کرونا وائرس کے حوالے سے پھیلائے گئے خوف وہراس نے اس وقت
پوری دنیا کو ہی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ مغربی ممالک ہوں یا مشرقی ہر
جگہ کرونا وائرس کے مریضوں اور اس مرض کی وجہ سے مرجانے والوں کی لاشوں کی
تعداد کے بارے میں میڈیا کے ذریعے انتہائی مبالغہ آمیز خبروں ،تبصروں اور
تجزیوں کا سلسلہ پورے زور وشور سے جاری ہے لیکن اس کے باوجود تقریباًًہر
ملک کی عوام کی اکثریت اپنے حکمرانوں یا حکومتوں کی جانب سے کرونا وائرس کے
حقیقی وبا ہونے اور اس وبا کی ہلاکت خیزی کے حوالے سے ہونے والے پروپیگنڈے
پر سو فیصد یقین کرنے کو تیار نظر نہیں آتی اور خاص طور پر مسلم ممالک کے
عوام کرونا وائرس کی آڑمیں کیے جانے والے عالمی اقدامات اور قوانین کے خلاف
ہیں، جن کو بلاتخصیص ہر چھوٹے بڑے اور امیر وغریب ملک پر لاگوکرنے کی
کوششیں کی جارہی ہیں بلکہ ہر طرح کے حربے استعمال کرکے اسلامی ممالک کو
اپنے تابع بنایا جارہا ہے جس میں لاکھوں ڈالرز کی امداد اور قرضوں کی معافی
جیسی پیشکشیں بھی شامل ہیں جن کی بناء پر اکثرمسلم ممالک کی حکومتوں نے
کورونا وائرس کے حوالے سے عالمی طاقتوں کے بنائے گئے قوانین پر بے چوں وچرا
عمل کرنا بھی کرنا شروع کردیا ہے جس میں ان کی بعض مجبوریوں اور مصلحتوں کے
ساتھ دولت کی چمک بھی اپنا کام دکھا رہی ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جو اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے جبکہ
گزشتہ 10 سال برسراقتدار رہنے والے حکمرانوں کے مختلف مغربی ممالک سے لیے
گئے لاکھوں ڈالرز کے قرضوں کی ادائیگی کے بوجھ سے ہمارے ملک کی کمر جھکی
ہوئی ہے اور جھکی ہوئی کمر کے ساتھ کوئی مقروض ملک کس طرح ان ممالک کو
ناراض کرنے کا خطرہ مول لے سکتا ہے جن کی مدد سے اس ملک کے اخراجات چل رہے
ہوں ۔اسی طرح کی بہت سی باتوں،مجبوریوں اور مصلحتوں نے اﷲ تعالیٰ پر مکمل
بھروسہ رکھنے والی قوم کے حکمرانوں کو بھی عالمی طاقتوں کے ٹوپی ڈراموں میں
حصہ لینے پر مجبور کررکھا ہے لیکن حیرت تو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک
کے حکمرانو ں اور حکومتوں کا حال دیکھ کر ہوتی ہے کہ دنیا کے یہ امیر ترین
ممالک جوآئل اور پیٹرول کی دولت سے مالا مال ہیں وہ کیوں بیرونی دباؤ کے
آگے سر کو جھکا کر مکہ میں واقع خانہ کعبہ اور مدینہ میں واقع مسجد نبوی ﷺ
میں ہونے والی اسلامی عبادات کو روکنے اور ان عبادت گاہوں کو بند کرنے پر
آمادہ ہوگئے جن میں دنیا بھر کے مسلمان آکراپنے اتحاد کا اظہار کرتے ہیں ۔
جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ خانہ کعبہ اورمسجد نبوی ﷺ دنیا کے وہ واحد دو
مقامات ہیں جہاں دنیا بھر کے مسلمان تمام قومیتوں اور فقہی و مسلکی
اختلافات کو بھلا کر متحد ہوکر نمازیں اوردیگر عبادتیں انتہائی خضوع و خشوع
کے ساتھ انجام دیتے ہیں اور درحقیقت مسلمانوں کے اتحاد کا یہ مظاہرہ اور
خاص طور پرعمرے اور حج کے مواقع پر لاکھوں مسلمانوں کا خانہ ء کعبہ میں ایک
