حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ بحیثیت تاجرہ

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ولادت عام الفیل سے پندرہ سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ عام الفیل اس سال کا نام ہے جس میں ابرہہ نامی شاہ حبشہ نے ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ خانہ کعبہ کو تباہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ پر چڑھائی کی تھی لیکن ابابیلوں کے خدائی لشکر کے سامنے اُس کی ایک نہ چلی اور ہاتھیوں سمیت ہلاک ہوا۔حضرت خدیجہؓ کی ولادت اس واقعہ کے پندرہ سال پہلے ہوئی۔ آپ ؓ کے والد خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ہیں۔خویلد کے جد، عبدالعزی اور آپ ﷺ کے جد ، عبد مناف آپس میں بھائی تھے اور اُن کے والد قصی بن کلاب تھے ، اس بناء پر آپ ﷺ اور حضرت خدیجہ ؓ دونوں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے اور شجرہ نسب کے لحاظ سے بھی آپس میں قریبی رشتہ دار تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کا قبیلہ بنو اسد اور جب کہ آپ ﷺ کا بنو ہاشم ہے۔

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے والد خویلد کا شمار مکہ مکرمہ کے معروف اور امیر تاجروں میں ہوتا تھا۔ اُن کی تجارت کی ساکھ و شہرت کے چرچے دوسرے ملکوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ وہ اپنا مال دوسرے ممالک لے جاتے اور وہاں سے مال حجاز لاکر فروخت کرتے اور اپنی خاندانی ایماندار ی اور صداقت کی وجہ سے معقول منافع کماتے تھے۔ عرب کے قبائل میں اُن کی بہت عزت تھی اور خوش حال و امیرانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ اس کے علاوہ غریبوں کو تجارتی کاروبار کے لئے مال و دولت دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت خدیجہ ؓ کو دولت اور تاجرانہ بصیرت وراثت میں ملی جس کو انہوں نے اپنے خاندانی پیشے تجارت میں لگا رکھا تھا۔ خاتون ہونے کے ناطے وہ خود تو تجارتی قافلوں کے ہمراہ نہیں جاسکتی تھیں البتہ وہ بڑے بڑے تاجروں کو مضاربت کے اُصولوں پر اپنا مال دیتیں اور معقول منافع حاصل کرتی تھیں ۔ مضاربت کا طریقہ عربوں میں رائج تھا ۔ اسلام نے بھی منافع میں شرکت کرنے کو منع نہیں کیا ہے بشرطیکہ یہ نظام سود اور ناجائز معاملات سے پاک ہو۔حضرت خدیجہ ؓ اپنے تجارتی کاروبار کے لئے نیک ، پارسا ، ایماندار اور سمجھ دار اشخاص کا انتخاب کرتی تھیں اور اُن کو تجارتی قافلوں کے ہمراہ بھیجا کرتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ آپ ؓ ایک کامیاب تاجرہ بن کر ابھری تھیں۔ مال دار اور صاحب ثروت ہونے کے باوجود وہ اپنا وقت عبادات اور خانہ کعبہ کے طواف میں گزارتی تھیں۔ اس کے علاوہ اُن کے گھر کا دروازہ حاجت مندوں اور فقیروں کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا تھا اور کبھی کوئی محتاج اُن کے گھر سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا۔

