آزاد بھارت کی تہتر سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہاں
کی سیاست ذات پات اور مذہب و فکر کی آلودگیوں سے کبھی پاک نہیں رہی۔
کانگریس نے اس ملک پر تقریباً چھہ دہائیوں تک حکومت کی، اوراس نے بھی اپنے
دورِ آغاز سے ہی رنگ و نسل اور ذات پات کی سیاست کی۔ بی جے پی چونکہ انہی
بنیادوں پر معرض وجود میں آئی ہے، اور اس کی سیاسی بنیاد ہی رنگ و نسل اور
ذات پات پر استوار ہے، تو اس نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور گمراہ کن
اسمرتی آئیڈیولوجی کو پورے ملک پر تھوپنے کے لیے ذات پات اور رنگ و نسل کی
جو بھی ممکنہ صورت ہو سکتی تھی، اس کو اپنا آلۂ کار بنا کر فی الوقت وہ
ہندوستان کی حکومت پر قابض ہے۔ ان کے علاوہ ملک کی دیگر تمام قومی و ریاستی
جماعتیں انہی دو مشہور قومی سیاسی جماعتوں کے دست و بازو ہیں۔ پورے ملک میں
جہاں کہیں بھی خواہ ترقیاتی پروگرام ہو، یا پھر ہندوستانی عوام کو درپیش
کوئی بھی معاشی و معاشرتی پریشانی، اس میں ان دونوں قومی جماعتوں کا
بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی نہ کوئی لنک ضرورہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جہاں
سیاسی مفاد پیشِ نظر ہوتا ہے، وہاں یہ جماعتیں کافی فعال نظر آتی ہیں، ورنہ
لوگوں کی پریشانیوں پر کون کان دھرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ملک بے پناہ
قدرتی وسائل کا مالک ہونے کے با وصف آج تک ترقی یافتہ ممالک کے مقام تک
پہنچنے کی بجائے ہنوز دیہی ملکوں کی فہرست میں ایک نمایا مقام رکھنے پر
مجبور ہے۔ اور موجودہ سیاسی بحران کے پیش نظر یہ کہنا شاید مبالغہ نہیں
ہوگاکہ یہاں ایک عالم گیر پیمانے پر تعمیر و ترقی تقریباً ناممکن ہے۔ اس
صدی میں تو یقیناً محال ہے، اور آیندہ مزید ایک صدی میں اگر ہم نے اپنے
اندر انقلاب نہیں لایا، تو اس کے امکانات مزید کم ہو سکتے ہیں۔
یہ ایک اصولی بات ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی وہاں کے عوام کی
فکری بلندی اور علمی لیاقت سے بہت زیادہ مربوط ہوتی ہے۔اسی لیے یہ دیکھا
جاتا ہے کہ جہاں کے لوگ تعلیم اور شعور و آگہی میں جس قدر آگے ہوتے ہیں ان
کا معاشرہ اسی قدر ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتا ہے۔ صد افسوس کہ ہمارا تین
تہائی سے زیادہ معاشرہ پوری طرح فکری بالیدگی، کج فہمی، بلکہ انجام ناشناسی
کا شکار ہے۔ ظاہر ہے اس کی بنیادی وجہ غریبی ہے، اور جس ملک کی آبادی کا
تین تہائی خطِ افلاس سے نیچے کی زندگی گذارنے پر مجبور ہو، وہاں کسی ترقی
کی امید کرنا تو دور اس کی کوشش کرنا بھی بے سود ہے؛ کیوں کہ اس دنیا میں
ہم انسانوں کو آسائش سے قبل رہائش کی ضرورت ہے، اور رہائش کے لیے پیٹ کی
آسودگی ہم انسانوں کی پہلی ترجیح ہے، ورنہ ایک بھوکا انسان بھوک کے علاج کے
سوا بھلا کیوں اپنی تن پوشی کے بارے سوچ سکتا ہے۔ ہمارے اس ملک کا سب سے
بڑا المیہ تو یہی ہے کہ آج بھی اس ملک میں بھوک کی وجہ سے ہر دن تقریباً
سات ہزار لوگوں کی موت ہوتی ہے! اب آپ خود غور کرسکتے ہیں کہ ان حالات میں
عام لوگوں کی فکر و شعور کا کیا معیار ہوگا؟ ان کاسیاسی شعور کس قدر بیدار
اور ان کے احساسات کس قدر جوان ہوں گے؟ یہ اس قوم کی بد قسمتی ہی کہیے کہ
یہ ابھی تک بالکل بھی سیاسی طور پر بیدار نہیں ہوئی، یا شاید ہونے نہیں دیا
گیا۔ اسی وجہ سے عام طور پر ان کا خوب سیاسی استحصال ہوتا ہے۔ تہتر سالوں
سے ہماری یہ سیاسی جماعتیں بالکل یہی کرتی آرہی ہیں، کہ عوام کو کمزور سے
کمزور رکھا جائے اور ان پر حکومت کی جائے۔ انتخابات کے موقع پر اشتعال
انگیز چند مشہور بازاری جملوں کے ذریعے ان کا جذباتی اور مذہبی بلیک میل
کرتی ہے اور پھر ان کو سبز باغ دکھا کر اپنی طرف لبھانے میں کامیاب ہوجاتی
