آہ ....آہ !وزیراعظم کا پارلیمانی خطاب

آہ ....آہ !وزیراعظم کا پارلیمانی خطاب ! نہ عوام کو اعتماد میں لے سکے اور نہ امریکا کو سمجھا سکے...
اُسامہ کی شہادت ایک المیہ!امریکی مفکر نوم چومسکی اُسامہ کی شہادت پر ناخوش!!....
اُسامہ کی شہادت اور پاکستان کے دوست نما دشمن امریکا کی ہڈ دھرمی

دو مئی کو پاکستان میں رچائے جانے والے ایک امریکی ڈرامے میں اُسامہ بن لادن کی شہادت کے بعد تو یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ امریکا کبھی بھی نہ تو پاکستان کے ساتھ مخلص رہا تھا اور نہ ہی اِس نے کبھی پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی نبھائی ہے یہ وہ پاکستان کا دوست نما ہڈ دھرم دشمن ہے جس نے ہمیشہ پاکستان کو کسی نہ کسی بہانے نقصان پہچانے کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور اَب دو مئی کو امریکی فورسز نے پاکستان کے ایک علاقے ایبٹ آباد میں ایک مختصر ترین آپریشن میں اپنے سب سے زیادہ مطلوب شخص اُسامہ بن لادن کی شہادت کا جس انداز سے ڈرامہ رچایا اور اِس کے بعد سے پاکستان پر امریکا کی جانب سے جس قسم کے الزامات لگائے جارہے ہیں اِن سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اَب امریکا عراق اور افغانستان کے بعد اپنا تیسرا جنگی محاذ پاکستان میں کھولنے کے لئے پَرتول رہا ہے جبکہ اِس سے انکار نہیں کہ پاکستان میں دو مئی کو ایک امریکی ڈرامے میں اُسامہ بن لادن کی شہادت پر امریکا اور لندن سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے عوام میں ایک ایسی سوچ و فکر جنم لے چکی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکا اور لندن کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے عوام اُسامہ کی اِس طرح کی شہادت پر دو حصوں میں بٹ چکے ہیں جن کی اپنی علیحدہ علیحدہ سوچیں ہیں اِس کا اندازہ دور جدید کے ایک عظیم امریکی مفکر نوم چومسکی کی اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے اُسامہ کی شہادت پر اپنے شدید غم وغصے کا اظہار کچھ اِس طرح کیا ہے کہ” وہ اُسامہ کی اِس طرح ہونے والی شہادت پر ناخوش ہیں “ اور اِسی طرح” لندن میں اُسامہ کے حامیوں اور مخالفین میں ہونے والی وہ جھڑپ بھی ہے“ جس سے آج امریکی و لندن کی انتظامیہ اور امریکی اور لندن کے عوام بھی خود حیران اور پریشان ہوگئے ہیں۔

