چند ماہ پہلے اسمبلی فلور پر ایک وفاقی وزیر نے کہا تھا
ایک ایم این اے نوازشریف دور میں اپنی فیکٹری کا بل دس ہزار دیا کرتے تھے
اب انہیں ایک کروڑ دینا پڑرہاہے جبکہ ایک سابقہ مفرور وزیر ِخزانہ اسحاق
ڈارنے اپنے دور ِ حکومت میں اسمبلی فلورپر ایک سنگین بات کہہ ڈالی نہ جانے
یہ سچی بات ان کے منہ سے کیسے نکل گئی کہ ’’ دنیا سمجھتی ہے پاکستان کے
ارکان ِ اسمبلی ٹیکس چورہیں تمام امراء اپناٹیکس ایمانداری سے دیں توبیرونی
قرضوں کی ضرورت نہیں پڑے گی ٹیکس چوری قتل سے بھی بڑا جرم ہے‘‘ جس پر اس
وقت ایک ہنگامہ برپا ہوگیاکسی نے کہا ہمارا استحقاق مجروح ہوا ہے،کوئی بولا
پارلیمنٹرین کو بدنام کیا جارہاہے،کسی نے اسے جمہوریت پر حملہ قرار دیدیا
یقینا انہوں نے ایک اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کیا تھا پاکستان کے بیشتر ارکان
ِ اسمبلی خودبھی ٹیکس نہیں دیتے بلکہ ان کے چمچوں کے چمچے بھی ایسا کرنا
اپنا حق سمجھتے ہیں یہ معاملہ آج بھی ایسا ہی ہے
بناہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے ؟
اس ملک کے زمینی حقائق کا بغور جائزہ لیا جائے تو نتیجے کے طور پر یہ بات
کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے بااثر لوگ ہی اصل میں مسائل کی اصل وجہ ہیں
جنہوں نے آج تک اس ملک کا کوئی سسٹم نہیں بننے دیا فیوڈل لارڈ ہوں یا
درگاہوں سے وابستہ سیاستدان، ارکان ِ اسمبلی ہوں یا سرمایہ دار یا
پھربیوروکریسی اور افسر شاہی پر مشتمل اشرافیہ جس نے پاکستان کا پورے کا
پورا سسٹم یر غمال بنا رکھا ہے ان طبقات کی آپس میں گہری رشتہ داریاں ہیں
درحقیقت یہ اندرسے ایک ہیں جب بھی ان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے یہ متحد ہو
جاتے ہیں یہ پوری ایک چین ہے کوئی اول تو اس سسٹم میں شامل ہی نہیں ہو سکتا
متوسط طبقہ کا کوئی فرداس میں شامل ہو بھی جائے تو وہ بھی ان جیسا ہو
جاتاہے یہ وہی لوگ ہیں جو زرعی ٹیکس لگانے کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔۔جو قوم
کو اپنی اصل آمدن بتانا بھی گوارا نہیں کرتے سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے
والوں کو عام آدمی کی مشکلات کا کیا احساس ہو سکتا ہے جس طرح ساون کے اندھے
کو ہرا ہرا سوجھتاہے اسی طرح اشرافیہ کو بھی لوگوں کے معاملات سے
سروکارنہیں ان حالات میں پاکستان میں عام آدمی کسی بھی طریقے سے خوشحالی کا
خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکتا عام شہریوں میں کوئی بہت زیادہ محنت
کرلے۔یا۔اس کے فیملی ممبربیرون ِ ممالک ملازمت یا کاروبار بھی کرلیں اس کی
دو تین نسلوں کا مقدر پھربھی غربت ہے۔۔ ایک دو تین نہیں ہر ایک وزیر ِخزانہ
نے ہمیشہ اس بات پر زور دیاہے کہ ہمیں ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ
کرناہوگا تاکہ ملک کے وسائل بہترہو سکیں لیکن یہ نیک کام آج تک نہیں کیا
گیا ہاں البتہ ٹیکس دینے والوں پر مزیڈٹیکسز لگا دئیے جاتے ہیں موجوڈہ
خکومت نے تین بار منی بجٹ دے کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کرڈالا عوام پر
اربوڈ کے نئے ٹیکسز لگائے گئے پھر بھی خزانے کا پیٹ نہ بھرا آخرکار اسد عمر
جیسے ماہر ِ معاشیات کو مستعفی ہوناپڑا۔اس ضمن میں سچی اورکھری بات یہ ہے
کہ زرعی ٹیکس لگانے سے ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی لیکن یہ