ہے، اور چونکہ ہماری سیاسی سوچ بالکل چوپٹ ہے، اس لیے ہمیں بھی ان کی
کامیابی میں اپنی کامیابی نظر آتی ہے، اور ان کا مشن اپنا مشن معلوم
ہوتاہے؛ چنانچہ جب بابری مسجد ملکیت معاملے کی سنوائی مکمل ہونے کو تھی، تو
ایک بی جے پی بھگت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑی تیزی سے وائرل ہورہی تھی، جس
میں متاثرہ شخص چیخ چیخ کر یہ کہ رہا تھا کہ مجھے نوکری نہیں چاہیے، مجھے
روٹی بھی نہیں چاہیے، مجھے مندر چاہیے۔ ظاہر ہے جس ملک کے عوام اپنی اور
اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کی بجائے ایک من گھڑت ڈھانچے کی تعمیر پر اپنا
پورا زور صرف کرے۔ ملک میں کرپشن و بدعنوانی، مہنگائی و رشوت خوری، قتل و
غارت گری کے اثرات بد کا ان کو کوئی احساس نہ ہو، تو وہاں ترقی کا خواب
دیکھنا بلی کے خواب میں چھچڑے کے مترادف ہوگا۔
ہماری سیاسی غیر شعوری کا یہ عالم ہے کہ ہم ملکی اور ریاستی سطح پر دوسری
کسی سیاسی جماعت کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیتے اور اگر کبھی موقع دے بھی
دیتے ہیں تو ان پر بے جا کمینٹس اور تبصرے کر کے اس کی ساخ کو مثلہ کرنے کی
ناکام کوششیں کرتے ہیں۔ بہار کے گذشتہ ضمنی اسمبلی انتخاب میں مجلس کے ایک
ممبر کی کامیابی کے بعد بعض لوگوں کا جو ردِ عمل سامنے آیا، یقیناً وہ ان
کی شعوری آگہی پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ درحقیقت ہم نے اپنی تقدیر اور اپنا
مستقبل شخصیت اور جماعت پرستی کے ساتھ وابستہ کردیا ہے، حالانکہ کسی بھی
سیاسی پارٹی کی حمایت کرنا، یا اس کے علاوہ کسی اور کا کامیاب ہوجانا، یہ
دونوں دو مختلف موضوع ہے، سو اگر کوئی کہیں سے کامیاب ہوجاتا ہے، خواہ وہ
جس پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا ہو، اہم بات یہ ہے کہ خود اس آدمی کا سیاسی
پس منظر کس قدر لائق اعتنا ہے۔ مگر صد افسوس کہ ہم نے قومیت کی ترقی کا راز
پارٹی میں منحصر کردیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تمام ریاستی جماعتیں سینٹر
میں حکومت کی پرستار ہوتی ہیں، ورنہ خود ان کا وجود ان کی اپنی نگاہوں میں
خطرے میں ہوتا ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں راجد پارٹی کے سربراہ لالو
جی کے بیٹے تیجسوی کی احمقانہ رویوں، اس کی سیاسی غیر شعوری اور باپ کو
بچانے کے لیے اس کی خودسری اور اپنے چاہنے والوں کے جذبات کے ساتھ کھیلواڑ
کرنے کی اس کی چوری سب پر عیاں ہوگئی۔ نتیش جی کے سیاسی قد سے بھی ہم سب
اچھی طرح واقف ہیں، پھر ہم کیسے ان دونوں پر اعتماد کریں اور کیوں کر ہم
اپنی ترقی کی نیا کا ان کو ناخدا چنیں؟ چلیے ایک گونہ اگر ہم یہ تسلیم بھی
کرلیں کہ ہندوستان کی سیاسی فضا میں کسی مسلم سیاسی پارٹی کا پھلنا پُھلنا
ناممکن ہے، تو پھر اس ملک کی سیاست کو جمہوری سیاست کا نام دینا ہی غلط ہے،
اس لیے کے آزادی کے بعد سے اب تک تو ہم نے برادرانِ وطن کو یا ان نام نہاد
جمہوری جماعتوں کو موقع دیتے چلے آئے ہیں۔ ہر مصیبت کی گھڑی میں ہم
کانگریس، راجد، جے ڈی یو ، سپا، بسپا اور دیگر دوسری سیکولر جماعتوں کے
شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔ہم نے ان پارٹیوں کو عروج تک پہنچانے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی، مگر جب ہمارا وقت آیا تو ان سبھوں نے ہمیں ہی انگوٹھا دکھا
دیا۔ سیکولرزم کے نام پر ہمارا استحصال کیا۔ ہمارے جذبات کے ساتھ خوب
کھیلا، اور جب فسطائی طاقتوں نے ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بیڑیاں ڈالنے
کی ٹھانی، تو یہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے۔جب وہ ہماری بستیوں پر شب
خون مار رہے تھے، تو یہ تماشہ بنے دیکھتے رہے، اور آج جب ان کے ہاتھ ان پر
دراز ہونے لگے ہیں، تو انہوں نے ہمیں ہی لات مار کر بھگا دیا!