ایک امریکی ٹی وی کے مطابق نوم چومسکی نے کہا ہے کہ یہ بات عیاں ہے کہ امریکی آپریشن سے اُسامہ کی شہادت ایک پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی ہے جس میں امریکا نے اپنی کھلی ہڈدھرمی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اُصولوں کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور امریکی فورسز کی اِس مختصر کاروائی میں امریکیوں نے یہ کوشش ہی نہیں کی کہ ایک نہتے اُسامہ کو زندہ ہی پکڑ لیتے اور اِس سے نائن الیون میں ملوث ہونے کے ثبوت دریافت کرتے اور امریکا اپنے اُوپر لگنے والے اِس بہتان کو بھی دنیا کے سامنے واضح کرنے کی کوشش کرتا کہ امریکا کے پاس نائن الیون کے واقعہ میں اُسامہ کو ملوث کرنے کے ثبوت نہیں ہے مگر شائد طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا امریکا کو یہ منظور نہ تھا اِسی لئے امریکی صدر بارک اُوباما نے اُسامہ کو ترنت مارنے کو ہی غنیمت جان کر ایک ایسا غلط کام کروا دیا ہے کہ جس کے بعد نہ صرف امریکا کے لئے مزید مشکلات پیدا ہوجائیں گیں بلکہ دنیا کو بھی ایک ایسی انتقامی جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے جس سے اَب نکلنا کسی کے بھی بس میں نہیں ہوگا اور اِس کے ساتھ ہی نوم چومسکی نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکیوں کو اُسامہ بن لادن کو شہید کرنے سے پہلے اپنے گریبانوں میں ضرور جھانک لینا چاہئے تھا اور اپنے کلیجوں پر ہاتھ رکھ کر بڑے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ یہ ضرور سوچ لینا چاہئے تھا کہ اگر عراقی کمانڈر جارج بش کو اِس کے کمپاؤنڈ میں گُھس کر اِسے بھی اِسی طرح بیدردی اور وحشیانہ پن سے قتل کریں اور جارج کی لاش کو اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ سے سمندر برد کردیں تو ذرا سوچو امریکیوں کا کیا ردِعمل ہوگا عظیم امریکی مفکر نوم چومسکی نے اپنا سینہ ٹھونک اور پورے وثو ق کے ساتھ یہ بھی کہا کہ دو مئی کو بارک اوباما نے وائٹ ہاؤس کی بلڈنگ میں بیٹھ کر اپنے جاری بیان میں جس انداز سے یہ جھوٹ بولا ہے کہ ”امریکا کو جلد پتہ چل گیا تھا کہ نائن الیون کے حملے االقاعدہ نے کئے ہیں“ حالانکہ امریکا کے دانشوروں اور دنیا کی پل پل بدلتی صُورت حال پر نظر رکھنے والا ایک بڑا طبقہ یہ بات خُوب جانتا ہے کہ نائن الیون میں القاعدہ کسی بھی طور پر ملوث نہیں ہے اِس واقع کے پیچھے اسرائیلی سازش کارفرما تھی اور بارک اوباما کہتے ہیں کہ سانحہ نائن الیون میں القاعدہ ملوث ہے “ نوم کا کہنا ہے کہ اُوباما کا یہ جھوٹ وائٹ ہاؤس کی شان کے خلاف ہی نہیں بلکہ اُن امریکی اُصولوں اور ضابطوں کے بھی برعکس ہے جن پر قائم رہ کر امریکی پُرکھوں نے برسوں سے امریکی شان و شوکت اورعظمت میں چار چاند لگائے ہیں بس دو مئی کے سانحہ ایبٹ آباد کے حوالے سے بارک اوباما کے ایک بیان نے امریکیوں کی بنی بنائی عزت خا ک میں ملا دی ہے۔

