کورونا کی وجہ سے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل کی موت کا جب
سوشل میڈیا پر پتہ چلتا ہے یقین جائیے ایک عجیب کرب اور دُکھ محسوس ہوتا ہے۔
کہ ہمارے فرنٹ لائن کے سپاہی دفاعی محاذ پر لڑتے لڑتے ہوئے اس دنیا سے رخصت
ہو رہے ہیں۔ سہولیات کا اس قدر فقدان ہے کہ ڈاکٹر کے لیے بیڈ نایاب ہو جاتا
ہے اور وہ ایمبولنس میں ہی جان کی بازی ہا ر جاتا ہے۔۔۔۔وینٹی لیٹر نایاب
ہوں اور فرنٹ لائن کا سپاہی ۔ ایسا کیونکر ۔ فوج بھی ایک ادارہ لیکن وہ
اپنا حفاظتی سامان تیار رکھتا ہے ۔محکمہ صحت بھی ایک ادارہ ہے اسے بھی
چاہیے قوم بن کر صحت کے حفاظتی ہتھیار تیار رکھے۔ کسی بھی ملک کو ترقی کی
راہ پر گامزن ہونے یا کرنے کے لیے چند خاص ریاستی ستون ہوتے ہیں، جن کے
بغیر اس ملک کی ترقی کرنا ایسے ہی ہے جیسے اندھے کنویں میں پتھرپھینکنا۔
ریاستی نظام کا بنیادی ڈھانچہ عدل و انصاف کا بلا امتیاز ایک ہونا، صحت کے
نظام کا اس قدر درست ہو نا کہ عام و خاص کے لیے ایک جیسی سہولت ہو۔تعلیمی
نظام اس قدر فعال اور منظم ہو کہ پرائیویٹ سکول کو مافیا کہنے کی نوبت نہ
آئے۔ ملکی دفاع ناقابل تسخیر ہو تاکہ دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر نہ صرف
اس کا مقابلہ کیا جا سکے بلکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے، جس طرح کہ
دیا جاتا ہے۔ ایمان اس حدتک مضبوط و پختہ ہو نا چاہیے جیسے ترکی کے میزائل
اور دیگر فائیر کیے جانے والے ہتھیاریوں پر 8/17لکھا ہوتا ہے یعنی قرآن
مجید کی آٹھویں صور ت (سورۃ انفال اور آیت نمبر 17)۔ لیکن میرا پیارا ملک
رب کریم کی ایک لازوال نعمت ہے جسے تاقیامت قائم و دائم رہنا ہے انشاء اللہ
رہے گا۔ لیکن بنیادی ستونوں میں سوائے دفاع کے اتنے کمزور ہیں بعض دفعہ ان
کے قیام کا گمان سا محسوس ہو تا ہے کہ یہ ہے بھی کہ نہیں۔ کورونا کی وبا
جنم لیتی ہے، چین سے شروع ہو کر پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے، ایسا ملک جو ایک سوئی سے لے کر جنگی جہاز اور
بحری بیڑا تک خود مینوفیکچر کرکے پوری دنیا میں سپلائی کرتا ہے، اس ملک کو
کورونا سے نکلنے کے لیے کم و بیش چار ماہ کا عرصہ لگا۔ کورونا پاکستان میں
آتا ہے، ہمارے وزیروں مشیروں کے کان تک جوں نہیں رینگتی، مجبوراً فوج کو
سامنے لانا پڑا جو ہر مقام پر قربانیاں دے کر بھی کمینے لوگوں سے گالیاں
کھاتی ہے۔ صحت کے نظام کو سہارا دینے کے لیے مسلح افواج کے کندھوں پر ذمہ
داری آن پڑی، دُکھ اس بات ہے کہ پاکستان کو قائم ہو ئے 72سال کا عرصہ بیت
گیا، تمام ادارے قائم و دائم ہیں اور رہیں گے، اپنے اپنے حصے کا بجٹ بخوبی
خرچ بھی کرتے ہیں کیسے اس کا جواب کوئی باضمیر ہی دے سکتا ہے کہ صحت کا بجٹ
کس کی نظر ہوتا آرہا ہے۔ بائیس کروڑ عوام کے صرف موت سے آخری جنگ لڑنے کے
لیے سترہ سو وینٹی لیٹرز، اگر یہ وینٹی لیٹرز ہر سال پچاس کے اضافہ سے چلتے
رہتے تو آج کم و بیس 3500وینٹی لیٹر موجود ہوتا، مختلف متعدی طبی وباوں سے
نمٹنے کے لیے ہمارے پاس ضروری احتیاطی سامان موجو د نہیں وہ بھی ہمیں چائنا
یا دیگر مماملک سے ایمرجنسی سے منگوانا پڑ رہا ہے۔ سلام پیش کرتا ہوں تمام
عہد اقتدار ان کو جنہوں نے اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا اور کرتے رہیں گے۔
نظام صحت کے بگاڑ میں جس حدتک وزیر مشیر اس کے برابر ہیں، میرے مطابق