ساتھ جمع ہوکر نمازیں پڑھنا ورخانہ کعبہ یعنی اﷲ کے گھر کا کا طواف
کرنایہودیوں اور کافروں کی نظروں میں ہمیشہ سے کھٹکتا رہا ہے اور وہ
مسلمانوں کی اس یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں
دیتے ۔
یوں تو امریکہ کے اکثر حکمران مسلمانوں سے بغض رکھتے چلے آئے ہیں جس کا
اظہار ان کے مسلمان ممالک کے ساتھ انفرادی سلوک سے کیا جاسکتا ہے جیسا کہ
امریکی صدر اوبامہ کے دور حکومت میں ’’ نائن الیون ‘‘ کے نام سے ایک بہت
بڑا اور خطرناک جان لیوا ڈرامہ رچایا گیا اور پھر اس واقعے کی ذمہ داری
مسلمانوں پر ڈال کر امریکہ نے مسلمانوں اور مسلمان ممالک کے ساتھ جو سلوک
کیا وہ ساری دنیا نے دیکھااور پھر وقت گزرنے کے ساتھ نائن الیون کے حوالے
سے جو ہوشربا حقائق سامنے آئے اس نے ہر خاص وعام کو چونکا کررکھ دیا لیکن
پھر رفتہ رفتہ سب جان گئے کہ ’’ نائن الیون‘‘ کا ڈرامہ کس نے اور کن مقاصد
کے حصول کے لیے رچایا تھا ۔
اپنے پیشرو حکمرانوں کی طرح امریکہ کے موجودہ حکمران اور صدر ٹرمپ مذہب
اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے اپنا ایک خصوصی ذہن رکھتے ہیں جس کا اندازہ
اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب ٹرمپ اقتدار میں آئے اور امریکہ
جیسی دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کہلائی جانے والی ریاست کا صدربنے تو
انہوں نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے چند روز بعد ہی اپنے معتمد افراد کی ایک
خصوصی میٹنگ بلائی جس میں ایک خاتون بھی شامل تھیں اس موقع پر ٹرمپ نے ایک
کمرے کی دیوار پر لگی ہوئی ایل ای ڈی پر خانہ کعبہ کے طواف کی ویڈیو لگوائی
اور وہا ں موجود افراد سے کافی حیرانی کے ساتھ سوال کیا کہ:’’ ایسی کیا بات
ہے کہ ساری دنیاکے مسلمان اپنے تمام لسانی،قومی اور مسلکی اختلافات بھلاکر
ہر سال لاکھوں کی تعداد میں یہاں ایک ساتھ جمع ہو کرحج کی خصوصی عبادت
انجام دیتے ہیں اور نہایت منظم انداز میں یکجہتی کا اظہار کرکے اپنی قوت
اور طاقت کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔ یہ تھی وہ پریشانی ،وہ خوف کہ کہیں سال میں
ایک بار دنیا بھر کے مسلمانوں کا یہاں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر
عبادتیں کرنا ان کے آپس کے قومی ،لسانی اور مسلکی اختلافات کو ختم نہ کردے
کیونکہ اگر ایسا ہوگیا اور پوری دنیا کے مسلمان متحد ہوگئے تو پھر کفریہ
طاقتوں کا کیا بنے گا اور پھر وہ کیسے ساری دنیا پر اپنی حکومت قائم کرکے
خاص طور پر مسلمان ممالک کو اپنا محکوم اور غلام بنا کر سپر پاور بن سکیں
گے؟ یہی تھی وہ پریشانی جو ہمیشہ سے کافروں کے دلوں میں موجود رہی ہے اور
اسی وجہ سے موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کے سازشی ذہن نے ’’ نائن الیون ‘‘ سے
بھی بڑا ایک شیطانی منصوبہ تیار کیا تاکہ دنیا کو امریکہ کے زیر اثر کرنے
کے لیے نیو ورلڈ آرڈر کے مطابق ڈھالا جاسکے ۔
