فارسی کی مثل ہے پتھر کو باندھنا اور کتوں کو چھوڑ دینا ۔
وطن عزیز میں فی الحال اس پر عمل درآمد ہورہا ہے ۔ دہلی کے کاونسلر طاہر
حسین کو گولی چلانے والوں کے خلاف اپنی حفاظت کے لیے پتھر جمع کرنے کے
الزام میں قومی سلامتی قانون کے تحت گرفتار کرلیا گیا ہے اور عمر خالد پر
بھی این ایس اے تھوپ دیا گیا جبکہ ان کی رہائش فسادات زدہ علاقوں سے میلوں
دور ہے۔ اس کے برعکس ارنب گوسوامی اور رجت شرما جیسے لوگوں کو بھونکنے کے
لیے چھوڑ دیا گیا ہے اور کپل مشرا اور یوگی ادیتیہ ناتھ جیسوں کو کاٹنے کی
کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اقتدار کو حاصل کرنے کی خاطر مودی جی نے اس حکمت
عملی کی ابتداء کی تھی اور اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے شاہ جی نے اسے
انتہا تک پہنچا دیا ۔ ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے اس شاخ نازک پر بننے
والا آشیانہ پائیدار نہیں ہوتا ۔ مغرب نے کبھی تو اس حربے کو سرخ لبادے
پہنا کر آزمایا اور کبھی سفید لباس میں پروان چڑھایا ۔ مغرب کے ذہنی
غلاموں نے مشرق اسے سبز چادر اڑھانے کی بھی کوشش کی اور اب ہندوستان میں اس
کو خالی نیکر پہنا کرگیروے رنگ کی چادر سے ڈھانپ دیا گیا ہے ۔ تاریخ شاہد
ہے کہ اس طرح کی کامیابی دیرپا نہیں ہوتی اور یہ عشق ہر رنگ رقیب ِ اقتدار
نکلتا ہے ۔ ان پر ایک بالآخر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آجاتا ہے ؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
ہندوستان میں ہجومی تشدد کے سانحات پر سیاسی روٹیاں سینکنا عام سی بات
ہےلیکن اس کی خاطر فرقہ واریت پھیلانا اور رکیک قسم کے ذاتی حملے کرنا پہلی
بار ہورہا ہے۔ کورونا کی آمد سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ ہندوستانی دورے کے موقع
پردہلی میں فرقہ وارانہ فساداپھوٹ پڑا۔ اس سے ساری دنیا میں ملک کی بہت
بدنامی ہوئی ۔ اگر دہلی کی پولس کیجریوال کے تحت ہوتی تو یہی میڈیا اس فساد
کو کو ملک سے غداری قراردے دیتا لیکن چونکہ دہلی پولس وزیر داخلہ امیت شاہ
کے تحت ہے اس لیے کسی نے ان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا ۔ پالگھر کے لیے اگر
سونیا ذمہ دار ہے دہلی فساد کے لیے بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کیوں نہیں؟
ارنب کو پالگھر کے سادھو سنتوں کا جس قدر دکھ ہے ایسا غم محمد اخلاق یا
پہلو خان وغیرہ کے ہجومی تشدد پر نہیں تھا ۔ اس لیے کہ اس کا کہنا ہےاس ملک
میں 80 فیصد ہندو رہتے ہیں ۔ کیا اس ملک میں ہندو ہونا گناہ ہے؟ اس کا مطلب
یہ کہ اگر اس ملک کی آبادی میں ہندووں کی اکثریت نہیں ہوتی تو کوئی خاص
بات نہ تھی ۔ یہاں پر اقلیت ہونا تو گناہ ہے لیکن اکثریت ہونا نہیں؟
اقلیتوں پر مظالم کے وقت ارنب جیسے لوگوں کی خاموشی یا اس کا جواز پیش کرنے
کی وجہ یہی ہے کہ وہ تو اکثریت میں نہیں ہیں ۔ ان کے خیال میں انہیں ظلم و
جور کو چپ چاپ سہہ لینا چاہیے ۔
ارنب کا دعویٰ ہے کہ سونیا نے جب ویٹیکن کو سادھووں کے قتل کی خبر دی ہوگی