میڈیکل کا عملہ بھی اتناہی شامل ہے، وزیروں مشیروں کو اس ہیلتھ سسٹم کو
ٹھیک کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ لوگ ایک بہت بڑا مافیا ہیں ان کا
علاج فیملی سمیت بیرونِ ملک اور قوم کے ٹیکس سے ہوتا ہے۔ انہیں کیا ضرورت
پڑی ہے کہ ہیلتھ سسٹم کو بہتر کیا جائے، بیرون ملک علاج بھی، شاپنگ بھی۔
ایک ٹکٹ دو سواد۔۔ اگر میڈیکل ڈاکٹرز صاحبان بھی اپنا رول ادا کرتے تو
ہمارا نظام صحت بہت بہتر ہو چکا ہوتا۔ انہوں نے احتجاج کیے، ہڑتالیں ہوئیں،
لاٹھی چارج کا سامنا کیا، ٹانگیں بھی تڑوائیں، موت کا سامنا بھی کیا لیکن
کس مقصد کے لیے صرف اور صرف اپنے سکیل، الاؤنس، اور اسٹیس کے لیے شاید۔
کبھی انہوں نے مسیحا بن کر اپنے مقصد کو جانچا، اپنے فرائض کا احتساب کیا،
طبی سہولیات کے لیے کوئی احتجاج، ہڑتال کی ہو؟؟ نہیں۔ کیونکہ ان کو سکھایا
ہی نہیں گیا کہ قوم ہو گی تو تمہارے چاؤ لاڈ پو رے ہونگے، معاشرہ تندرست ہو
گا تو الاؤنسز میں اضافہ ہو گا۔ آج جب کسی ڈاکٹر، پیرا میڈیکل سٹاف کی موت
بوجہ کورونا ہوتی ہے تو دو طرح کا دُکھ ہوتا ہے ایک تو ڈاکٹر کا جان سے
جانا اور دوسرا یہ نظام صحت میں سہولیات کا فقدان ہونا جس کے یہ خود بھی
ذمہ داران ہیں۔اس موت کا یقینا دُکھ ہوا، ناقابل تلافی نقصان ہوتاہے۔ کیا
کبھی ایسا دُکھ اس بے بس، مجبور، لاچار اورغریب کی ایمبولنس میں موت ہونے،
رکشہ میں ڈلیوری ہونے، ہسپتا ل سے دھکے دے کر باہر نکل جانے پر مجبور کرنا،
چوراہے پر بچے کا جنم دینا ان سب کا کون ذمہ دار ہے۔ ”اس وقت کا مسیحا
ڈاکٹر“ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے، دیر سے آتی ہے، اور بغیر
بتائے آتی ہے جب برستی ہے تو پشتوں کی پشتیں پناہ مانگتی ہیں۔اپنے زخم اور
دُکھ کی تکلیف جو خود محسوس کی جاتی ہے وہ دوسرا محسوس نہیں کر سکتا ہے، آج
ڈاکٹرز پیرا میڈیکل سٹاف بے بسی کے عالم میں موت کے منہ میں ہے، اب تو آپ
کے اپنے آپ کی آنکھوں کے سامنے بے کسی کی موت کا شکار ہو رہے ہیں، اگر میرے
ان ڈاکٹر ز نے بڑے بڑے عہدوں برجمان ہو کر سیاست نہ کی ہوتی، میڈیکل ڈاکٹ
جعلی نہ بنائے ہوتے تو یہ ملک ہیلتھ کے نظام میں بہت بہتر ہوتا۔ آئے دن
ہسپتال کے عملہ کے لوگ سرکاری ادویات وغیرہ باہر مارکیٹ میں فروخت کرتے
پکڑے جاتے ہیں کیا درجہ چہارم کا ملازم خود یہ قدم اٹھا سکتا ہے یقینا نہیں۔
جس طرح آپ اپنوں کو مرتا دیکھ کرسوشل میڈیا خبریں گردش کرتی ہیں، اسی طرح
اس قوم کا عام فرد بھی بے بسی کے عالم میں زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔
ڈاکٹرز صاحبان جس طرح آپ اپنے حقوق کے لیے احتجاج، بھوک ہڑتال کرتے ہوئے تو
کبھی مسیحا بن کر قوم کے لیے بھی ایسے کام کروتو انشاء اللہ میرے دیس کا
نظام صحت بنیادی سہولیات کے فقدان سے باہر نکل آئے گا اور اگر باضمیر ہوکر
بغیر سیاست کے اپنے فرائض منصبی ادا کرنا شروع کر دیئے جائیں تو کوئی عام
آدمی بے بسی کی موت نہیں مرے گا۔بلکہ عام بھی خاص ہو جائے گا۔۔۔ جذباتی ہو
گیا، کسی کی دل آزاری ہوئی ہوتو معذرت۔
وینٹی لیٹر نایاب ہوں اور فرنٹ لائن کا سپاہی ۔ ایسا کیونکر ۔ فوج بھی ایک
ادارہ لیکن وہ اپنا حفاظتی سامان تیار رکھتا ہے ۔محکمہ صحت بھی ایک ادارہ
ہے اسے بھی چاہیے قوم بن کر صحت کے حفاظتی ہتھیار تیار رکھے۔
|