مہذب دنیا آخر آج اتنی خاموش کیوں ہے؟۔

آج سے تقریباً 9ماہ پہلے دنیا کے مظلوم ترین خطے میں دنیا کے دور حاضر کے ہٹلر مودی نے جنت نظیر وادی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اُس سے چھین کر وہاں دنیا کا طویل ترین کرفیو نافذ کیا جو ابھی تک جاری ہے اس کے بعد مکار مودی کی سوچ صرف یہی تک محدود نہ تھی بلکہ اُس نے مسلمانوں کو مزید نقصان پہنچانے کیلئے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون پاس کروایا اور مسلمانوں کی نسل کشی کی ایک اور سازش چلی پھر دہلی فسادات کروائے اور اب بھارتی مسلمانوں پر کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا الزام لگا دیا گیا ہے ۔بہر حال وادی کشمیر میں ٓآج تاریخ کا بدترین اور طویل ترین کرفیو نافذ ہے ، جب یہ کرفیو نافذ کیا گیا تو پوری دنیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی تھی ، کسی کو بھی معصوم اور نہتے کشمیریوں کی آہ و پکار سنائی نہیں دے رہی تھی مگر پھر وقت گزرتا گیا اور ایک نئے ناول ’’کرونا وائرس‘‘ نے دنیا میں اپنے پنجے گاڑے اور ایسی تباہی کی کہ پوری دنیا آج لاک ڈاؤن تلے زندگی گزاررہی ہے ، اب یقینا پوری دنیا کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ لاک ڈاؤن کسے کہتے ہیں ؟ اس کے تباہ کن اثرات کیا ہیں ؟ اور یہ معمولات زندگی کو کیسے متاثر کرتی ہے ؟ بلاشبہ ہر کسی کو اس بارے میں پتا چل گیا ہوگا اور اگر کرفیو کا اضافہ کر دیا جائے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ کسی بھی علاقے میں رہنے والوں کو کن مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بدقسمتی سے گزشتہ سال 5اگست 2019سے لے کر تادم تحریرمقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو اسی لاک ڈاؤن اور کرفیو کا سامنا ہے ، اس لاک ڈاؤن کا مقصد کشمیریوں کو ان کی جدوجہد آزادی سے روکنا اور ان کی نسل کشی کرنا ہے ، یہ وہ لاک ڈاؤن ہے جو خالصتاً مذہبی بنیاد پر کیا گیا ہے کیونکہ کشمیریوں کا سب سے بڑا جرم ان کا مسلمان ہونا ہے ۔نریندر مودی نے یہ کرفیو اسی وجہ سے لگایا ہے تاکہ وہ اپنے اکھنڈ بھارت کے خواب کو پورا کرسکے ، کیونکہ بھارتی مسلمان اور نہتے کشمیری ہی اُس کے راستے میں سب سے بڑا کانٹا ہیں ۔ اس منصوبے میں بھارت صرف اکیلا نہیں بلکہ مسلم دشمن عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر نریندرمودی مسلم نسل کشی کے منصوبے پر عمل کر رہا ہے۔ نریندرمودی مقبوضہ کشمیر اور بھارت سے مسلمانوں اور ان کی تاریخ کو مٹانے کے درپے ہے۔ دنیا بھر سے مسلمانوں کے دشمن اس کا ساتھ دے رہے ہیں جن میں امریکہ اسرائیل وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ دنیا کی تاریخ میں یہ بات بہت واضح ہے کہ ہر دور میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی بنیاد پر ہی جنگیں کی گئی ہیں جو آج بہت مہذب بنے ہوئے ہیں یہ بھی اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیشہ مسلم دشمنی میں بڑے بڑے اتحاد نظر آئیں گے۔ یہ خود مفادات کے لیے ملکوں کو تباہ و برباد کرتے رہے ہیں۔ ایسا بالکل ممکن نہیں ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے تقریباً80 لاکھ مسلمانوں جو کہ گزشتہ 72سالوں سے جدوجہد کررہے ہیں ، کی زندگی کو تباہ و برباد کر دیا جائے اور اس کا ردعمل نہ آئے،کشمیری گزشتہ 72سالوں سے بھارتی مظالم کو اس لئے نہیں سہ رہے تھے کہ وہ آئندہ اس تحریک کو ختم کردیں گے بلکہ یہ تحریک تو آزادی کشمیر تک جاری رہے گی ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ80 لاکھ سے زائد انسانوں کو صرف مسلمان ہونے پر سزا دی جاتی رہے اور کوئی ردعمل نہ آئے ساری دنیا جان لے کہ یہ خاموشی سب کو بھاری پڑے گی۔ ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا کہ فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں کا خون بہتا رہے اور کفار کا مقابلہ کرنے اور انہیں للکارنے والا کوئی نہ آئے کبھی تو ایسا ضرور ہو گا کہ ان کمزور مسلمانوں کی مدد کے لیے کوئی اٹھے گا پھر ان ظالموں کے ساتھ ان کی زبان میں بات کی جائے گی۔ آج مسلمانوں کی گردنیں کاٹنے والے یاد رکھیں کہ انہیں اس ظلم کا حساب دینا پڑے گا ۔پاکستان نے ہمیشہ سے ہی مسئلہ کشمیر پر اپنا موقف کو بہت واضح رکھا ہے، ہمیشہ سے ہی بھارتی اقدامات کی مخالفت کی اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کی غیر مشروط حمایت کی ہے، کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا مطالبہ کیا ہے، کشمیریوں کی طویل ترین جدوجہد آزادی کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کیا ہے لیکن ان سب اقدامات کے باوجود آج تک دنیا نے مسئلہ کشمیر حل کرنے اور کشمیریوں کو ان کا حق دینے کے لیے عملی اقدامات نہیں کئے ، اقوام متحدہ تو صرف بیانات پر بیانات دی جارہی ہیں ۔یہ خاموشی اور بے حسی واضح کرتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے عالمی امن کے نام نہاد دعویدار اس مسلم نسل کشی میں بھارت کے حمایتی ہیں اور ہم کبھی ایسا ہونے نہیں دیں گے ۔ اقوام متحدہ اگر اس بارے کچھ نہیں کرسکتی تو کچھ نہ کرے مگر یہ بات جان لے کہ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کیلئے ہر حد تک جاسکتا ہے ہر آپشن چن سکتا ہے چاہے وہ جنگ کا آپشن ہی کیوں نہ ہو۔
 

Syed Noorul Hassan Gillani
About the Author: Syed Noorul Hassan Gillani Read More Articles by Syed Noorul Hassan Gillani: 44 Articles with 33521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.