کورونا جیسے خطرناک و جان لیوا مرض نے پوری دنیا کو اپنی
لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چین کے شہر ووہان میں تباہی پھیلانے کے بعد اس مہلک
وائرس نے یورپ میں اپنے خونی پنجے گاڑ ھے اور بعد میں چھوٹے سے زرے نے
امریکہ جیسی سپر پاور کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ کورونا
جسے دنیا بھر میں کوڈ19کا نام دیا گیا ہے اس سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں
رہا ۔ واشنگٹن ، لندن سے لیکر لاہور تک اس کے وار جاری ہیں ۔ پاکستان میں
متاثرہ مریضوں کی تعداد 000 8سے زیادہ اور اموات50 1سے بڑھ گئی ہیں۔ہمارے
وزیر اعظم پر آشوب دور میں ملک کی غریب عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ۔ کورونا
اور بھوک دونوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں
کہ وزیرِ اعظم غریب، بے سہارا اور نچلے طبقے کا درد سمجھتے ہیں او رِ ملکی
معیشت کا پہیہ چلائے رکھنے کے لیے پر عزم ہیں۔ صحت انصاف کارڈ، احساس
پروگرام، انصاف امداد پروگرام کے زریعے نچلے طبقے کو ریلیف دیا جارہا ہے
ہیں۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ لاک ڈاؤن کے باعث کوئی بھی بھوکا نہ رہے
بلکہ نچلے طبقے کو احساس امداد پروگرام کے تحت 12ہزار روپے فی خاندان
فراہمی ایک احسن اقدام ہے ۔ دراصل احساس کا جذبہ انسانی رشتوں کو مضبوط
بناتا ہے،نئے پاکستان کی بنیاد اِسی احساس پر قائم ہے۔ درحقیقت احساس کفالت
امداد کی فراہمی ‘‘ریاست کے ماں’’ ہونے کی سوچ کے تحت ایک اور قدم ہے اور
یہ فلاحی ریاست کی جانب پیشرفت ہے۔ وزیر اعظم ایسی فلاحی ریاست کے خواہاں
ہیں جہاں وسائل محروموں پر خرچ ہوں۔عوامی ترقی اور خوشحالی ہی عمران خان کا
نصب العین ہے اور وزیر اعظم کے حالیہ عوامی فلاح و بہبود کے لئے عملی
اقدامات پسے ہوئے طبقات سے وابستگی کا ثبوت ہیں۔ بلاشبہ احساس کفالت
پروگرام کے کامیاب اجراء پر وزیر اعظم مبار کباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے
عوام سے کیا گیا ایک ن اور وعدہ پورا کر دکھا یا اور مشکل کی اس گھڑی میں
اپنے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑا ۔ کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران
غریب اور مزدور طبقے کا چولہا جلتے رہنے کے لئے ،متوسط طبقے کو معاشی طور
پر ریلیف دینے کے لیے سیاست سے بالاتر ہو کر شروع کیا گیا پروگرام کے تحت
فی خاندان کو 12 ہزار روپے مالی امداد دی جارہی ہے۔احساس کفالت پروگرام کے
تحت مستحق افراد تک رقم کی ترسیل بائیومیٹرک اور آٹومیٹڈ سسٹم کے تحت کی
جارہی ہے جس میں نچلے طبقے کو رقم کے حصول کے لئے نہ تو کسی سفارش کی ضرورت
ہے اور نہ ہی کسی کے پاس جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔مالی امداد وصول کرنے والی
ایک خاتون کا نیک تمناوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم غریب لوگ ہیں
میرا شوہر بیروزگار اور معذور ہے ایک ماہ سے ہمارے گھر میں کچھ نہیں تھا نہ
آٹا نہ چینی اور نہ ہی گھی، وزیراعظم عمران خان نے ہمارا احساس کیا جس کا
اجر اﷲ تعالی دے گا‘‘۔تعمیراتی سیکٹر کی بحالی کے ریلیف پیکج سے یقینا
کورونا کی بدولت بے روزگا ہونے والے دیہاڑی دار مزدور طبقہ مستفید ہوگا۔
براہ راست معاشی سرگرمیوں کی بحالی، سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا
ہونگے۔کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے جہاں عالمی معیشت شدید کساد بازاری کا