اس لیے اب میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ ملک میں آج جتنی بھی قومی
و ریاستی پارٹیاں ہیں، جنہوں نے ملک کے عوام کو سیکولرزم کے نام پر لوٹا
ہے، وہ سب بالواسطہ یا بلا واسطہ بی جے پی کے لیے کام کرہی ہیں، یا وہ ایسا
کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کو بھی کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد
ہونا ضروری ہے۔ میں مجلس کی بالکل بھی تائید نہیں کرتا، لیکن اگر ہمارے
سامنے جو ان نام نہاد سیکولر جماعتوں کا متبادل ہو، ہم سب کو مل کر اس کو
عروج پر لے جانا ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ ورنہ جس طرح دہلی میں کیجریوال نے
مسلمانوں کی پیٹھ میں چاقو گھونپنے کا کام کیا ہے، اس سے بھی بد تر دن
دیکھنے کو مل سکتا ہے اور شاید دیکھ رہے ہیں۔
لاریب دہلی انتخاب میں مسلمانوں نے اپنی آبادی کے تناسب سے کیجریوال کو ستر
فیصد ووٹ دے کر اس کو دوبارہ حکومت بنانے میں مدد فراہم کی، مگر الیکشن
جتنے کے کچھ دنوں بعد ہی اروند کیجریوال کی آنکھوں کے سامنے مسلمانوں کے
خون سے کھلے عام ہولی کھیلی گئی اور وہ باکل خاموش رہا! مسلمانوں نے تب بھی
اس کو اپنا مسیحا سمجھا اور آج جب کہ پوری دنیا کرونا وائرس نامی اس عالمی
وبا کی زد میں ہے، اور جب اس وبا کی دہلی میں دستک ہوتی ہے، تو یہی
کیجریوال مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ پوری مسلم برادری کو پورے ملک میں
رسوا وبدنام کرنے کی گویا قسم کھا لیتا ہے۔ دہلی پولیس جو کبھی کیجریوال کی
ایک نہیں سنتی تھی، طرفہ کی بات یہ ہے کہ اب وہی پولیس کیجریوال کے صرف ایک
اشارہ پر دہلی میں تبلیغی جماعت کے کارکنان کے خلاف ایف آئی آر درج کرتی
ہے۔ وہ کیجریوال جسے کبھی یہ تسلیم نہیں تھا کہ اسے بھی سیاست آتی ہے، اس
سےصاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ کتنا بڑا سیاسی ہے۔ پورے ملک میں جمہوریت کی آڑ
میں مسلمانوں کے ساتھ غداری کرنے والوں میں کیجریوال نہ تو کوئی پہلا ہے
اور نہ کوئی آخری ہے۔ ہندوستان کی پوری جمہوری تاریخ ایسے جمہوری غداروں سے
بھری پڑی ہے، جنہوں نے مسلمانوں سے غداری کی۔ بلکہ خود کانگریس نے اپنی
پوری مدتِ حکومت میں مسلمانوں کو سیاسی اور معاشرتی سطح پر کمزور کرنے میں
بہت بڑا رول ادا کیا ہے، اور آج مسلمانوں کی جو حالت ہے اس میں بڑی حد تک
کانگریس بھی ذمہ دار ہے۔اور ایک کہاوت ہے نا: جس کرنی تس بھوگ۔ آج کانگریس
اپنا وہی بویا کاٹ رہی ہے۔
|