تو وہاں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی اور انہوں نے سونیا گاندھی کو شاباشی دی
ہوگی ۔ ارنب بھول گئے دنیا کے سارے لوگ اس کی طرح وحشی درندے نہیں ہیں جو
بے قصور لوگوں کے قتل پر خوشیاں منائیں لیکن اس میں شک نہیں کہجب وہ خود
دنیا بھر میں رہنے والے ہندو فرقہ پرستوں کوخوش کرنےکے لیےملک میں مسلمانوں
پر ہونے والے مظالم کی خبر دیتے ہیں، اور اس کے جواب میں انہیں شاباشی دی
جاتی ہے۔ دبئی کے متنازع ٹویٹ اسی ذہنیت کی اپج ہیں اور سونیا پر رکیک حملے
کے بعد ملنے والی حمایت بھی اسی کا ثبوت ہے۔ ارنب نے جب گلا پھاڑ کر یہ
سوال کیا کہ کیا اس ملک میں ہندو ہونا یا گیروا لباس پہننا گناہ ہے تو
لوگوں نے پلٹ کر اس سے سوال کیا کہ کیا اہل اقتدار سے سوال کرنا گناہ ہے؟
کیونکہ ارنب اس کا ارتکاب بھول کر بھی نہیں کرتے ۔ وہ اپنانزلہ ہمیشہ حزب
اختلاف سے سوال پوچھ کر کیوں اتارتے ہیں ؟
یہاں پر ایک اور پہلو قابلِ توجہ ہے ۔ دہلی فساد میں ہلاک ہونے والے ایک
تہائی ہندو تھے لیکن اس پر اس قدر ہنگامہ کیوں نہیں ہوا؟ اس کی ایک وجہ تو
امیت شاہ کی ذمہ داری ہے لیکن دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ سادھو سنت نہیں بلکہ
عام ہندو تھے ۔ یعنی ایک عام بھکت کی ہلاکت اور سادھو سنتوں کی جان میں فرق
ہے۔ اس کا واضح اظہار اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد کے صدر نریندر گری مہاراج
نے کیا ۔ انہوں نے پہلے تو اس گاوں کو مسلم اکثریتی علاقہ قرار دے دیا۔ اس
کے بعد سادھوں پر حملے کو انتقام کی کارروائی بتایا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ
ان کا مطالبہ کیا ہے تو وہ کیمرے کے سامنے سینہ ٹھونک کر بولے ، اس جرم کا
ارتکاب کرنے والوں کے لیے کوئی قانون اور عدالت نہیں ہونی چاہیے ۔ان سب کو
سرِ عام پھانسی دے دی جائے۔ اس گاوں کو سیل کرکے سب کو گولی سے بھون دیا
جائے ۔ سادھو سنتوں کو مارنے والے انسان نہیں راکشش ہیں اور راکشش کو مارنا
کوئی جرم نہیں ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء کو آئین کے خلاف بتانے والے اور بابری
مسجد کے فیصلے پر مسلمانوں کی ناراضگی کو آئین سے بغاوت قرار دینے والے
میڈیا کے سبھی چینلس نےنریندر گری مہاراج کی اس جھوٹ پر مبنی ویڈیو کو فخر
کے ساتھ نشر کیا۔ کسی نے آئین کی دھجیاں اڑانے والے اس بیان پر کارروائی
تو دور معمولی اعتراض تک کرنے کی جرأت نہیں کی ۔ اس معاملے میں بابا رام
دیو سمیت جتنے بھی سادھو سنت ٹیلی ویژن پر آئے ان سب نے صرف اپنے سادھو
سماج پر حملے کا ذکر کیا اور سادھووں کے ذریعہ تحریک چلانے کی بات کی۔ کسی
ڈرائیور کی موت پر نہ تو افسوس کا اظہار کیا اورعام ہندووں کو ساتھ لے کر
تحریک چلانے کی بات کہی۔ سادھوی رتھمبرا نے کہا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے اس
لیے وہ بے چین ہیں ۔ یعنی وہ اسی وقت تشویش کا شکار ہوتی ہیں جب کسی سادھو
پر حملہ ہوتا ہے ۔ عام ہندو یا مسلمان کی جان ان کے نزدیک کسی اہمیت کی
حامل نہیں ہے۔
سنگھ پریوار کا دھرم کرم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ وہ ہمیشہ اپنی سیاست
