تک سبھی سربراہان جمعیت فساد کے موقع پر متاثرہ علاقوں میں گئے اور فساد متاثرین کی دادرسی کی۔ ان تمام جگہوں پر جمعیۃ علمائےہند نے بازآبادکاری کا عمل بھی بخوبی انجام دیا، فسادیو ں کے خلاف عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کی اورآج بھی ایسے بہت سارے مقدمات جمعیۃ علمائے ہند لڑرہی ہے۔ اس کے علاوہ برادران وطن کی اکثریت کے ساتھ مل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا قیام بھی جمعیۃ علمائے ہند کی تاریخ کا سب سے اہم باب ہے۔ حال میں جمعیۃ علمائے ہند کےبینر تلے دہلی میں امن وایکتا سمیلن منعقد ہوا، جس میں دیوبند سے لے کر رشی کیش کے تمام مذاہب کےنمایندوں نے شرکت کی اور مشترکہ طور سے اعلامیہ کی تائید میں ہاتھ اٹھا کر فرقہ پرستی کے خلاف گھر گھر پیغام محبت پہنچانے کا عہد کیا۔
(2) قدرتی آفات میں متاثرین کی خدمات :
سیلاب زدوں اورزلزلہ متاثرین کے لیے جمعیۃ علمائےہند کی خدمات غیر معمولی ہیں۔ جہاں پر بھی ایسا کوئی حادثہ ہوتاہے،تو جمعیۃ علمائے ہند بلا تفریق مذہب لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ ماضی میں بہار سیلاب، ممبئی سیلاب ، آسام، کشمیر او رچنئی سیلاب اور حال میںکیرل سیلاب متاثرین کے لیے جمعیۃ علمائے ہند نے بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ کشمیر میں تقریباً 763 مکانات تعمیر کرکے متاثرین کے حوالے کیاگیا۔ اسی طرح چنئی میں جمعیۃ علمائے ہندکی طرف سے 100 مکانات بنا کر لوگوں میں تقسیم کیے گئے۔ فی الحال بہار سیلاب متاثرین کے لیے بڑا کام ہو رہا ہے۔
(3) مسلمانان آسام کے لیے جد وجہد :
تقسیم وطن کے بعدآسام کے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر وطن سے بے وطن کرنے،جائیدادوں او راملا ک سے محروم کرنے کی سازش رچی گئی۔ جمعیۃ علمائے ہند کے سابق صدر مولانا اسعدمدنی ؒ نے ان تباہ حال غریب آسامیوں کے لیے پوری زندگی وقف کردی اورانھوں نے اس ظلم پر سخت اعتراض ظاہر کیا۔ اس سلسلے میں جمعیۃ علمائے ہند نے28ستمبر 1979ء کو ملک بھر میں یوم آسام منانے کی اپیل جاری کی اور آسام کی دوتنظیموں: جن سنگرام پریشد اور چھاتر سنگھ کامقابلہ کرتے ہوئے حکومت سے جائز شہریو ں کے لیے نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن جاری کرائے گئے اور اس کی کاپیاں جمعیۃ علمائے آسام کے ضلعی دفاتر میں رکھوائی گئیں۔اس کے بعد جمعیۃ علمائے ہند نے ذیلی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹ تک،گلی سے لے کر پارلیمنٹ تک اس معاملہ کو اٹھایا اور آج بھی وہ اس سلسلے میں جد وجہد کررہی ہے۔حال میں جمعیۃ علمائے ہند آسام سے متعلق دو اہم مقدمات سپریم کورٹ میں لڑرہی ہے۔
(4) فتنۂ ارتداد کے خلاف جد وجہد :
آزادی کے بعد فتنۂ ارتداد نے سرا ٹھایا۔پنجاب،ہماچل، گجرات اور راجستھان وغیرہ میں دین سے دوری کی وجہ سے مسلمانوں اور غیر وں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ساتھ ہی جہالت کی وجہ سے بھی لوگ مرتد ہورہے تھے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جمعیۃ علمائے ہند نے تنظیم اصلاح المسلمین قائم کی ۔ مولانا اسعدمدنی ؒ نے راجستھان کے بیاور میں ارتداد کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور تمام دور افتادہ گاؤں اور دیہاتوں میں دینی مکاتب قائم کیے اور علما کو تقرر کرکے بھیجا۔اس سے یہ فتنہ کسی طرح تھما۔اس وقت جمعیۃ علمائے ہند کی کوشش سے اس کے ذمہ داران دس ہزار سے زائد مکاتب چلارہے ہیں۔
(5) تحفظِ شریعت :
آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد جمعیۃ علمائے ہند نے تحفظ شریعت کے لیے جو مسلسل جدوجہد کی تھی، اس کایہ شیریں ثمرہ ہے کہ آزاد ہندوستان کا جب نیا دستور بننے لگا تو اس کے تیسرے باب میں جو بنیادی حقوق سے متعلق ہے، جمعیۃ علمائے ہند کی ان باتوں او رمطالبات کو شامل کیا گیا، لیکن اس کے باوجود مختلف حوالوں سے خاص طور سے دفعہ ۴۴ کا بہانہ بنا کر مسلسل مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی کوشش کی گئی اور جب بھی ایسا ہو ا، توجمعیۃ علمائے ہند نے کھل کر اس کی مخالفت کی۔ 1966ء میں یکساں سول کوٹ کا معاملہ،1972ء میں متبنی بل، 1979ء میں ایک پرائیویٹ ممبر بل کے ذریعے تعددازدواج پر پابندی، 1983ء میں شہناز شیخ پٹیشن جس میں سپریم کورٹ میں درخواست دی گئی کہ مسلمانو ں کے لیے یکساں سول کوڈ بنایا جائے، 1985ء میں شاہ بانو قضیہ، 1985ء میں یکساں سول کوڈ کامعاملہ، 1990ء میں لازمی نکاح رجسٹریشن بل،1999ء میںمطلقہ کے نان و نفقہ سے متعلق ممبئی ہائی کورٹ کافیصلہ اور1999ء میں دوبارہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ،2006ء میں فوج میں داڑھی رکھنے کامعاملہ اور اب سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کا مسئلہ ؛ جمعیۃ علمائے ہند نے ان تمام معاملات میں سینہ سپر ہو کر فتنو ں کا مقابلہ کیا اور آج بھی سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں فریق ہے۔اس سلسلے میں جمعیۃ علمائے ہند نے 1985ء میں علما کانفرنس اور26جنوری1991ء کو مدنی ہال نئی دہلی میں تحفظ شریعت کانفرنس منعقد کرکے پورے ملک کو ان معاملات پر متحد کر نے کی کوشش کی ۔