ٹرمپ نے اپنے اس شیطانی خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے’’ نائن الیون ‘‘
سے بھی بڑا ایک ڈرامہ اسٹیج کیا جس کو آج کی دنیا ’’ کورونا وائرس ‘‘ کے
نام سے جانتی ہے جسے مسلمانوں کے خلاف ،یہودو نصاری ٰ کے دجالی منصوبے کے
آغاز کے لیے سب سے بڑا ہتھیار بھی قرار دیا جاسکتا ہے ۔اب سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے ذہن میں اس شیطانی منصوبے کا خیال کیسے آیا اور پھر اسے
عملی جامہ پہنانے کے لیے آئیڈیا اورگائیڈ لائن کہاں سے ملی؟تو اس کا جواب
یہ ہے کہ امریکہ میں جس بھی سیاسی پارٹی کی حکومت اقتدار میں ہو اور ملک کا
جو بھی سربراہ ہو وہ اپنی پالیسیاں صرف اپنے دور اقتدار کے لیے نہیں بناتا
بلکہ وہاں سب کچھ بہت سوچ سمجھ کر اور لونگ ٹرم پلاننگ کے تحت کیا جاتا
ہے۔وہاں پاکستان کی طرح حکومت بدلتے ہی سابقہ حکومت کے منصوبے سرد خانے میں
نہیں ڈالے جاتے بلکہ وہاں جو بھی منصبوبے اور پلاننگ کی جاتی ہے وہ اتفاق
رائے کے ساتھ طویل عرصہ کے لیے کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں کسی کی
بھی حکومت آئے یا جائے ان کی اکثر پالیسیاں اور منصوبے اسی طرح چلتے رہتے
ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اور خاص طور پر امریکہ میں
مسلمانوں کے حوالے سے ہمیشہ طویل عرصے پر مشتمل پلاننگ کی جاتی ہے جس پر
آئندہ آنے والے دس یا بیس برسوں میں عمل کرنا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اتنے
طویل عرصہ وہاں کوئی ایک حکمران برسراقتدار نہیں رہتا اس لیئے صدر کے بدلنے
کے ساتھ لانگ ٹرم پلاننگ نہیں بدلی جاتی اور اس پر اسی طرح غوروخوض اور کام
جاری رہتا ہے جیسا کہ سابقہ حکومت نے پلاننگ کی ہوتی ہے۔
امریکہ میں حکومتوں کی طرف سے لانگ ٹرم پلاننگ پر مشتمل پالیسیوں کے احوال
کو جاننے والے جانتے ہیں کہ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد یہ جو ’’ کرونا
وائرس‘‘ کاعالمی ڈرامہ اسٹیج کیا اس کی تیاری بہت پہلے سے جاری تھی صرف
مناسب وقت اور موقع کا انتظار تھا جو ٹرمپ جیسے اسلام مخالف اور مذہبی
انتہاپسند شخص کے برسراقتدار میں آنے کی وجہ سے زیادہ آسانی اور چالاکی کے
ساتھ رچایا گیا ۔کرونا وائرس کم از کم امریکہ کے باشندوں اور امریکن فلمیں
دیکھنے والوں کے لیے کوئی نہیں چیز تو نہیں تھی کہ2011 میں ’’ کرونا وائرس
‘‘ کو ایک امریکی فلم ’’کونٹی جین ‘‘میں خوف اور دہشت کی علامت بنا کرمن
وعن اسی انداز میں پیش کیا گیا جیسا کہ آج کل دنیا بھر کے لوگ ’’ کرونا
وائرس ‘‘ کو ایک جیتی جاگتی حقیقی فلم کی صورت میں اپنے شہروں اور ملکوں
میں اپنے گھروں میں محصور ہوکر دیکھنے پر مجبور ہیں اور آج پوری دنیا میں
کرونا وائرس کے نام پر سب کچھ بالکل ویسے ہی ہورہا ہے جیسا کہ 9 سال قبل
بنائی گئی امریکی فلم’’Contagion‘‘ میں فلمایا اور دکھایا گیا تھااور ظاہر
ہے کہ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔
