مائی باپ! فیصلہ تو آپ کو ہی کرنا ہے

اسامہ بن لادن کی مبینہ شہادت پر میں کچھ نہیں لکھ سکا، نہ لکھنے کی بھی کچھ وجوہات ہیں جن میں کچھ ذاتی معمولات زندگی میں پھنسے ہونا اور کچھ ایسے سوالات کا ابھرنا ہے جن کے جواب ابھی تک سامنے نہیں آئے اور نہ ہی شائد کبھی سامنے آئیں۔ دل کی کیفیت ذہن کی کیفیت سے قدرے مختلف ہے، دل نہیں مانتا کہ اسامہ جیسا جری اور بہادر اس دنیا سے ایسی کسمپرسی کی حالت میں چلا گیا ہے، وہ شخص جس نے دنیاوی طور پر سب کچھ ہوتے ہوئے،عیش و آرام کی زندگی کو ترک کر کے اللہ کی وحدانیت کا پرچم بلند کیا اور ایک عرصہ امریکہ جیسے ہاتھی کو نکیل ڈالے رکھی، وہ شخص جو پڑھا لکھا اور ذہین بھی تھا، جو عصر حاضر کی ٹیکنالوجی سے بھی آگاہ تھا اور اسے استعمال کرنے کا ہنر بھی جانتا تھا، جو اپنوں کے لئے موم تھا تو کفار کے لئے فولاد، جو دنیا کی کسی بھی خفیہ ایجنسی پر اعتماد نہیں کرتا تھا کیونکہ خفیہ ایجنسیوں والے آج تک کبھی کسی کے سگے نہیں ہوئے اور انہیں جو احکامات ملتے ہیں، بغیر اپنی عقل پر پرکھے اور بغیر اس کے نتائج و عواقب کو سامنے رکھے، عمل پیرا ہوتے ہیں، وہ شخص کیسے ایک ہی جگہ پورے خاندان کے ساتھ اتنا عرصہ رہائش پذیر رہا، اسامہ جیسے متحرک آدمی کے لئے جو تورا بورا سے بھی بچ نکلا تھا اس طرح ایک ہی جگہ اپنے طور پر اتنا عرصہ رہائش پذیر ہونا بذات خود ایک حیران کن واقعہ ہے جس کی توجیہہ ابھی تک کسی کے پاس نہیں ہے۔ امریکہ کی طرف سے تنہا طور پر آپریشن کرنا، اسامہ کی شہادت کا دعویٰ کرنا اور کوئی ثبوت میڈیا کو جاری نہ کرنا نیز اسامہ کے مبینہ لواحقین تک میڈیا کی رسائی نہ ہونا بھی بہت سے سوالوں کو جنم دیتے ہیں، یہ ساری باتیں تو جملہ معترضہ کے طور پر سامنے آگئیں، میں آج اپنے ایک محترم قاری کی کچھ باتیں آپ کے اور خصوصاً امریکہ بہادر کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھ پر یلغار کر رکھی ہے، من و عن تو تحریر نہیں کر رہا کیونکہ اس سے فتنہ و فساد کا خطرہ ہے لیکن سلیس زبان میں لب لباب کچھ یوں ہے۔

امریکی آپریشن اور اسامہ کی مبینہ اور مشکوک ہلاکت کے بعد پاکستان میں امریکی سفیر جناب محترم کیمرون منٹر نے بیان جاری فرمایا ہے کہ امریکہ القائدہ کے باقی مطلوب لوگوں کے خلاف بھی یکطرفہ کاروائی کرے یا پاکستان کے ساتھ مل کر، فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے اور انتہائی سوچ سمجھ کر۔ منٹر صاحب کا مزید فرمان تھا کہ پاکستانی اور امریکی عوام کے کچھ سوالات ایسے ہیں جن کا جواب وہ پاکستانی قیادت سے چاہتے ہیں کہ کیا واقعی حکومت پاکستان اور متعلقہ اداروں کو اسامہ کی یہاں موجودگی کا علم نہیں تھا؟ اگر نہیں تھا تو کیوں نہیں تھا؟اب موجودہ حالات میں پاکستان کیا چاہتا ہے کہ وہ ایمن الظواہری کے خلاف امریکی متوقع کاروائی میں اس کا ساتھ دے گا یا امریکہ اس کے خلاف یکطرفہ کاروائی کرے؟ پاکستانی قوم اپنے امریکی آقاﺅں کو بالعموم اور پاکستان میں موجود وائسرائے جناب کیمرون منٹر کو ببانگ دہل اور ڈنکے کی چوٹ پر یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے ہمارے نامی گرامی لیڈروں نے ملک اور قوم کو آپ کے قدموں میں نچھاور کر رکھا ہے، ہم بطور قوم ہر قدم آپ جناب کی اجازت سے اٹھاتے ہیں اور کبھی آپکے احکامات سے روگردانی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بے شک آپ اکثر ہمیں ”دھوکہ“ دیتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی یقیناً ایسا ہی ہوگا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں بھی آپ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہی ہوتی تھی اور آئندہ بھی ہوگی۔ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان کے جس لیڈر نے بھی آپ کے احکامات سے ادھر ادھر ہونے کی کوشش کی آپ نے تو اس کا دھڑن تختہ کیا ہی لیکن پاکستان کے عوام نے بھی اس کو ناکوں چنے چبوا دئے، ہمیں وہ لوگ پسند ہی نہیں جو آپ کو اپنا ”ان داتا“ نہ سمجھتے ہوں۔ ہمیں اس بات کی بھی انتہائی خوشی ہے کہ جب 1971 میں ہندوستان کے ساتھ پاکستان کی جنگ جاری تھی تو آپ کا بحری بیڑہ ہماری افواج کی مدد کو نہ آیا حالانکہ آپ نے اس کی یقین دہانی کرا رکھی تھی، اس میں پوشیدہ حکمت ہم جیسے ان پڑھ اور جاہل لوگوں کے علم میں بعد میں آئی کہ اگر آپ کا بحری بیڑہ پاکستان کی اس وقت مدد کرتا تو خدانخواستہ بنگلہ دیش نہ بنتا اور اگر بنگلہ دیش نہ بنتا تو ہندوستان اپنی ”پاک“ اور ”متبرک“ کوششوں میں کامیاب نہ ہوسکتا تھا ایسی صورت میں ہندوستانی مسلمانوں کا کیا بنتا، دوسری حکمت یہ تھی کہ ہم پاکستانیوں کو ویسے بھی بنگالی اچھے نہیں لگتے تھے، ہر وقت مچھلی کی بدبو اور اتنے زیادہ بچے، گھن آتی تھی ہم کو ان لوگوں سے، مچھلی تو چلیں مان لیا کھانے میں اچھے ذائقے کی ہوتی ہے لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ ہر وقت آپ سے مچھلی کی ناگوار بساند ہی آتی رہے، دوسری بات یہ کہ جب ہمارے لیڈر نے کہہ دیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں کوئی اجلاس نہیں ہوگا اور جو وہاں اجلاس میں شرکت کے لئے جائے گا وہ یکطرفہ ٹکٹ پر جائے اور اس کی ٹانگیں بھی توڑ دی جائیں گی تو مجیب کو چاہئے تھا نہ کہ وہاں اجلاس نہ کرتا لیکن انہوں نے ایسا کیا اور اچھا ہی ہوا ہماری جان ان سے چھوٹ گئی ورنہ اتنی دور ملک کا دوسرا حصہ ہو تو اس کی دیکھ بھال کے لئے کتنا سرمایہ بھی تو چاہئے ہوتا ہے، ایسی صورت میں ہمارے ہردلعزیز رہنماﺅں کے لئے روکھی سوکھی زندگی بسر کرنا بھی کتنا مشکل ہوتا۔ ہمیں اس کے بعد بھی آپکی نوازشات اور کرمفرمایاں یاد ہیں کہ کیسے آپ نے ہمارے مولویوں کو استعمال کرتے ہوئے افغان جہاد جیتا تھا، کس طرح امریکہ کی پڑھی لکھی نوجوان نسل کو ہیروئن سے بچانے کے لئے اس کا استعمال پاکستان میں شروع کروا دیا اور ہمارے نوجوانوں کی موجیں لگ گئیں، پڑھنا لکھنا تو ان کے مقدر میں تھا نہیں تو لمبی زندگی جی کر انہوں نے کیا کرنا تھا اس لئے بہت اچھا کیا جناب نے جو یہاں کے نوجوانوں کو ہیروئن پر لگا دیا تاکہ وہ جتنا عرصہ بھی جئیں، کوئی غم، کوئی فکر، کوئی پریشانی ان کو چھو بھی نہ سکے، اس کے لئے ہم آپکے خصوصی طور پر شکر گزار ہیں،ا س کے بعد بھی جو لوگ بچ جاتے تھے اور ہیروئن کے چکر میں نہیں آتے تھے آپ نے ایک حکمت کے تحت ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوف تھما دی! یہ آپ کا ایک اور احسان تھا جس کا شکریہ ہم کبھی بھی ادا نہیں کرسکتے۔ ایک مسلمان کو ہر طرح کا اسلحہ چلانے کا فن آنا چاہئے چنانچہ اس فن اور اسلحے کے بے دھڑک حصول پر ہم آپ کے اور بھی شکر گزار ہیں۔