شکار ہو رہی ہے وہیں پاکستان کی معیشت بھی سخت تنزلی کا شکار ہے۔ کورونا
وائرس سے عالمی اقتصادیات کو ہونے والے نقصانات کا حجم 4 ٹریلین ڈالرز سے
بھی زائد کا خدشہ بد ستور موجود ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کی شرح نمو بھی
2.4 فیصد سے کم ہو کر 1.1 فیصد تک گر جائے گی اور رواں سال مہنگائی کی شرح
بھی 11.5 فیصد تک برقرار رہنے کے امکانات ہیں۔باوجود مشکل حالات کے وزیر
اعظم کے اٹھائے گئے اقدامات جرات مندانہ ہیں ۔ جبکہ آٹا اور چینی کی مصنوعی
قلت پیدا کر کے اربوں روپے کمانے والے شوگر مافیا کے متعلق سیاسی مصلحت کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرنا بھی ان کے
بڑے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ بڑے بڑے شوگر ملز کے
مالکان نے حکومتی اہلکاروں سے ملی بھگت کر کے 100 ارب روپے سے زائد عوام کی
جیبوں سے نکلوائے۔اس پر وزیر اعظم نے غیر جانبداری کو ثبوت دیتے ہوئے صرف
قوم مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیقاتی رپورٹ کو بھی عام کر دیا ۔وزیر
اعظم عمران خان کے بلند ویژن کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے
کہ انہوں اس سنگین حالات میں ہمسایہ مسلم ممالک کا بھی خیا ل ہے یہی وجہ ہے
کہ انہوں نے جہاں غریب ممالک کے قرضے معاف کرنے کا مطالبہ کیا وہاں برادر
ہمسائے ملک ایران پر سے معاشی پابندیاں اٹھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔وزیر
اعظم عمران خان کے مطابق ایران جیسے ملک سے اگر پابندیاں ہٹا لی جاتی ہیں
تو وہ کورونا وائرس سے کافی حد تک نبرد آزما ہو سکتا ہے۔وزیر اعظم عمران
خان کو پورا پورا ادراک ہے ترقی پذیر ممالک میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے
جس کے باعث وہ کورونا وائرس کا زیادہ دیر مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ وزیر
اعظم نے عالمی اداروں سے مطالبہ بجا ہے کہ کورونا وائرس جیسی وباء سے نمٹنے
کے لیے غریب اور ترقی پذیر ممالک کے قرضے معاف ہونے چاہئیں۔ واضح رہے کہ
کورونا وائرس کے باعث پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، جو 170 سے زائد
ممالک میں پھیل چکا ہے کورونا وائرس کی بڑھتی تعداد نے شہریوں کی جان کو
خطرے میں ڈا ل دیا ہے۔ مہلک وائرس نے ہر جگہ کو متاثر کیا ہے۔ نہ صرف ترقی
پذیر بلکہ ترقی ممالک کی معیشت کو بھی جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اسٹاک
مارکیٹس بھی کریش کر چکی ہیں۔دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی گراوٹ نے
بھی ہلچل مچادی ہے ۔ معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت تیل کی قیمتوں کی
پیداشدہ موجودہ صورتحال میں عوام کے لیے بڑے ریلیف کا سامان کرسکتی ہے اور
ملکی معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے بھی نکال سکتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ
حکومت ایک عوام دوست رویے کے ساتھ ’’تیل کی ریلیف‘‘ کے پیش نظر اپنے
اقتصادی پروگرام کو معاشی ریلیف اور منشور کی تکمیل کے لیے بھی استعمال
کرسکتی ہے، مثلاً حکومت بجلی اور گیس کے بلوں میں عوام کو ریلیف دے سکتی
ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان سفید پوشوں کو بھی تلاش کیا
جائے جو اپنی عزت نفس اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں ان کیلئے
میری عوام دوست وزیر اعظم سے مودبانہ گزارش ہے کہ ایسے خاندانوں کے گھر کے
دروازے پر مالی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔
|