کرونا وائرس پر تحقیق کرنے والا کوئی بھی کالم نگار جب یہ فلم دیکھتا ہے تو
وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ برسوں پہلے بننے والی اس فلم میں جو کچھ
دکھایا گیا تھا وہ آج کیسے حقیقت کا روپ دھار کر ہر انسان کے سامنے آکر
کھڑا ہوگیا ہے۔لہذا جو لوگ اس وقت ’’ کرونا وائرس‘‘ کے نام پر پھیلائے گئے
خوف ودہشت سے بھرپور من گھڑت پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر گھروں میں دبک کر
بیٹھے ہوئے ہیں وہ دراصل عالمی طاقتوں کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنسے ہوئے
وہ بے وقوف اور بے بس انسان ہیں جن کی حیثیت اس وقت سرکس میں کرتب دکھانے
والے کسی بندر یا شیر سے سے زیادہ نہیں کہ جسے مالک اپنی مرضی سے جیسے چاہے
نچاتا ہے، جب چاہے رہا کرتا ہے اورجب چاہے دوبارہ پنجرے میں قید کردیتاہے۔
اشرف المخلوقات کہلایا جانا والا یہ دو ٹانگوں کا عقل مند وجود جسے انسان
کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے اس وقت دجالی عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں
کھیلنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔کرونا وائرس کے نام پر یہود و نصاریٰ کے
رچائے ہوئے اس نئے ڈرامے کے اتنے متضاد پہلو ہیں کہ شاید ہی اس سے قبل اس
ہشت پہلو ٹائپ کا کوئی عالمی ڈرامہ دنیا میں کبھی اسٹیج کیا گیا ہو اور مزے
کی بات یہ ہے کہ اس ڈرامے کو حقیقی رنگ دینے کے لیے جس طرح کرونا کے لاکھوں
مریضوں اور ہزاروں لاشوں کا پروپیگنڈہ زرخرید میڈیا کے ذریعے کیا گیا اس کی
بھی کوئی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی کہ میڈیا نے اپنی مرضی ،دباؤ یاذاتی
مفادات اور ڈالروں کے لالچ کی وجہ سے کرونا وائرس کی ہولناکیوں کی من گھڑت
داستانوں کا جو غیر ضروری پروپیگنڈہ کیااس نے اس سارے معاملے کو ہی مشکوک
بناڈالا۔جبکہ دنیا بھر کی اکثر حکومتوں نے بھی کرونا وائرس کو ایک بہت بڑی
جان لیوا بیماری کے طور پر جس طرح اپنے عوام کے سامنے پیش کیا وہ کسی بھی
عقل مند اور باشعور انسان کے لیے آسانی کے ساتھ قابل قبول بات نہیں ہے اور
پھر جن مغربی ممالک نے کرونا وائرس کاڈرامہ پوری پلاننگ کے ساتھ اپنے چند
مضموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے رچایا ان پر ہر ملک کا اتنی آسانی کے ساتھ
یقین کرلینا بعید ازقیاس تھا کیونکہ اس سے قبل دنیا’’ نائن الیون‘‘ نامی
ٹوپی ڈرامے کی حقیقت جان کر حیران رہ گئی تھی کہ کس طرح ایک عالمی کفریہ
طاقت مسلمانوں اور مسلمان ممالک پر یلغار کرنے کے لیے خود اپنے ہی ملک میں
’’ نائن الیون‘‘ جیسا خوفناک اور ہلاکت خیز ڈرامہ اسٹیج کرکے اس میں اپنے
ہی باشندوں کو مروا بھی سکتی ہے تاکہ نائن الیون کے واقعے کو مسلمانوں کے
سر تھوپ کر مسلمان ممالک سے اپنا دیرینہ بغض اور دشمنی نکالنے کے لیے ان پر
چڑھائی کرنے کے لیے راستہ ہموار کیا جاسکے اور جب امریکہ دنیا بھر میں نائن
الیون کے واقعے کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دے کرمسلمان ممالک پر مختلف