ٹھوس حکمت ِ عملی ،بہتر پلاننگ اوراچھی منصوبہ بندی کی متقاضی ہے زرعی ٹیکس
وصول کرنا 1973 ء کے آئین کے تحت صوبوں کی صوابدیدہے ماضی میں کچھ ارکان ِ
اسمبلی کی خواہش تھی کہ زرعی ٹیکس کا نظام وفاق کے زیر ِ انتظام ہو نا
چاہیے جس پر مسلم لیگ ن کی گذشتہ حکومت نے1998ء میں زرعی ٹیکس کا نیا مسودہ
تیار کیا جسے اس وقت چاروں صوبائی اسمبلیوں سے پاس بھی کروایا گیااسی سال
وفاقی حکومت نے زرعی ٹیکس وصول بھی کیا لیکن فیوڈل لارڈ، بڑے زمینداروں اور
بیوروکریسی کی ملی بھگت سے اعدادوشمار کی ایسی جادوگری دکھائی گئی کہ پنجاب
میں محض75 کروڑاور سندھ میں صرف 70 کروڑروپے وصول کئے جاسکے جبکہ با خبر
لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومتی خرچہ اس سے زیادہ ہو گیا یعنی ‘‘ٹکے کی
بڑھیاآنہ سر منڈھوائی‘‘۔۔۔یوں وفاق نے اگلے سال زرعی ٹیکس کو بھاری پتھر
سمجھ کرچھوڑ دیا
اپنے مجبور تقدس کے سہارے ساغر
دیر و کعبہ کے خداؤں سے لپٹ کر رولوں
یوں اب تلک کوئی حکومت عملاً زرعی ٹیکس لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکی
اسمبلی میں اس بارے میں بات ہی نہیں کی جاتی یا پھر اسمبلی ہاؤ ہو کا
شکارہوکر مچھلی منڈی بن جاتی ہے۔۔۔حکومت بھی یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ
پاکستان کا اصل مسائل میں بڑا مسئلہ غربت ہے کہا جاتا ہے کہ بیشتر جرائم
غربت کی کھوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ملک کے طول و عرض میں ہونے والی چوری ،ڈکیتی،
راہزنی اور قتل و غارت کی بڑی وجہ غربت ہے جس سے سماجی ناانصافیاں اور دہشت
گردی میں مسلسل اضافہ ہے ایک عالمی ادارے کی خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے اس
وقت پاکستان میں 75%سے زائد شہری خط ِ غربت سے بھی نیچے زندگی بسرکررہے ہیں
ہر وزیر ِ خزانہ نے برملا اس بات کا اعتراف کرتے کیا ہے جب تک ٹیکس چوری
ختم نہیں ہوتی ملک معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوگااب سوال یہ پیداہوتاہے کہ
ٹیکس چوری ختم کرنے کااختیار کس کے پاس ہے؟ کیا کوئی عا م آدمی ایسا
کرسکتاہے۔
کون سنے میری فریاد ؟
منصف سارے بہرے ہیں
ان حقائق کی روشنی میں اگر’ دنیا یہ سمجھتی ہے پاکستان کے ارکان ِ اسمبلی
ٹیکس چورہیں۔تو کیا ان ٹیکس چوروں کو ئھی مطلق احساس نہیں ہوتا کہ دنیا ان
کے بارے میں کیا کہہ رہی ہے ۔ اسی طرح ایک چور اپنے چور بیٹے کے ساتھ کہیں
جارہا تھا کسی نے انہیں دیکھ کر اپنے ساتھی سے کہا’’ چور جارہے ہیں ۔یہ سن
کر چور کے بیٹے کو بڑا غصہ آیا وہ لڑنے کی نیت سے آگے بڑھا تو اس کے باپ نے
کہا چھوڑو!کہنے دو ۔۔۔ کہنے سے کیا ہوتاہے؟ ۔۔شاید ان ٹیکس چوروں نے بھی
اسی فارمولے پر عمل کرلیاہے کہنے دو ۔ کہنے سے کیا ہوتاہے؟ بہرحال ایک بات
ہے اگر کسی وزیر ِخزانہ نے واقعی معاملات کچھ بہتر کرلئے تو نہ صرف ملکی
معیشت میں استحکام آئے گا بلکہ غربت کم ہونے میں بھی مدد ملے گی اور انہیں
اسمبلی فلور پر یہ بھی نہیں کہنا پڑے گا ’’ دنیا سمجھتی ہے پاکستان کے
ارکان ِ اسمبلی ٹیکس چورہیں‘‘ نئے وزیر ِ ِخزانہ عبدالحفیظ شیخ اپنی فیلڈ
کے پرانے کھلاڑی ہیں اب دیکھئے وہ اس ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے
کیا کرتے ہیں انہیں بھی چاہیے کہ ارکان ِ اسمبلی کو ٹیکس نیٹ میں لائیں۔
|