کیا عذاب وارننگ ہوتی ہے؟

انسان بڑا پھنے خان بنا پھرتا تھا کہ اس نے چاندکو تسخیرکرلیاہے دنیا کی حیثیت ایک گلوبل ویلج کی سی ہوگئی کائنات کے اسرار ورموز اس پر آشکار ہوتے چلے جارہے ہیں اس کے ایک اشارے پر دنیا کیا سے کیا ہوجاتی ہے یہی وجہ تھی کہ عالمی طاقتوں کا سر غرور سے تنا رہتا تھا کہ پوری دنیا کے غریب ممالک ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں وہ جسے چاہیں تباہ کردیں جسے مرضی بربادکردیں یا جس کی معیشت سنوارنا چاہیں سنواردیں اقوام ٍ عالم کی قسمت کا فیصلہ کرنے والوں کو ایک نظرنہ آنے والے وائرس نے ڈھیرکردیاہے جس کے باعث پوری دنیا میں خوف و ہراس پھیلاہواہے لوگ ایک دوسرے سے ملنے حتیٰ کہ ہاتھ ملانے سے بھی ڈررہے ہیں بلاشبہ کورونا وائرس کی شکل میں دنیا پر ایک عذاب آیا ہوا نافرمان لوگوں کیلئے وبائیں،زلزلے اﷲ کی طرف سے ایک وارننگ ہے اسی لئے تو کہا گیا کہ انسان خسارے میں ہے اﷲ کے عذاب کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا انسان قدیم ہے اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا جب ان کی سرکشی بڑھ گئی، ان میں اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہوگئی ،حلال اور حرام برابر ہوگیا تو انسان کو راہ ِ راست پر لانے کے لئے پروردگار ِ عالم نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی ڈیوٹی لگائی حیف صد حیف انسان پھر بھی انسان نہ بنا تو ان کو خوفناک عذابوں کا سامنا کرنا پڑاقرآن کہتاہے اﷲ نے نافرمان قوموں پر طرح طرح کے عذاب نازل کئے کسی کی شکل تبدیل ہوگئی کوئی پانی میں غرقاب ہوگیا،کسی قوم پر چوہوں کا عذاب آیااوروہ طاعون کے مرض میں مبتلاہوکر مرتے چلے گئے،کہیں مینڈکوں کی افراط ہوگئی لوگ عاجز آگئے اور کہیں نافرمانوں کیلئے پانی خون میں بدل جاتا وہ پیاسے مرجاتے مسلمانوں پر ایسا کوئی عذاب نہیں آنے والا اس کی وجہ فقط یہ ٹھہری کہ ہم اﷲ کے آخری اور اس کے لاڈلے نبی ٔ اکرم ﷺ کے امتی ہیں ورنہ اعمال تو ہمارے شاید نافرمان قوموں جیسے ہی ہیں ہمارے شکلیں صورتیں تو نہیں بدلیں لیکن ہم جیسے نافرمانوں کیلئے اﷲ کے عذاب کی شکل بدل گئی اربوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہورہے ہیں یہ بھی عذاب کی ایک شکل ہے خیر یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ظاہری طورپر موجودہ تاریخ میں 5 بدترین و بھیانک عذاب آچکے ہیں ایک عذاب کورونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی ہے، اس وائرس کا خوف دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے یہ وبا ء پاکستان میں بھی آ چکی ہے۔ اگر ہم تاریخ میں آنے والی بھیانک بیماریوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس بہت عام سی بیماری ہے، اس سے پہلے بھی خطرناک وبائیں آ چکی ہیں جس نے بے شمار انسانی جانوں کو نگل لیا۔ جنہوں نے دنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا ۔سیاہ موت نامی عذاب دنیا کا سب سے خوفناک عذاب کہاجاسکتاہے یہ ایک خوفناک قسم کا طاعون تھا جس نے تباہی مچا دی تھی جو چوہوں سے پھیلتا ہی چلا گیاہے۔ یہ وباء 1347 ء سے 1352 ء تک رہی۔ طاعون کی اس وبا نے مشرقی ایشیا پر حملہ کیا اور وہاں سے مشرقِ وسطیٰ اور پھر یورپ جا پہنچی۔ اس وباء سے تقریباً 20 کروڑ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ تباہی اس قدر بد ترین تھی کہ پورے شہر میں مْردوں کو دفنانے والا کوئی نہیں بچا تھا لاشیں بے گورو کفن سڑتی گلتی رہیں۔ اس وبا کے اثرات کی وجہ سے طوفان ِ نوح کے بعد تاریخ میں پہلی بار دنیا کی مجموعی آبادی کم ہو گئی۔ ایک اور عذاب کوہسپانوی فلو کے نام سے یادکیاجاتاہے یہ وباء 1918 تا 1920 میں اس وقت پھیلی جب دنیا پہلی عالمی جنگ کی تباہی کے ملبے تلے دبی ہوئی تھی کہاجاتاہے یہ وباء بندروں کے باعث پھیلی کیونکہ جانوروں میں سے صرف بندرکو ہی زکام و فلو ہوتاہے اس سے دنیا بھر میں اس سے 5 کروڑ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس وقت جنگ کی صورتِ حال کی وجہ سے یورپ کے بیشتر حصوں میں اس فلو سے ہونے والی ہلاکتوں کو چھپایا گیا، جبکہ اسپین چونکہ جنگ میں شامل نہیں تھا اور وہاں سے بڑی ہلاکتوں کی خبریں آنے کے بعد یہ تاثر ملا جیسے اس بیماری نے خاص طور پر اسپین کو ہدف بنایا ہے عام طور پر فلو بچوں اور بوڑھوں کے لئے زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے، لیکن ہسپانوی فلو نے جوانوں کو خاص طور پر ہلاک کیا اور اس سے کروڑوں نوجوان چل بسے یہ اس قدر خوفناک تھا کہ بوڑھے اپنے جوان بچوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے تھے اﷲ معاف کرے ایک اور عذاب ایڈز/ایچ آئی وی کی شکل میں دنیا پر نازل ہوا اس ایڈز کا وائرس 1976 ء سے سب سے پہلے مغربی افریقہ میں چمپینزیوں سے انسان میں منتقل ہوا اور پھر وہاں سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔ اس بیماری نے سب سے زیادہ افریقہ کو متاثر کیا ہے۔ اس وائرس سے دنیا بھر میں 1981 ء سے لے کر اب تک ساڑھے 3 کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پھر دوسری بار 2005 ء سے 2012 کے درمیانی عرصہ میں اس وائرس نے تقریباً ڈھائی کروڑ افراد کی جان لے لی۔541 ء تا 542 ء میں آنے والی یہ وباء جسٹینن طاعون کہلاتی ہے یہ بھی طاعون کی ایک قسم کی پہلی بڑی مثال ہے۔ اس وبا ء نے دو سال کے اندر اندر بازنطینی سلطنت اور اس سے ملحقہ ساسانی سلطنتوں کو سیلاب کی طرح لپیٹ میں لے لیا ایک محتاط اندازے کے مطابق طاعون کے اس عذاب سے اڑھائی کروڑ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس وبا ء کا اثر اس قدر شدید تھا کہ ماہرین کے مطابق اس نے تاریخ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وبا نے ان دونوں سلطنتوں کو اتنا کمزور کر دیا تھا کہ چند عشروں بعد عرب بڑی آسانی سے دونوں کو تسخیرکرنے میں کامیاب ہو گئے۔انتونین کی وباء اﷲ کے عذاب کی صورت میں نازل ہوئی تو اس سے 50 لاکھ افراد لقمہ ٔ اجل بن گئے یہ دہشت ناک مرض اس وقت پھیلا جب رومی سلطنت اپنے عروج پر تھی۔ 165 عیسوی سے 180 عیسوی تک جاری رہنے والی اس وبا نے یورپ کے بڑے حصے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ مرض کون سا تھا، اور اس سلسلے میں خسرہ اور چیچک دونوں کا نام لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھرمیں دیگر بھیانک وبائی امراض بھی آئے رہے ہیں جن میں کوکولز تلی، ایرانی طاعون، ایشیائی فلو، نیند کی وباء شامل ہیں بہرحال موجودہ دور میں آنے والے پراسرارکروناوائرس کے باعث پوری دنیا میں خوف کاراج ہے اربوں شہری گھروں میں قید ہوگئے ہیں۔عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے، تجارتی مراکز اور کھیلوں کی سرگرمیاں بند ہیں۔ آباد علاقے سنسان اور ویران ہوگئے ہیں ہرروزدنیاکے مختلف ممالک سے ہلاکتوں کی خبروں سے مزیدخوف و ہراس پھیل رہاہے چین کے بعد کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک امریکہ اور اٹلی میں مکمل لاک ڈا ؤن ہے پاکستان برطانیہ اور ایران سمیت200ممالک میں اس وباء سے مرنے والوں کی تعداد2لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے ،ہزاروں صحت مند تو ہوگئے ہیں لیکن کروناوائرس سے متاثرہونے والے لاکھوں موجود ہیں اس کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ مریضوں کے ساتھ ساتھ علاج کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے درجنوں افراد لقمہ ٔ ا جل بن چکے ہیں اس صورت ِ حال میں ہرشخص کو حفاظتی تدابیر اختیارکرنے کے ساتھ ساتھ توبہ استغفارکرنی چاہیے بلاشبہ اﷲ تبارک تعالی ہی دنیا کو اس عذاب سے نجات دلاسکتے ہیں ہم اس کے گناہ گار، بے بس،اور کمزور بندے اس کی رحمت کے طلب گار ہیں اﷲ پاک ہم سب پر اپنے حبیب پاک ﷺ کے طفیل کرم فرمائے( آمین)
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 337076 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.