انسداد وبا کی لڑائی میں کوئی تماشائی نہیں ہے۔ 1.4 بلین
چینی باشندے اپنی اپنی حیثیت میں اس وبا سے لڑنے کے لئے سخت کوشش کر رہے
ہیں ، اور ہر ایک عام چینی کی جدوجہد کو سمجھنے کے بعد ہی بین الاقوامی
برادری کو واضح طور پر اندازہ ہوسکتا ہے کہ چین نے اس جنگ کو کس طرح
جیتا۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل کے سینئر مشیر بروس ایلورڈ نے
جذبات کے ساتھ کہا ہے کہ "رضاکاروں نےصف اول میں خدمات سرانجام دے کر نہ
صرف چین بلکہ پوری دنیا کو وائرس سے محفوظ بنایا۔اس وقت چین میں دنیا میں
ایک واحدایسا ملک ہے جہاں وائرس پر قابو پانے کے بعد صورت حال معمول پر
واپس آچکی ہے۔ ابتداء ہی سے ، چین کے اعلیٰ رہنما ، شی جن پھنگ نے اس وبا
کی روک تھام اور کنٹرول کو "عوام کی جنگ" کے طور پر بیان کیا ، انہوں نے اس
بات پر زور دیا کہ لوگوں کی زندگی اور صحت کو پہلی ترجیح دی جانی چاہئے ،
اور اس جنگ کو جیتنے کے لئے عوام پر انحصار کرنا ہوگا۔ اس اچانک وباء کے
سامنے ، صفائی کے کارکنوں ، کورئیر جوان سے لے کر طبی عملے اور دیگر شعبوں
میں کام کرنے والے تمام لوگوں نے محنت اور خاموشی سے اپنی خدمات انجام دی
جس کی وجہ سے وبا پر قابو پانے کے لئے ایک طاقتور قوت وجود میں آئی۔ چینی
صدر نے غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ چینی عوام
ہی ہیں جنہوں نے ہمیں اس وباء پر قابو پانے کے لئے طاقت اور اعتماد دیا ،
عوام ہی ہیرو ہیں۔
آج کی دنیا میں ہمارے پاس سپر کمپیوٹرز، بگ ڈیٹا، مصنوعی ذہانت اور
شماریاتی تجزیوں کے سسافٹ وئیر موجود ہیں لیکن ہم کتنے بے بس ہیں کہ اپنی
تمام تر طاقت کے دعوؤں اور عملی ثبوتوں کے باوجود اس سوال کا جواب دینے سے
قاصر ہیں۔ اس کہ وجہ یہ ہے کہ آنے والی دنیا کا تعین اب ہماری خواہشات پر
نہیں بلکہ "وائرس" کی جانب سے چھوڑے جانے والے چیلنجز پر ہوگا۔
ایک چیز یقینی ہے کہ اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان میں غریب اور
کم آمدن والے طبقات ہوں گے لہذا میری دنیا کے صاحب اختیار لوگوں کو سب سے
زیادہ ان ہی کی فکر کرنا ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے خون پسینے سے
آج دنیا کو اس طاقتور مقام پر پہنچایا ہے۔ اس صدی کے شروع میں سامنے آنے
والی عالمی کساد بازاری کو انہی لوگوں نے اپنی محنت سے انجام دیا تھا۔ اگر
ہم نے مل کر انہیں بچا لیا تو یہ بھیانک خواب جلد ختم ہو جائے گا۔
حالیہ وبا نے دنیا بھر کے کھوکھلے دعوؤں کی قلعی کھول کر دی ہے۔ اس وبا نے
ہمارے نظام میں موجود نا انصافیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کو سب کے
سامنےآشکار کردیا ہے۔ آج کی دنیا میں امیر کی دولت کا شاید ایک صفر کم ہوا
ہو لیکن غریب کی زندگی صفر ہوگئی ہے۔
انشااللہ کووڈ-19 کے خلاف یہ جنگ جلد یا بادیر جیتی ہی جائے گی لیکن اس فتح
کے بعد چیلنجز کی ایک طویل فہرست دنیا کی منتظر ہوگی۔ ان نئے چیلنجز کا
مقابلہ کسی ایک قوم کے لئے تنہا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ لہذا کورونا کے بعد
کی دنیا کے لئے سب کو ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔ ہمیں نئی دنیا کے نئے انداز
قبول کرنے لئے ابھی سے تیار رہنا ہو گا۔
آج کی اس کورونائی دنیا میں ہم میں سے اکثریت کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے
کہ کس طرح اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو کورونا کی وبا سے بھی بچائیں اور
اپنے روزگار کے اسباب کو بھی محفوظ بنائیں۔ دوسری جانب پالیسی ساز، تھنک
ٹینکس اور ارباب اختیار ایسی پالیسیوں کی تلاش میں ہیں جن کی مدد سے وبا پر
قابو پایا جائے اور اس کے معیشت پر پڑنے والی منفی اثرات کو بھی مزید بڑھنے
سے روکا جائے۔
خدا نہ کرے کورونا کے بعد بھوک کی وبا دنیا کو آلے۔ اس وقت کورونا نے
امریکہ اور افریقہ کو ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ آج دنیا کا امیر ترین خطہ
بھی اتنا ہی بے بس ہے جتنا غریب ترین خطہ ہے۔ آج مزدور کورونا کا شکار ہے
تو وزیراعظم بھی اس وائرس کا شکار ہے۔ہمیں وائرس کے اس سبق کو مثبت انداز
میں لینا چاہیے اور دنیا سے عدم مساوات کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا ہوگا کیوں
کہ اگر اب ہم نے کمزور لوگوں کو نہ بچایا تو ہم کس پر حکمرانی کریں گے۔
|