صحافت پر سیاست غالب ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ اخبار لکھنے اور
پڑھنے والوں کے اعصاب پر سیاست ہی سوار رہتی ہے۔ قصے کہانیوں کو ہفتے میں
ایک آدھ دن کسی کونے میں ایک گوشہ مل جاتا ہے۔ افسانہ نگار کے مقابلے
ایماندار صحافی کا قلم حقائق کی ہتھکڑی میں جکڑا ہوا ہوتا ہے۔ بے ایمانوں
کی بات اور ہے کہ شتر بے مہار کی مانند جہاں چاہتے منہ مارتے پھرتے ہیں ۔
حق و باطل کے ساتھ ملا کر مشکوک کردینا جن کا فرض منصبی بن چکا ہے۔ افسانہ
نگار حقیقت کی پابندیوں سے نکل کر جہاں مرضی ہوجانے کے لیے آزاد ہوتا ہے
لیکن اس آزادی کے استعمال میں بھی اسے محتاط رہنا پڑتا ہے۔ کئی ایسے
خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں جنہیں وہ ناممکن کہہ کر جھٹک دیتا ہے۔ وہ
ممکنات کے افق پر بہت دور نکل جانے کے باوجود ایک حد پر ٹھہر جاتا ہے۔ اس
سے باوجود ناقدین طرح طرح کی مین میخ نکالتے ہیں ۔ یہ کیسے ہوگیا؟ اس کا
جواز کیا ہے؟ یہ تو ناممکن ہے وغیرہ وغیرہ لیکن کورونا نے ایسے حقائق اجاگر
کیے ہیں کہ جس نے بڑے بڑے قلمکاروں کو اپنی دامن کی تنگی کا احساس دلادیا۔
کورونا کے سانحات نے ثابت کردیا کہ حقیقت کی دنیا تخیل سے کہیں زیادہ کشادہ
ہوتی ہے۔
عارف کی اس ادھوری داستان کے درمیان ممبئی سے اتر پردیش جانے والے انصاف
علی کی دل کو چھو لینے والی کہانی منظر عام پر آگئی۔ اس واقعہ کے اندر
انسانی عزم و حوصلہ کے مقابلے مشکلات و مصائب بونے نظر آتے ہیں اور انسانی
کامیابیوں کے ایسے امکانات روشن ہوتے ہیں کہ عام حالات میں جن کا تصور محال
ہے۔ یکم اپریل کے آس پاس ممبئی کے مضافات بلکہ تھانہ ضلع کے وسئی میں
رہائش پذیر انصاف علی نے اترپردیش میں اپنے گھر والوں سے ملنے کی خاطر 1500
کلو میٹر پیدل چلنے کا ارادہ کیا ۔ لاک ڈاون کی رکاوٹوں کے سبب راستے میں
اس کو طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دوکانوں کے بند ہونے کی وجہ
سےکھانے اور پانی کے لیےکافی دقت پیش آئی لیکن ان کا سفر جاری رہا۔ 15 دن
کی طویل مسافت کے بعد وہ پیدل چل کر ضلع شراوستی میں اپنے گاؤں کے قریب
پہنچ گئے ۔ اس طرح انصاف علی گویا غلام محمد قاصر کے اس شعر کی عملی تفسیر
بن گئے ؎
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے
اس کے بعد کہانی میں جو دردناک موڑ آیا اس تفصیل انصاف علی کے گاوں
مٹکھنوا کے گرام پردھان اگیارام یوں بیان کی کہ وہ 14 اپریل کو شراوستی
پہنچے اور اپنے گھر سے تقریباً 10 کلو میٹر پہلے سسرال میں رک گئے۔ اس کے
بعد جب وہ اپنے گھر کے لیے نکلے تو طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔27 اپریل کوجب
علی شراوستی پہنچنے پر مقامی انتظامیہ نے 14 دنوں کے لیے انہیں اسکول میں
قرنطینہ کی خاطر روانہ کردیا ۔ یہ اسکول ملہی پور پولس اسٹیشن کے تحت واقع
ہے ۔شراوستی کے پولس سپرنٹنڈنٹ انوپ کمار سنگھ کے مطابق علی الصبح 7 بجے کے
قریب جب وہ مٹکھنوا پہنچے تو مقامی اسکول میں شروعاتی جانچ انھیں ناشتہ دیا
گیا۔ پانچ گھنٹے آرام کرنے کے بعد انھیں پیٹ کے اوپری حصے میں درد کی
شکایت شروع ہوگئی اور تین بار الٹی ہوئی۔ اس سے پہلے کہ ڈاکٹر کو بلایا
جاتا، انصاف علی کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ اس طرح محنت ِ شاقہ سے
اپنے گاؤں تو پہنچنے والے انصاف علی اپنے رشتہ داروں کے سے ملے بغیر بغیر
دارِ فانی سے کوچ کر گئےاور پسماندگان میں اہلیہ سلمہ بیگم اور 6 سالہ بیٹے
کو چھوڑ گئے ۔ ان پر قائم چاند پوری کا یہ شعر صادق آگیا کہ ؎