یہاں اِن تمام باتوں سے بھی زیادہ جو دنیا اور امریکیوں کے لئے حیران اور پریشان کُن بات وہ یہ ہے کہ اِس دورِ جدید کے عظیم امریکی مفکر نوم چومسکی نے بڑے اعتماد اور اطمینان کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ امریکا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا سب کچھ لُٹانے والے پاکستان کے کردار پر جس شدومد سے انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں وہ پاکستان کے وقار اور کردار کو دنیا کے سامنے مسخ کر کے پیش کرنے کے مترادف ہے جس سے امریکی عوام سے تعلق رکھنے والا دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ سخت تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ پاکستا ن میں امریکا نے اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر جس انداز سے اُسامہ بن لادن کا ڈرامہ رچایا اُس سیاسی قتل کے لئے پاکستانی حدود میں امریکی ہڈ دھرمی کے خلاف کوئی بات نہیں کی جارہی ہے اور چونکہ یہ حقیقت ہے کہ دو مئی کو امریکا نے دیدہ و دانستہ طور پر پاکستان میں جو غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت کی ہے اِس پر پاکستانی رائے عامہ کی امریکا کے خلاف شدت میں اضافہ ہونا ایک لازمی امر ہے جس پر امریکا کو ہر حال میں حکومتِ پاکستان، عوامِ پاکستان اور افواج پاکستان سے فوری طور پر معافی مانگنی چاہئے مگر اِس پر امریکا کی ہڈدھرمی کا یہ عالم سمجھ سے بالاتر ہے کہ” امریکا القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے کے لئے دوبارہ ایساحملہ کرے گا “ امریکا کا یہ بیان پاکستان میں اپنے خلاف نفرت کی مزید آگ بھڑکانے کے مترادف ہے نوم چومسکی نے اپنے اِسی انٹرویو میں کہا کہ سابق امریکی صدر جارج بش کے جرائم کی فہرست تو اُسامہ بن لادن کے جرم سے کہیں زیادہ طویل ہے جس نے اُسامہ کو نشانہ بناکر مشرقِ وسطی کو جنگ وجدل میں دھکیل دیا ہے بش کے اِس جنگی جرائم کی وجہ سے اَب تک لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور اِس کے باوجود بھی یہ ظالم اور انسانیت کے کھلے دشمن امریکی حکمران ہیں کہ اِنسانیت کا بیدریغ خون بہاکر بھی دنیا بھر میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار بنے پھر رہے ہیں نوم چومسکی نے اِس موقع پر کیوبا کا حوالہ دیتے ہوئے غم وغصے سے کہا کہ امریکا کیوبا کے مطلوب اُس بڑے آدم خور دہشت گرد کو کیوں بھلا رہا ہے.....؟ جِسے امریکا نے اپنے یہاں ایک بڑے عرصے تک پناہ دی اور کیوبا کو مطلوب یہی دہشت گرد کیلیفورنیا میں پُرسکون طبعی موت مرا امریکی مفکر نوم چومسکی نے ظالم و جابر اور فاسق سابق امریکی صدر بش کے اُس فلسفے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بش کی دہری ذات کا عکاس ہے جو ایک طرف تو دنیا میں امن وسکون کا پرچار کرتا رہا تو دوسری طرف اِسی بش نے اسرائیلیوں کے ساتھ مل کر اُسامہ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر دنیا کو امریکی جنگ سے آگ و خون سے بھر دیا۔

نوم نے کہا کہ بش کا یہ فلسفہ غلط ہے کہ دہشت گردوں کو پناہ دینے والے معاشرے بھی برابر کے مجرم ہیں اور بش کا یہ فلسفہ اور آپریشن جنرونیمو اِس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ جس ملک نے بھی امریکا پر چڑھائی کی اِسے معاشی ، اقتصادی ، سیاسی اور اخلاقی طور پر تباہ وبرباد کر دیا جائے اور اِس کے صدر کو قتل کر دیا جائے۔

یہاں ہمارا خیال یہ ہے کہ دورجدید کے اِس عظیم ا مریکی مفکر نوم چومسکی نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں بلادوٹوک جس انداز سے موجودہ اور سابق امریکی صدور کی جنونیت سے متعلق انکشافات کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہا ہے وہ یقیناً امریکا سمیت ساری دنیا کے لئے حیرانگی کا باعث ہے کہ امریکی انتظامیہ اور ایک عام امریکی شہری سے ہٹ کر امریکا میں بسنے والا دانشوروں کا ایک سنجیدہ طبقہ پاکستانی حدود میں غیرقانونی طور پر داخل ہوکر اُسامہ کی شہادت کے رچائے جانے والے ڈرامے پر کس قسم کے خیالات رکھتا ہے اور بارک اوباما کے اِس قول وفعل کو کس قدر حقارت سے دیکھتا ہے یہ موجودہ امریکی انتظامیہ اور دنیا بھر میں بسنے والے امریکیوں منہ پر ایک زور دار طمانچے سے کم نہیں ہے۔

اُدھر دومئی کے المناک سانحہ کے گزرنے کے دس روزبعد بھی حکومت پاکستان نہ تو اپنے ساڑھے سترہ کروڑ عوام اور اپوزیشن کو اعتماد میں لینے میں کامیاب ہو سکی ہے اور نہ ہی امریکا کو یہ سمجھاسکی ہے کہ اِس کے نائن الیون کے واقعہ میں ملوث اِسے سب سے زیادہ مطلوب شخض اُسامہ بن لادن کو پاکستانی قیادت اور خفیہ ایجنسیوں نے اپنی ناک کے نیچے نہیں چھپا رکھا تھا اور اِس کی یہاں موجودگی کی خبر اِسے نہیں تھی ۔