جناب والا! مشرف دور کی نوازشات چونکہ زیادہ پرانی نہیں ہیں اس لئے ان کا اجمالاً ہی ذکر کروں گا تاکہ زیادہ لمبائی جناب کی نازک طبیعت پر بوجھ بھی نہ بنے۔ مشرف دور میں آپ نے ڈرون حملوں کا ”مبارک“ سلسلہ شروع کیا جس سے اس ملک پر پڑے کئی بوجھ آہستہ آہستہ چھٹنے شروع ہوگئے، مولوی حضرات چونکہ فیملی پلاننگ کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے آپ نے خوبصورت حکمت عملی کے تحت ڈرون حملے اور اس کے رد عمل میں خود کش حملے شروع کرائے تاکہ پاکستان پر آبادی کے بوجھ کو کم سے کم کیا جاسکے۔ پاکستان جو کہ ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود آبادی کے بے تحاشہ بڑھنے کی وجہ سے جہاں ایک طرف پیداوار کم پڑ جاتی تھی وہیں آبادی بڑھنے سے نت نئی ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بھی شروع کرنا پڑتی تھیں تاکہ نئے پیدا ہونے والے لوگوں کو چھت مل سکے جس کی وجہ سے پیداواری رقبہ اور بھی کم ہوجاتا تھا چنانچہ آپ کے ڈرون حملوں اور اس کے رد عمل کے تحت خودکش حملوں نے پاکستان کی آبادی کم کرنے میں کافی مدد کی، اعداد و شمار ابھی قابل اطمینان تو نہیں لیکن جناب کی آئندہ پالیسیوں کی وجہ سے ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ تھوڑے سے عرصہ میں ان میں کافی اطمینان بخش اضافہ ہوجائےگا۔ جناب ذی وقار! یہ سب کچھ میں نے اس لئے عرض کرنا ضروری سمجھا کیونکہ آپکے تازہ ترین بیان نے میری روح پر کچوکے لگانے شروع کردئے ہیں، میں اتنا شرمسار ہوں کہ اپنے آپ سے نظریں ملانا ممکن نہیں ہوپا رہا، میرا دل چاہتا ہے کہ زمین پھٹ جائے یا آسمان ٹوٹ پڑے کہ آپ نے کس طرح کا بیان جاری فرما دیا ہے، ایک لمحے میں جیسے اپنے اور ہمارے درمیان ”غیریت“ اور ”اجنبیت“ کی موٹی اور اونچی دیوار کھڑی کردی گئی ہے۔ جناب آپ نے یہ کیا فرما دیا کہ پاکستان سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے کہ ایمن الظواہری اور اسی قماش کے دوسرے لوگوں کے خلاف آپریشن پاکستان اور امریکہ اکٹھے کریں گے یا امریکہ یکطرفہ....! جناب والا! جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ آپ آج تک ہماری سرپرستی اور رہنمائی فرماتے آئے ہیں اسی لئے عوام و خواص کو آج تک کوئی بھی چیز سوچنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، آپ کی حکمتوں کی سمجھ بھی اپنی نااہلی اور جہالت کی وجہ سے بعد میں آتی ہے تو یہ آپ نے کیا کہہ دیا؟ جناب عزت مآب! آج تک اس ملک کی کسی حکومت یا یہاں کے عوام نے آپ کے کسی حکم سے سرتابی کی ہے؟ جناب والا ہم تو اس ملک کے عوام ہیں جس کی حکومت آپ کے کہنے کے بغیر ہی آپ کی شاندار اور کامیاب وکالت کرتی رہتی ہے۔ کارروائی جناب کرتے ہیں اور ہماری حکومت اور فوج فوری طور پر، آپ کے کہنے کے بغیر ہی اس کاروائی کو قبول و تسلیم کرلیتے ہیں تاکہ آپ کی ساکھ پر کسی قسم کی انگلی نہ اٹھ سکے۔ مائی باپ! یہ ”سوچنے“اور ”سمجھنے“ اور ”فیصلہ“ کرنے والا کام ہرگز ہم سے نہ ہوسکے گا۔فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہے اور آپ یقیناً سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ اگر آپ اکیلے، یکطرفہ اور بتائے بغیر آپریشن کرنا چاہیں تو بھی ”ست بسم اللہ“ اور اگر آپ ہمیں بھی شامل کرتے ہوئے ہم سے کام لینا چاہیں تو ہم تو شروع سے ہی آپکے غلام بلکہ آپکے بچوں کے بھی غلام ہیں، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207440 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.