طریقوں سے حملے کرکے جانی و مالی نقصان پہنچائے تو اس کے خلاف کہیں سے کوئی
آواز بلند نہ ہو اور وہ جو چاہے آسانی کے ساتھ کرتا چلاجائے اورنائن الیون
کے بعد دنیا بھر میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں اور خاص طور پر امریکہ نے
مسلمان ممالک کے ساتھ جو سلوک کیا وہ سب کچھ دنیا نے خاموشی سے دیکھا لیکن
رفتہ رفتہ ’’ نائن الیون‘‘ کے ڈرامے اور اس کے کرداروں سے پردہ اٹھتا چلا
گیا اور آخر کار ساری دنیا کو یہ پتہ چل گیا کہ نائن الیون کا واقعہ پری
پلان تھا جسے خود امریکہ نے رچایا تھا اور اس کا الزام مسلمانوں پر تھوپ کر
مسلم ممالک کو اپنے زیر اثر لینے کے لیے ہرجائز و ناجائز طریقہ استعمال
کرتے ہوئے اپنے مضموم مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کی تھی جس سے سب سے زیادہ
نقصان دو مسلم ممالک پاکستان اور افغانستان کو پہنچا تھا ۔
نائن الیون کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ٹوپی ڈرامے پر اب تک دنیا بھر میں
بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود امریکہ کے بعض
باضمیر صحافیوں نے اس امریکی ڈرامے کی تفصیلات ثبوتوں کے ساتھ پیش کرکے
امریکہ کے منافقانہ چہرے اور کردار کو ساری دنیا میں ننگا کرکے رکھ دیا تھا
جبکہ مسلم ممالک کے باشعور ،باضمیر اور جانباز صحافیوں نے تو شروع سے ہی
امریکہ کے خلاف محاظ کھڑا کرکے نائن الیون کے واقعے کا ذمہ دار کسی بھی
اسلامی ملک کو قرار دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے اس بات سے بھی پردہ
اٹھادیا تھا کہ نائن الیون کا واقعہ مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی رچائی ہوئی
ایک سازش ہے جس کے تمام حقائق بہت جلد ساری دنیا جان جائے گی اور پھر ایسا
ہی ہوا۔
جو ملک نائن الیون جیسا ڈرامہ رچا کر پوری دنیا میں تبدیلی لا سکتا ہے
،مسلمان ممالک پر چڑھائی کرسکتا ہے کیا وہ ’’ کروناوائرس‘‘ کا خوف پھیلا کر
پوری دنیا کو اپنی مرضی کے تابع نہیں کرسکتا ۔ویسے بھی یہود و نصاریٰ کے
دلوں میں ظاہری اور باطنی طور پر مسلمانوں کے خلاف جو بغض بھرا ہوا ہے وہ
اس کا اظہار کسی نہ کسی طریقے سے کرتے ہی رہتے ہیں جیسا کہ مغربی دنیا کی
جانب سے کئی بار گستاخانہ خاکوں کی صورت میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو
جان بوجھ کر ٹھیس پہنچائی گئی اس کے علاوہ آج کل دنیا بھر کے نوجوانوں میں
شوق کے ساتھ کھیلے جانے والے ایک ویڈیو گیم ’’PUBG ‘‘ پب جی ، میں دانستہ
طور پر خانہ کعبہ کے ماڈل کو کلاشنکوف ٹائپ ایک گن سے نشانہ بنا کر اس پر
گولیاں برساتے ہوئے اپنا اہم ٹارگٹ مکمل کرنے کا عمل ہے جو کہ اس گیم کا
ایک لازمی حصہ ہے جسے ٹارگٹ کیے بغیر اس گیم کو مکمل نہیں کیا جاسکتا اور
چونکہ مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ یعنی خانہ کعبہ کو ٹارگٹ کرنا ضروری
ہے اس لیے مسلمان ممالک میں بھی جو لوگ پب جی گیم کھیلتے ہیں انہیں ایسا
