پاکستان میں غداری کے سرٹیفکیٹ

غداری کے جراثیم کسی بھی فرد کے اندر اس وقت ایکٹیو ہو تے ہیں جب وہ خود کو اپنے سپہ سالار ، آقا یا قائد پر فوقیت دینا شروع کر تا ہے۔ انسان کے دماغ میں جب یہ خناس جنم لیتا ہے کہ ملکی معاملات ،کسی مہم یاکسی پراجیکٹ کی کامیابی اس کی مرہون منت ہے اور یہ معرکہ یا ترقی یا کامیابی اس کے سالار ، قائد کے لیے ناممکن ہوتی اگر وہ اس کا حصہ نہ ہوتا، پھر اس کے دماغ میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ میری وجہ سے یہ کامیابی اگر سالار کو مل سکتی ہے تو پھر میں قائد کیوں نہیں ، میں حاکم کیوں نہیں ؟ میں کسی کے لیے کام کیوںکروں ؟ اور کیوں نہ میں حکمرانی خود کروں ؟

دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کئیں ایسے نام ملتے ہیں جنھوں نے اپنی ذات کی خاطر ملکی و قومی مفادات کو فروخت کیا۔عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا اور اول نمبر پر آنے والا غدار آندرے ویلاسوف ہے ، یہ ایسا جنگجو تھا جو ماسکو کو ہٹلر کے قبضے سے بچانا چاہتا تھا، لیکن لینن مارٹ کے لیے جنگ کرتے ہوئے آندرے جرمن فوجیوں کے ہتھے چڑھ گیا، گرفتاری کے بعد اس نے جرمن فوج کو اپنے ملک کی افواج کے خلاف تمام معلومات فراہم کرنا شروع کر دی اور روسی فوج کونا قابل تلافی نقصان پہنچایا۔ تاریخ کا دوسرا غدار وٹکون کسلنگ کہلاتا ہے 1942 میں یہ ناروے کا صدر بنا اور صدارت ہی سے اسے پھانسی کے تختے پر لٹکایا گیا۔ کسلنگ کا تعلق بھی نارویجین فوج سے تھا، 1940 میں کسلنگ نے ہٹلر سے ملاقات کی اور ناروے کی صدارت کے بدلے اس نے اپنی ہی فوج اور ملک کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ناروے کی فوج کو شکست دے کر صدارت سنبھالی۔ تیسرا بڑا غدار میر جعفر ہے جو ہماری تاریخ کا اہم کردار ہے، اس نے برطانوی فوج کے سربراہ رابرٹ کے ساتھ مل کر پلاسی کی جنگ میں ہاتھ ملا لیا اور مسلمانوںکی شکست کا باعث بنا۔یہ میر جعفر ہی تھا جس نے انگریز کو دو سو سال تک برصغیر پر قابض رہنے کا رستہ مہیا کیا ۔ اسی طرح غداروں کی طویل فہرست میں چین کا چن ہوئی، یونان کا ایفلیٹس ٹریچنر، امریکی بینٹ آرنلڈ اور فلپائن کا امیلیو اوگونالڈ عالمی رینکنگ میں پہلے اور تسلیم شدہ غدار ہیں ۔
 