مسئلہ کسٹوڈین کے خلاف جد وجہد : (6)
آزادی کے بعد کسٹوڈین قانون کی وجہ سے مسلمانوں سے ان کی جائیداد چھیننے کی سازش رچی گئی۔جمعیۃ علمائے ہند کی کوششوں سے کسٹوڈین قانون سے بعض رعایتیں دی گئیں؛مثلاً دہلی کے مسلم علاقو ں کی نشاندہی کی گئی۔ ان علاقو ں میں اگر کسٹوڈین کی جائیداد کا خریدار کوئی مسلمان ہوتو اسے فروخت کی جاسکتی تھی، جمعیۃ علمائے ہند کو خریدارو ں کو نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا۔اس کی وجہ سے مسلم اکثریت کی بستیاں اقلیت میں بدلنے سے بچ گئیں۔
(7) مسلم اقلیت کے لیے ریزرویشن کی تحریک :
جمعیۃ علمائے ہند نے آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کی پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن کا مطالبہ شروع کردیا تھا، تاہم اس تحریک کا باضابطہ آغاز مولانا اسعد مدنی ؒ نے 1997ء میں کیا اور اس کے لیے پورے ملک میں دستحظی مہم چلا کر اکیس لاکھ بائیس ہزار پانچ سو اکہتر دستخطوں کے سا تھ 8مارچ1999ء کو ایک میمورنڈم صدرجمہوریہ ہند کو پیش کیاگیا۔ الحمدللہ آج جمعیۃ کی کوشش سے ملک کی کئی ریاستوں میں ریزرویشن نافذ ہے،البتہ اس سے متعلق ایک قانونی رکاوٹ ہے، جس کو لے کر جمعیۃ علمائے ہند سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ لڑرہی ہے۔
: بابر ی مسجد کے لیے تا ریخی جد وجہد (8)
جمعیۃ علمائےہند 1949ء سے عدالت میں فریق ہے۔یہ مقدمہ فی الحال سپریم کورٹ میں جاری ہے۔
(9) دہشت گردی او راسلام کو بدنام کرنے والوں کے خلاف تاریخ ساز جد وجہد :
اسلام کے پیغام امن کی اشاعت کا اور دہشت گردی کے خلاف جد وجہد کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ مدارس و مساجد، قرآن مجید اور دین اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے ،نیز اسلام دشمن طاقتوں کو اسلام کے نام پر استعمال ہونے کے خلاف باضابطہ جد وجہد کا آغاز 2007ء سے ہوا تھا۔سنہ 2008ء میں دیوبند سے فتوی طلب کرکے ملک کے گوشے گوشے میں دو سو سے زائد بڑی کانفرنسیں منعقد کرکے نہ صرف دہشت گردی کی سخت مذمت کی ؛بلکہ اسے مذہبِ اسلام سے جوڑنے والوں کو آئینہ بھی دکھا یا۔یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ سال 2013ء دیوبند اور دہلی میں امن عا لم کانفرنس کے ذریعے سارے ممالک کے مقتدر علما کے ساتھ مل کر اسلام کے مساوات اور امن کے پیغام کو متفقہ طور سے پھیلا یا۔ان پروگراموں کا یہ اثر ہوا کہ پوری دنیا میںیہ پیغام گیا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے ؛چنانچہ امریکہ جس نے سب سے پہلے اسلامک ٹیررزم کی اصطلاح پیدا کی تھی، اس نے باضابطہ سرکاری طور سے اس اصطلاح کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ اب اسلامک آتنک واد یا ٹیررزم کا لفظ استعمال نہیں ہوگا۔
(10) دہشت گردی کے الزام میں ماخوذ بے قصور افراد کے لیے قانونی جد وجہد :
جمعیۃ نہ صرف دہشت گردی کی سخت مذمت کرتی ہے، بلکہ دہشت گردی کے شکا ر ہوئے، یا اس کے نام پر غلط طریقے سے پھنسائے گئے لوگوں کے لیے مقدمہ بھی لڑتی ہے۔ حال ہی میں آسام فساد کے بعد غلط طریقے سے جیل میں بند افراد کی رہائی عمل میں آئی۔ یہ جمعیۃ کی طویل جد وجہد کی و جہ سے ممکن ہوا۔ اسی طرح گجرات فساد کے مجرموں کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ نیز اورنگ آباد اسلحہ کیس میں فیروز دیشمکھ وغیرہ کے مقدمے میں بڑی کامیابی ملی ہے۔ایک تفصیل کے مطابق ملک بھر میں جمعیۃ ایک سو پچاس سے زائد مقدمات لڑرہی ہے اورجمعیۃ نے باضابطہ اعلان کردیا ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی بے قصور گرفتار ہو، وہ ان سے رابطہ کریں ان کا تعاون کیا جائے گا۔
قسط جاری۔۔۔۔
 

Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 66092 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.