چمکانے اور اقتدار حاصل کرنے کے چکر میں جٹا رہتا ہے ۔ سنگھ کے لیےمہاراشٹر
کئی طرح سے اہمیت کا حامل ہے ۔ اول تو اس صوبے میں آر ایس ایس کا صدر دفتر
ہے ۔یہیں پر آر ایس ایس کا جنم ہوا ہے۔ اس ریاست نے ملک کو ساورکر اور
گولوالکر جیسے ہندوتوا وادی مفکر دئیے ہیں ۔ گاندھی جی کے قاتل پرگیہ ٹجاکر
کے آدرش ناتھو رام گوڈسے کا تعلق بھی اسی صوبے سے ہے۔ کانگریس کے اندر
شامل ہندوتواوادی چہرے بال گنگادھر تلک اور گوپال کرشن گھوکھلے مہاراشٹر سے
تھے ۔ راجہ شیواجی نے یہیں پر مراٹھا سامراج قائم کیا جو آگے چل کر ملک کے
مختلف حصوں میں پھیل گیا ۔ ہندو ہردیہ سمراٹ کے لقب سے سیاست کرنے والے
بالا صاحب ٹھاکرے نے یہیں پر اپنی شیوسینا قائم کی اور خالص بھگوا پر چم
لہرایا جبکہ بی جے پی کے جھنڈے میں اب بھی نام کے لیے سہی ایک ہرا پٹہ ضرور
ہے۔ اس لیے یہاں ہندوتوادای حکومت کا موجود نہ ہونا چراغ تلے اندھیرا کے
مترادف ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس بات کا قلق ہے پچھلے دو قومی انتخابات میں اس نے
مہاراشٹر میں غیر معمولی کامیابی درج کرائی ۔ اس کے علاوہ 2014میں اس نے
شیوسینا کی مدد کے بغیر اپنا اقتدار قائم کرلیا ۔ 2019 وہ پھر سے شیوسینا
کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ۔ دونوں جماعتوں کو چونکہ واضح اکثریت
حاصل تھی اس لیے اقتدار کی راہ میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن پھر
دیکھتے دیکھتے شیوسینا کے ناراضگی سے ماحول بدلا ۔ اس کے جواب میں دیویندر
فردنویس نے اسمبلی کے اندر این سی پی کے سب سے بڑے رہنما اجیت پوارکو اپنے
ساتھ سرکار بنانے پر راضی کرلیا لیکن پھر اس کے بعد سارے سپنے بکھر گئے۔
شیوسینا کا کانگریس و این سی پی کے ساتھ اشتراکِ عمل کسی کے خواب و خیال
میں نہیں تھا لیکن وہ چمتکار ہوگیا۔ اس طرح پہلی بار عصر حاضر میں چانکیہ
کہلانے والے امیت شاہ کو شرد پوار نے چاروں کانے چت کردیا ۔ اس افسوس
فردنویس سے زیادہ شاہ جی کو ہے۔
ادھو ٹھاکرے کو گھیرنے اور ان سے انتقام لینے کی خاطر بی جے پی نے پالگھر
پر خوب سیاست کھیلی ۔ ملک کے دیگر حصوں میں ممکن ہے اس کا فائدہ بھی ہوگا
لیکن اس میں شک نہیں کہ اب پالگھر کے قبائلیوں نےبی جے پی کا اصلی چہرہ
دیکھ لیا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اب وہ اس کو ووٹ دینا تو دور اس پر
تھوکیں گے بھی نہیں ۔ اس لیے ارنب گوسوامی نے اپنی دوکان چمکانے کے چکر میں
بی جے پی کی ایک پارلیمانی اور دوچار اسمبلی کی نشستیں ضرورکم کردی ہیں ۔
سیاست تو کیا ہر تجارت میں یہی ہوتا ہے کہ جب کوئی تاجر حرص وہوس کا شکار
ہوکر قریب کا فائدہ اٹھانے کے لیے اندھا ہوجاتا ہے تو اس کو دور کا نقصان
اٹھانا پڑتا ہے۔ بی جے پی اور ارنب فی الحال اسی پھیر میں پڑے ہوئے ہیں ۔
وہ دن دور نہیں جب ان میں سے ایک کا ووٹر اس چھوڑ جائے گا اور دوسراپنے
ناظرین سے محروم ہوجائے گا۔ اس وقت یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے رند لکنوی کا
یہ شعر پڑھ رہے ہوں گے؎
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
|