یہ چند نام وہ ہیں جنھوں نے اپنے ملک و قوم کے خلاف اقدامات کئے اور غدار ٹھہراے۔ اسی طرح پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پاکستان بننے کے بعد 1951 میں پہلا غداری کا مقدمہ فیض احمد فیض کے خلاف بنا، فیض صاحب پر الزام تھا کہ انھوں نے ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں حصہ لیا ، اسے راولپنڈی سازش کیس بھی کہا جاتا ہے۔ اس کیس میں فیض احمد فیض کو چار سال قید میں رکھا گیا ۔ اس کے بعد خان عبدالولی خان پر 1975 میں غداری کا مقدمہ درج ہوا، خان عبدالولی خان پشتون راہنما ، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ تھے ان پرپیپلز پارٹی کے حیات شیرپائو کے قتل کا الزام تھا۔ ان پرآذاد پختونستان اورگریٹر پختونستان پر کام کرنے کا بھی الزام تھا۔ ولی خان اور ان کے51 ساتھیوں پر غداری کا مقدمہ درج کیا گیا اور انھیں ساتھیوں سمیت قید کر دیا گیا، 1978 میں جب جنرل ضیاء الحق کو قوم پرستوں کی حمائت درکار تھی تو انھوں نے ولی خان سمیت ان 51 غداروں کو محب وطن جانتے ہوئے معا ف کر دیا۔ اس کے بعد 1992 میں نواز شریف حکومت میں دی نیوز کی ایڈیٹر ملیحہ لودھی کو اس وقت کی حکومت پر تنقیدی نظم چھاپنے پر غداری کا مقدمہ درج کرایا گیا۔ مگر حکومت کی طرف سے مقدمے کی تاریخ سے تین دن قبل کیس واپس لے لیا گیا۔ 2003 میں جاوید ہاشمی پر غداری کا کیس بنا انھیں 23 سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا، جاوید ہاشمی پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک حاضر سروس آرمی آفیسر کے خط کو لیک کیا جو اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف کی امریکہ نواز پالیسیوں کے خلاف تھا۔ جاوید ہاشمی کو اس مقدمے میں تین سال بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ قانون فطرت ملاحظہ ہو اسی جنرل پرویز مشرف کے خلاف 2014 میں سنگین غداری کا کیس درج ہوا یہ پاکستان کی تاریخ میںکسی فوجی جنرل کے خلاف غداری کا پہلا کیس تھا۔پرویز مشرف کے خلاف 3 نومبر 2007 کو ایمرجینسی نافذ اور آئین کو معطل کرنے کا الزام تھا۔ اس کیس کا پانچ سال بعد دسمبر 2019 میں فیصلہ بھی سنایا گیا اور سنگین غداری کے مرتکب جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، گو کہ بعد میں جسے لاہور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔ مئی 2018 میں پاکستان تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کے راہنما اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی ، نواز شریف پر یہ مقدمہ ان کے بونیر میں جلسہ سے خطاب کے دوران اہم راز افشاں کرنے کے اعلان پر کیا گیا۔ یہ چند وہ کیسز ہیں جو عدالتوں میں درج ہوئے ، اس کے علاوہ سقوط بغداد، سقوط ڈھاکہ، مجیب الرحمان، جنرل یحیی، جی ایم سید، اجمل خٹک اور الطاف حسین کے نام بھی اس فہرست میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح سے بینظیربھٹو شہید تک یہاں کسی کو معاف نہیں کیا گیا، ہر ایک پر غداری ، بیرونی قوتوں کا ایجنٹ، تو کبھی بھارت نواز، بھارت فنڈنگ، مغرب نواز ، مغرب فنڈنگ، اسرائیل فنڈنگ، عرب فنڈنگ جیسے الزامات بھی یہاں عام ہیں۔ اسی طرح پنجابی، سندھی، پختون اور بلوچی بھی ایک دوسرے کے لیے غدار ہیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی سے سوشل میڈیا پاکستان میں عام ہوا تو جہاں اور بہت سی قباحتوں نے جنم لیا وہاں اس میڈیم کے ذریعے چند لمحوں میں پگڑیا اچھالنے کا کام آسان ہو گیا،سوشل میڈیا کے زریعے کسی بھی فرد کو چند منٹوں میں غداری کا سرٹیفکیٹ دے دیا جاتا ہے اور محب وطن بھی یہاں ہی چند لمحوں میں پروف کرا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاو ہ وقت گزرنے کے ساتھ الزامات میں بھی ترقی ہوتی رہی، غداری کے الزامات سیاستدانوں سے صحافیوں پر عام ہوتے گے۔ جس حکمران، سیاستدان یا پاور فل شخصیت پر تنقید کی گئی اس نے صحافی کو غدار، ملک دشمن، ایجنٹ، بکاو اور لفافہ صحافی سمیت کئیں قسم کے القابات سے نوازنا شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا میں ایک لمبی فہرست وائرل کی گئی جس میں کچھ صحافیوں اور اینکر پرسنز کے نام ، ان کے بنک اکاونٹ نمبرز، شناختی کارڈ نمبرز، پلاٹ ، نقدی،فارن ٹورز کی تفصیل وغیرہ وغیرہ ایسی مہارت سے لکھے گئے جو عام دیکھنے والے کو حقیقی اور سچے لگتے تھے۔ مگر جب حامد میر صاحب اس لسٹ کو لے کر سپریم کورٹ گے اور حکومت سے اس کی فرانزک کرانے کی درخواست کی گئی اور اس کے ساتھ حکومت کی طرف سے سکریٹ فنڈ جو منظور نظر صحافیوں اور میڈیا مالکان کو دیا جاتا تھا اس کی تحقیق کرانے کی درخواست دی تو تب سے آج تک تین حکومتیں گزر چکیں مگر نہ فرانزک ہوا اور نہ ہی کسی الزام کی تحقیق، ہاں مگر سپریم کورٹ کے حکم پر سکریٹ فنڈ کو بند ضرور کر دیاگیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر میڈیا کمیشن بھی بنا مگر کیس ابھی تک وہی عدالتوں میں رل رہا ہے اور کوئی بھی حکومت اس کی تحقیق کرانے میں سنجیدہ نہیں کیونکہ اس سے حکومتوں اور اداروں کے اپنے کرتوت بے نقاب ہوتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے اس وقت کے سربراہ اور آج کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان 2013 کے انتخابات میں شکست سے قبل روزنامہ جنگ اور جیو نیوز کے معترف تھے اور بار ہا انھوں نے اپنے انٹرویوز میں جیوکا اور خاص طور پر کیپیٹل ٹاک کا نام لے کر شکریہ ادا کیا ۔ عمران خان نے تو یہاں تک کہا کہ پی ٹی آئی اور مجھے مین سٹریم سیاسی جماعتوں میں لانے میں جیو کا کلیدی کردار ہے۔ مگر 2013 کے الیکشن میں شکست کے بعد عمران خان نے جہاں شکست کی ذمہ داری اپنی حریف جماعت مسلم لیگ ن اور الیکشن کمیشن پر دھاندلی کے الزامات سے لگائی وہاں پر انھوں نے جیو پر اپنی نفرت کا بھرپوراظہار کیا۔ جسطرح امریکی صدر کو سی این این اور بی بی سی کے نام سے چڑھ ہے اسی طرح عمران خان کو جیو ایک آنکھ نہیں بہاتا۔ عمران خان نے اپنی الیکشن مہم کے دوران جہاں جیو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا وہاں پر جیو و جنگ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کا نام لے لے کر کہا کہ میں تمھیں سبق سیکھا دوں گا۔ جیو پر پی ٹی آئی کی طرف سے فارن ایجنٹ ،غدار اور دشمن ممالک سے فنڈز لینے کے الزامات لگائے گے ۔ اور اب وزارت اعظمی کے منصب پر جیسے کیسے پہنچنے کے بعد بھی عمران کے اندر سے بدلے کی آگ کم نہیں ہوئی اور جب کوئی اور بات نہیں بنی تو میر شکیل الرحمن کو تیس سالہ پرانے پراپرٹی کے جھوٹے کیس میں نیب کے زریعے گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا ۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی فیکٹریوں میں بھارتی ایجنٹوں کے کام کرنے کی خبریں چلائی گئی، شریف فیملی کے بھارت میں بزنسز کے حوالے سے لمبی لمبی سٹوریاں چلائی گئی۔ اسی طرح جیو کو بھارت سے فنڈز لینے کے الزامات لگا کر غدار کہا گیا، ملک دشمن کہا گیا۔ بڑی سادہ اور عام فہم سی بات ہے عمران خان اس وقت ملک کے سربراہ ہیں ان کے حکم پر تمام ایجنسیاں کام کرتی ہیں تو اب دو سال ہونے کو ہیں اس عرصہ میں انھوں نے کیوں یہ انوسٹیگیٹ نہیں کرایا کہ کون کون ملک دشمن ایکٹیویٹیز میں ملوث رہا ہے۔ میاں نواز شریف کے اگر دشمن ملک کے ساتھ روابط تھے تو یہ تو سیدھا سیدھا اوپن اینڈ شٹ کیس بنتا ہے ، غدرای کا مقدمہ چلائیں اور بجائے دس ہزار ریال کی تنخواہ اپنے ہی بیٹے سے لینے کو اپنے گوشواروں میں درج نہ کرنے پر نا اہل کرانے سے بہتر تھا سیدھا پھانسی پر لٹکاتے ۔ یہی صورتحال میر شکیل الرحمن پر کیس کی بھی ہے ۔ تیس سال پہلے ایک زمین خریدی گئی ، ان تیس سالوں میں چلیں نواز لیگ کا دور نکال بھی دیں کیونکہ بقول عمران خان جیو ن لیگ کو سپورٹ کرتا ہے ، مگر یہاں پرویز مشرف کی پابندیاں اور پیپلز پارٹی کا جیو سے بائیکاٹ رہا مگر انھیں یہ کیس نظر نہیں آیا۔ اور اب عمران خان کی احتساب ٹیم کو یہ کیس نظر آ گیا ، آخر کب تک ہمارے ملک میں یہ استحصال ہوتا رہے گا۔ ہر حاکم خود کو محب وطن اور دوسروں کوغداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتا رہے گا۔
 