ایام جاہلیت میں ، جب پورا عرب بت پرستی میں ڈوبا ہوا تھا لیکن آپ ؓ آسمانی کتابوں پر یقین رکھتی تھیں اور خدائے وحدہٗ لا شریک کی پرستش کرتی تھیں، یعنی قبل از اسلام وہ ایک موحدہ اور صحیح العقیدہ خاتون تھیں اور شرک و گمراہی سے انہیں قطعی نفرت تھی۔ آپ ؓ اپنے تجارتی قافلے دور دراز ممالک کو روانہ کرتے وقت خانہ کعبہ جایا کرتیں اور خدائے برتر سے اپنی تجارت میں برکت کی دعا کرتی تھیں۔ پس آپ ؓ کو جب معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ میں آپ ﷺ اپنے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے صادق اور امین کے القابات سے جانے جاتے تھے تو انہوں نے آپ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ میرا مال تجارت شام لے جائیں تو وہ دوسروں کی نسبت دو گنا منافع دیں گی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پورے عرب کو خشک سالی نے اپنے لپیٹ میں لیا تھا اور خصوصاً جن لوگوں کی زندگی کا انحصار مویشی پالنے اور زراعت پر تھا وہ نہایت مشکلات سے دوچار تھے۔ آپ ﷺ کے محسن چاچا ابوطالب جو قریش کے سردار تھے وہ بھی دوسروں کی نسبت زیادہ مشکلات کا شکار ہوئے تھے کیوں کہ اہل و عیال اور اپنے قبیلے کی بھاری ذمہ داری ان کے کندھوں پر عائد تھی۔ پس جب آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کے اس پیغام کے بارے میں اپنے چاچا کو آگاہ کیا تو انہوں نے فرمایا۔ ’’ میرے بھتیجے ! یہ وہ رزق ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا مقدر ٹھہرایا ہے۔ ‘‘ اس کے بعد ابوطالب اور بنی ہاشم کے دیگر افراد حضرت خدیجہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے اور آمادگی کا اظہار کیا ۔ آپ ؓ نہایت خوش ہوئیں اور فرمایا۔ ’’ آپ ﷺ مطلع رہیں کہ قریش کے تجارتی قافلوں کا نصف سے زیادہ مال و سرمایہ میرا ہے ، مجھے اس تجارت کے لئے آپ ﷺ جیسے صادق اور امین شخص کی ضرورت ہے تاکہ میں اسے اپنے مال کا بااختیار امین مقرر کروں اور اپنی تدبیر و حکمت عملی سے تجارت و لین دین انجام دے ۔ ‘‘ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ میں سفر کرنے میں دل چسپی رکھتا ہوں اور قافلے کے ساتھ تجارت کے لئے ملک شام جانے پر آمادہ ہوں۔ یوں آپ ﷺ اور حضرت خدیجہ ؓ کے مابین مضاربت کے اُصول ( منافع میں شرکت) پر تجارتی معاہدہ طے پایا۔آپ ؓ نے اپنے ایک قریبی عزیز خزیمہ بن حکیم اور اپنے غلام میسرہ کو آپ ﷺ کے ہمراہ کیا اور اُن کو کہا۔ ’’ حضرت محمد ﷺ میرے اموال کے امانت دار ہیں۔ میرے اموال پر اُن کو مکمل اختیار حاصل ہے لہٰذا وہ جو کہیں ، اُس پر عمل کرنا اور وہ جو فیصلہ مناسب سمجھیں ، اُس پر ان کے ساتھ تعاون کرنا۔ کوئی شخص اُن کے فیصلے کے بارے میں اعتراض نہیں کرسکتا ہے اور کوئی بھی اُن کے ساتھ تیز کلامی کا حق نہیں رکھتا۔ ‘‘ حضرت محمد ﷺ اس سے قبل اپنے چاچا ابو طالب کے ہمراہ تجارتی سفر کر چکے تھے اور تجارتی گُر سیکھ چکے تھے لہٰذا شام کے سفر کے لئے فوراً تیار ہوگئے۔سفر کے دوران خزیمہ اور میسرہ کو آپ ﷺ کی دل پذیر گفتگو اور اخلاق و مروت نے اپنا گرویدہ بنالیا۔شام کے تجارتی سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ ؓ کے عزیز خزیمہ بن حکیم اور غلام میسرہ نے وہ تمام حالات و واقعات بیان فرمائے جو انہوں نے دوران سفر دیکھے۔ جب آپ ؓ نے حضرت محمد ﷺ کی امانت داری ، خوش معاملگی ، کاروباری مہارت اور معقول منافع کمانے کے متعلق سنا تو وہ فرطِ محبت سے بے خود سی ہو گئیں اور اُن کا پاکیزہ دل آپ ﷺ کی پاک محبت سے بھرپور ہوگیا۔ چناچہ آپ ؓ نے نفیسہ عورت کے ذریعے سے یہ دریافت کیا کہ آپ ﷺ شادی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ اثبات میں جواب ملنے پر حضرت خدیجہ ؓ کا نکاح آپ ﷺ سے ہوگیا، اس وقت دونوں کی عمریں بالترتیب چالیس اور پچیس سال تھیں۔اسلام کی خاتون اول اور کامیاب تاجرہ نے پچیس برس آپ ﷺ کے ساتھ گزارے اور دس رمضان المبارک سن دس نبوی جنت الفردوس کو سدھار گئیں۔
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301461 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.