کرنا پڑتا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے بنیادی مذہبی عقائد کے یکسر
خلاف ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اپنے بغض اور
دشمنی کو نکالنے کے لیے یہود ونصاریٰ کس لیول تک جاسکتے ہیں۔اسی طرح کی اور
بھی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن کے ذریعے کفریہ طاقتوں نے مسلمانوں کے
مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
مغربی ممالک کی جانب سے متذکرہ بالا چند مسلم دشمن اقدامات سے ان لوگوں کے
مسلمانوں کے ساتھ باطنی بغض کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہذا یہود
ونصاریٰ کی اس مخصوص ذہنیت کے تناظر میں’’ کرونا وائرس‘‘ کے حوالے سے مسلم
دنیا کو اب یہ بات پوری طرح سمجھ میں آجانی چاہیے کہ کرونا وائرس کے نام پر
خوف و ہراس اور دہشت کا ماحول پیدا کرکے لوگوں کو ان کے گھروں تک محصور
کرکے اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو ویران کرکے درحقیقت یہود ونصاری اپنے
دیرینہ منصوبے پر عمل پیرا ہیں اور اس بار انہوں نے کرونا کا ڈرامہ اس
مہارت ،چالاکی اور عیاری سے رچایا کہ شروع میں تقریبا‘‘ تمام مسلم ممالک کے
لوگ بھی اسے ایک انتہائی خطرناک وبائی مرض سمجھ کر اس کی ہلاکت خیزی سے
بچنے کے لیے مغربی دنیا کے پیدا کردہ پروگینڈہ سے متاثر ہوکر ہر وہ کام
کرنے پر آمادہ ہوگئے جو مغرب نے چاہا لیکن رفتہ رفتہ سب کو سب کچھ سمجھ میں
آنے لگا اور جب دنیا اس ٹوپی ڈرامے کو سمجھنے لگی تو ان کفریہ طاقتوں نے
،خوف،دہشت،دھونس ،دھمکی اور لالچ سمیت ہر حربہ استعمال کرکے مسلم ممالک کے
حکمرانوں کو اپنا ساتھ دینے کے لیے تیارکرلیااور سب سے حیرت انگیز بات مکہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس مقامات ، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ﷺ کی بندش
تھی جس کے بعد سارے عالم اسلام میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی تالہ بندی
کی مہم شروع ہوئی جس میں کفریہ طاقتوں کو توقع کے مطابق کامیابی ملی کہ
اکثر مسلم ممالک میں یہودو نصاریٰ کی جانب سے کرونا وائرس کے خوف کے نام پر
عائد کردہ تمام پابندیاں بے چوں و چرا قبول کرلی گئیں البتہ پاکستان میں ان
عالمی پابندیوں پر اس طرح عمل درآمد نہیں ہوسکا یا نہیں کروایا جاسکا جیسا
کہ دیگر مسلمان ممالک میں ہوا جس کی وجہ یہاں کے عوام کی قوت ایمانی ، اﷲ
پر مکمل بھروسہ اورموت کا خوف نہ ہونا تھا اسی وجہ سے کرونا وائرس کے ڈرامے
کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج اور مذاہمت بھی پاکستان میں ہی نظر آئی البتہ
یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے صوبے سندھ کے وزیراعلیٰ نے عوام کی آواز پر
لبیک کہنے یا وفاقی حکومت کی کرونا پالیسی کو فالو کرنے کی بجائے اپنے
آقاؤں اورغیرملکی طاقتوں کا ساتھ دیا جس کی سب سے بڑی وجہ ذاتی مفادات اور