چلتے چلتے ایک واقع سناتا چلو کسی گائوں میں ایک گورکن جب بھی کوئی مردہ دفنات، لواحقین تدفین کے بعد گھروں کو چلے جاتے تووہ قبروں سے مردوں کے کفن اتارلیتا۔گاوں والے اس کی اس حرکت سے بہت پریشان تھے، آخر بوڑھا گورکن فوت ہو گیا تو گاوں والوں نے شکر کا کلمہ پڑھا کہ اب مردوں کی بے حرمتی تو نہیں ہو گی۔ گورکن کی وفات کے بعد اس کے جوان سال بیٹے نے باپ کا کام سنبھال لیا۔ چند دن گزرے تو گائوں والوں نے دیکھا کہ قبرستان میں مردوں کے جسم کے ٹکڑے بکھرے پڑے نظر آنا شروع ہو گے۔ جب معلوم کیا گیا تو پتا چلا کہ گورکن کا بیٹا بھی باپ کی طرح کفن چور تو ہے ہی مگر یہ کفن اتارتے وقت مردوں کے جسم کے حصے بھی کاٹ پھینکتا ہے۔یہ دیکھ کر گائوں والے سر پکڑ کر بیٹھ گئے انھوں نے سوچا تھا کہ باپ کے مرنے کے بعد بیٹا وہ کام نہیں کرے گا مگر انھیں معلوم نہیں تھا کہ بیٹا باپ کا بھی استاد نکلا۔ یہی حالات وطن عزیز پاکستان کے بھی ہیں بس یہاں اللہ ہی کوئی معجزہ کر دے ورنہ ان حکمرانوں سے کوئی امید نہیں۔


 

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100563 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.