اِس حوالے سے گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں ایبٹ آباد آپریشن پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ایبٹ آباد آپریشن کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے ، حکومت کو فوج اور آئی ایس آئی کی کمانڈ پر مکمل اعتماد ہے ہم نے اُسامہ کو نہیں بلایا، دوسروں کی ناکامیوں کا ذمے دار ہمیں نہیں ٹھہرایا جاسکتا ،اسٹرٹیجک اثاثوں کے خلاف کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دیاجائے گا اور دہشت گردی کے خلاف تعاون شراکت داری کی بنیاد پر ہوناچائے۔اگر چہ قومی اسمبلی میں کئے گئے وزیراعظم کے اِس ہلکے پھلکے خطاب سے نہ تو قوم ہی مطمئن ہوپائی ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو حکومت کے کسی ایسے اقدام پر بھروسہ اور اعتماد قائم ہوسکا ہے جس کا تذکرہ وزیراعظم نے اسمبلی خطاب کے دوران کیا جبکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جس امریکا کی پردہ داری میں وزیراعظم نے اپنایہ خطاب کیاہے اُسی امریکا نے تو دوٹوک الفاظ میں یہ کہہ دیاہے کہ قومی اسمبلی میں کیا گیا گیلانی کا خطاب ہمارے کسی کام کا نہیں کیوں کہ گیلانی کی لجھے دار اور طویل تقریر ہمارے اُن سوالات کا جواب نہیں جو ہم نے اُسامہ کی شہادت کے بعد پاکستان سے دریافت کئے ہیں ۔

اَب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری حکومت کب حزب اختلاف اور عوام کو مطمئن کرپاتی ہے یا امریکا کے پوچھے گئے اُن سوالات کے جوابات دے کر پھر سے امریکا کاخود پر اپنااعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یہ تو اِس کی صوابدید پر ہے کہ وہ آئندہ دنوں میں اِس حوالے سے کیا کیاگُل کھلاتی ہے....؟

بہرحال! یہ بات تو اٹل ہے کہ حکومت جب تک حزب اختلاف اور عوام کے سامنے پوری طرح سچ بیان کرکے اِنہیں اپنے اعتماد میں نہیں لے لیتی امریکا حکومت کو ہر طرح سے پریشان کرتارہے گا کیوں کہ وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتاہے کہ ایک طرف حکومت ہمارے دباؤ میں ہے تو دوسری طرف یہ عوام کو وہ حقائق کبھی نہیں بتاسکتی جس کے بارے میں اِس نے ہم سے معاہدے کررکھے ہیں۔یہاں ہمارااپنی حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ امریکا کے ہاتھوں بلیک میل ہونے سے تو زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہمارے صدر اور وزیراعظم اُن تمام حقائق کو کھلے دل سے منظر عام پر لاکر عوام اور حزب اختلاف پر اپنااعتماد بحال کردیں جس کی وجہ سے اِنہیں ہر بار امریکا سے بلیک میل ہونے کی وجہ سے جھوٹ پر جھوٹ بولناپڑرہاہے۔اور ایبٹ آباد کے آپریشن سے متعلق بغیر کسی امریکی دباؤ میں آئے حکومت کو عوام اور حزب اختلاف سے کچھ بھی پوشیدہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اَب تو حکومت پر یہ بات لازم آجاتی ہے کہ یہ وہ تمام حقائق پوری طرح سے نہ صرف اپنے عوام اور حزب اختلاف کے سامنے بیان کرے بلکہ عالمی میڈیا پر بھی لے آئے کہ سانحہ ایبٹ آباد آپریشن میں امریکانے اِسے کس طرح بلیک میل کیااور اِس سے امریکا کے اپنے کیا مقاصد ہیں ۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 1057741 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.