آرمی جنرل کی کمرہ عدالت میں آمد پر چیف جسٹس نے کرونا
وائرس کو وباء قرار دیدیا
کمرہِ عدالت میں آج رش تھوڑا زیادہ تھا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹننٹ
جنرل محمد افضل نیلی شرٹ، نیلی ٹائی اور نیلے سوٹ میں مکمل میچنگ کے ساتھ
دولہے کی طرح نشستوں کی پہلی قطار میں بیٹھے تھے اور 2 باوردی جوان بھی اُن
کی نشست سے کچھ فاصلے پر کورٹ روم نمبر ون میں موجود تھے جبکہ باقی کافی
سارا عملہ اپنے جرنیل کی طرح سول کپڑوں میں ہی بیٹھا تھا
چیف جسٹس بولنا شروع ھوئے جبکہ لارجر بینچ کے باقی چار ججز اٹارنی جنرل کی
طرف دیکھ رہے تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پیسے کیسے خرچ ہورہے ہیں آپ
لوگ تو پیسے سے کھیل رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے حکومت کو ہدایت دی کہ پاکستان
بہت غریب مُلک ہے پیسہ عقلمندی سے لگانا چاہیے۔
چیف جسٹس کے اِن ریمارکس کے دوران چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹننٹ جنرل محمد
افضل اپنی نشست سے اٹھ کر عدالتی روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے چیف جسٹس کو
بتایا کہ یہ فوج نے امپورٹ کی ہے اور یہ فیکٹری ایس پی ڈی کا حصہ ہے۔ چیف
جسٹس نے سوال کیا کہ یہ ایس پی ڈی کیا ہے؟ لیفٹننٹ جنرل نے جواب دیا کہ یہ
اسٹریٹجک پلان ڈویژن ہے۔ چیف جسٹس نے سوال پوچھا کہ یہ ایک ہی مشین منگوائی
ہے تو لیفٹننٹ جنرل محمد افضل نے ہاں میں جواب دیا۔ چیف جسٹس نے چیئرمین
این ڈی ایم سے سوال پوچھا کہ کیا آپ کے علاوہ بھی لوگ مقابلے میں مارکیٹ
میں موجود ہیں؟ لیفٹننٹ جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں ہیں۔ (لیکن نہ تو
لیفٹننٹ جنرل افضل خان نے وضاحت کی کہ فوج کے علاوہ دیگر ادارے کون سے ہیں
اور نہ ہی عدالت نے اُن سے تفصیل مانگی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے آئین توڑنے والے سابق آمر آرمی چیف جنرل ایوب
خان کو اِس موقع پر خصوصی کریڈٹ دیا کہ انہوں نے پاکستان کو ایک صنعتی مُلک
بنا دیا اور مُلک کا 80 فیصد ریونیو صنعتی شعبے سے آرہا تھا۔ یاد رہے
وزیراعظم عمران خان بھی فوجی آمر جنرل ایوب خان کے فین ہیں۔
چیف جسٹس نے اِس موقع پر لیفٹننٹ جنرل سے سوال پوچھا تھا کہ آپ نے جو
پاکستان کے بیرونِ مُلک سفارتخانوں کو پچاس ملین ڈالر جاری کیے تھے وہ کھپ
گئے ہیں؟ لیفٹننٹ جنرل نے کہا جی میں عدالت کو بتا دیتا ہوں پچاس ملین ڈالر
کہاں کھپے ہیں۔ چیف جسٹس جنہوں نے کل این ڈی ایم اے کے ایک سول نمائندے سے
25 ارب کے ایک ایک خرچ کی تفصیل پر بحث کی تھی اور سرکاری فنڈز کے غلط
استعمال پر شدید سرزنش کی تھی، آج این ڈی ایم اے کے فوجی سربراہ کو
تفصیلات بتانے سے روکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بس پچاس ملین ڈالر کھپ گئے ہیں
تو کافی ہے
سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اب جون کے مہینے میں کورونا
وائرس کی ایک بڑی لہر آئے گی اور صورتحال بدترین ہوسکتی ہے
اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ لیکن اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ
پاکستان کی سب سی بڑی عدالت کا سربراہ یہ کہہ رہا ہے کہ کورونا وبا نہیں
ہے۔
تمام صحافیوں کو چیف جسٹس کے لیفٹننٹ جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل سے لہجے کا فرق
واضح نظر آرھاتھا
چیف جسٹس گلزار احمد نے چیئرمین این ڈی ایم اے کو معاونت کے لیے روسٹرم پر
بُلا لیا کہ آپ کو سب پتہ ہے آپ بتائیں۔ چیف جسٹس نے جو پہلے بھی این ڈی
ایم اے کے فوجی سربراہ پر کافی مہربان نظر آرہے تھے، چیئرمین این ڈی ایم
اے لیفٹننٹ جنرل محمد افضل کی تعریف کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ لیفٹننٹ
جنرل صاحب آپ بہت سمجھدار اور زیرک انسان ہیں۔ چیف جسٹس نے لیفٹننٹ جنرل
مُحمد افضل کی تعریف آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ آپ دور اندیش بھی ہیں اور
آپ کو اپنا کام آتا ہے لیکن آپ کے نیچے کُچھ لوگ صحیح کام نہیں کررہے
آپ کو اُن پر نظر رکھنی ہوگی ورنہ وہ آپ کی بدنامی کا باعث بنیں گے
چیف جسٹس کی طرف سے لیفٹننٹ جنرل مُحمد افضل کی تعریف میں ادا ہوتے ریمارکس
کے دوران تمام صحافیوں کے چہروں پر معنی خیز مُسکراہٹ تھی
تمام صحافی چیف جسٹس کے لیفٹننٹ جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل سے لہجے کا فرق
محسوس کرسکتے تھے۔
چیف جسٹس نے اپنے بائیں طرف موجود جسٹس سردار طارق مسعود سے مُشاورت شروع
کر دی۔ تقریباً پانچ منٹ جاری رہنے والی مُشاورت کے بعد چیف جسٹس نے
حُکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا۔ چیف جسٹس نے آرڈر میں لکھوایا کہ جیسا کہ
حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل نے بتایا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس
پاکستان میں وبا کی صورت موجود ہے اور اُس کی ابھی ایک بدترین لہر آنا
باقی ہے اور حکومت اُس کا مقابلہ کر رہی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس بالکل موجود ہے اور اِس سے بڑے
پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں اور لوگ مُتاثر بھی ہوئے ہیں۔ بہت امکان ہے کہ
یہ وائرس مزید بدترین شکل اختیار کرے اور میڈیکل ایمرجنسی لگانے کی ضرورت
پڑ جائے جس کے لیے بہت فنڈز اور وسائل درکار ہوں۔ پاکستان کی معیشت اتنی
طاقتور نہیں کہ اِس میڈیکل ایمرجینسی کے لیے درکار وسائل کا بوجھ اُٹھا
سکے۔
چیف جسٹس نے اُس کے فوجی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل کے لیے بھی حُکمنامہ میں
خصوصی طور پر لکھوایا کہ وہ چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹننٹ جنرل محمد افضل
کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں اور نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔
کمرہِ عدالت سے باہر نکلے تو صحافی ہلکا پُھلکا مذاق کررہے تھے شاید سب کو
بخوبی احساس ہوگیا تھا کہ کل این ڈی ایم اے کے ساتھ سختی برتی گئی تھی تو
آج کی سماعت صرف اُس کے ازالہ میں ہی گُزر گئی۔
|