مراعات حاصل کرنا تھا۔یہی وجہ ہے کہ خصوصاً سندھ میں کرونا وائرس کے نام پر
سندھ حکومت کی جانب سے جو غیر ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں وہ سندھ اور خاص
طورپر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے باشندوں کے لیے قابل قبول نہیں
ہیں کیونکہ کراچی کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سمجھ کر جو سلوک اس معاشی
حب کے ساتھ کیا جارہا ہے اس کے نتائج آج نہیں تو کل بہت بھیانک نکل سکتے
ہیں ۔
سندھ میں کرونا وائرس کے نام پر اس وقت مفادات ، مراعات،امداد اور سستی
شہرت حاصل کرنے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ ہمارے معاشرے
میں موجود کالی بھیڑوں پر مشتمل طبقہ کہیں نہ کہیں اس کرونا وائرس کے نام
پر اپنی جیبیں بھر رہا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اس مکروہ فعل میں سندھ
حکومت نہایت بے شرمی کے ساتھ سب سے آگے نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ سندھ
حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کی کرونا پالیسی سے انکار کرتے ہوئے اپنے من
پسند قوانین پر بزور طاقت عمل کروایا جارہا ہے اور کرونا وائرس کی آڑ میں
چھوٹے اور بڑے تاجروں سے کاروبار کھولنے کی اجازت دینے کے نام پر بڑی بڑی
رقوم پرمشتمل بھتہ وصول کیا جارہا ہے جس کے بہت سے ثبوت آڈیواینڈ ویڈیو
کلپس کی شکل میں آج کل سوشل میڈیا پر دیکھے جاسکتے ہیں جبکہ مساجد کو آباد
رکھنے کا مطالبہ کرنے والوں کو بھی مختلف طریقوں سے ہراساں کرکے اس بات پر
مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ سندھ حکومت کی خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ کرونا
پالیسی پر بے چوں و چرا عمل کریں جبکہ ساتھ ہی حکومت سندھ کی جانب سے کرونا
وائرس میں مبتلا مریضوں اور کرونا وائرس سے مرنے والے افراد کے بارے میں
انتہائی مبالغہ آمیز پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور میڈیا کے ذریعے کرونا
وائرس کے حوالے سے حقائق بتانے کے بجائے من گھڑت باتوں کو نمایاں کرکے پیش
کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے بھی بتانے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے جو انشااﷲ
میں اپنے اگلے کسی کالم میں تحریر کروں گا۔
آخر میں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت عطا فرماتے ہوئے
انہیں پیسے اور اقتدار کی ہوس سے نجات عطافرمائے تاکہ یہ لوگ دو نمبری کرکے
پیسہ کمانے کے بجائے عوامی مسائل کو حل کرنے کا سوچیں ناکہ کرونا وائرس کی
آڑ میں چھپے ہوئے مفاد پرستانہ عزائم کو پورا کرنے کے لیے عوام الناس کی
روزمرہ کی زندگی کوہی اجیرن بنا کر ان کی بددعائیں سمیٹ کر اپنے لیے جہنم
کی آگ اکٹھا کریں اور وہ مرنے کے بعد دوزخ کی دہکتی ہوئی انگیٹھی میں جھونک
دیے جائیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
(آمین)۔
کرونا وائرس کی آڑ میں چھپے ہوئے عزائم !
تحریر : فرید اشرف غازی
05-05-2020
|