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دُور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
انصاف علی کی یہ داستان گواہ ہے کہ انسان اپنئ عزم و حوصلے سے دنیا کی بڑی
سے بڑی مہم سر تو کرسکتا ہے لیکن مشیت کے آگے بے بس ہوجاتا ہے۔ انسان
اپنوں میں جینا چاہتا ہے اور اپنوں کے اندر مرنا بھی چاہتا ہے۔ انصاف علی
کی پہلی خواہش پوری نہ ہوسکی اس لیے کہ موت کا مقام اور وقت مقرر تھا لیکن
دوسری تمنا ادھوری رہگئی ( بقول غالب ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ
دم نکلے)۔ آخری ارمان سے قبل انصاف علی کا دم نکل گیا۔ راستے میں ان کے
ساتھ یہ ناگہانی ہوجاتی تو کسے پتہ چلتا کہ انصاف علی کہاں کھو گئے؟ غالب
والی بات ’نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کوئی مزار ہوتا ‘ والا معاملہ ہوجاتا اور
اہل خانہ لامتناہی انتظار کے کرب میں مبتلا ہوجاتے۔
انصاف علی نے اپنے گاوں میں آکر آخری سانس لی۔ بظاہر ان کی موت جسم میں
پانی کی کمی اور تھکاوٹ کی وجہ سے ہوئی لیکن چیف میڈیکل افسر اے پی بھارگو
کا کہنا تھا کہ انھوں نے انصاف علی کے نمونے ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال
(لکھنؤ ) میں کورونا وائرس ٹیسٹ کے لیے بھیج دیئے ہیں ۔ اس رپورٹ کے بعد ہی
انصاف علی کی موت کے اصل سبب معلوم کرنے کے لیے پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔”
ویسے ڈاکٹروں کے مطابق شروعاتی جانچ کے دوران کورونا وائرس کی کوئی علامت
دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔آگے کیا ہوا نہیں پتہ بہت ممکن ہے انصاف علی کی
رپورٹ منفی آئی ہو اور عام لوگوں کی طرح ان کی تدفین ہوئی ہو لیکن کورونا
کے خوف نے اپنوں کو بھی پرایا کردیا۔ اس طرح کا ایک دل دہلا دینے والا
واقعہ مدھیہ پردیش سے سامنے آیا۔
بھوپال اور اجین کے درمیان شولاجپور کے ایک شخص پر8اپریل کو فالج کا دورہ
پڑا ۔ اسے شہر کے ملٹی کیئر اسپتال میں داخل کردیا گیا ۔ 10اپریل کو اس کے
خون کا نمونہ کورونا کی جانچ کے لیے بھیجا گیا اور14 اپریل کو رپورٹ مثبت
آگئی ۔ ۔ اس کے بعد اسے بھوپال کے چرایو دواخانے میں منتقل کیا گیا دورانِ
علاج 20تاریخ کوموت ہوگئی ۔ انتظامیہ نے گھروالوں کو اطلاع دی تو اہلیہ ،
بیٹا اور سالا اسپتال پہنچ گئے۔ بیٹے کو جب بتایا گیا کہ کورونا کے سبب لاش
کو گاوں نہیں لے جایا جاسکتا تو وہ گھبرا گیا اور پلاسٹک میں لپٹی لاش کو
ہاتھ تک نہیں لگانے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ وہاں موجود افسروں نے کورونا کے
مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کا حوالہ دے کر اس کا ڈر دور
کرنے کی کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا اور دور کھڑا ہوکر لاش کو دیکھتا
رہا۔ افسران نے بتایا کہ لاش گھر کا عملہ بھی تو انسان ہے اس کے باوجود وہ
آخری رسومات ادا کرنے لیے راضی نہیں ہوا ۔ اپنے بیٹے کو سمجھانے کے بجائے
اس کی ماں نے بیراگڈھ تحصیلدار گلاب سنگھ بگھیل سے کہہ دیا کہ اس کو حفاظتی
لباس پہنتے اتارتے نہیں آتا آپ کو آتا ہے۔ آپ ہی ہمارے بیٹے ہو۔ اہل
خانہ نےانتطامیہ کو یہ کہہ کر آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت دے دی اور
خود50 میٹر دور سے چتا کو دیکھتے رہے۔ یہ بات کس کے تصور خیال میں تھی کہ
کورونا سے موت کا ڈر بیوی اور بیٹے کے رشتوں کو بھی جلا کر راکھ کردے گا۔
ایسے میں بشر نواز کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
پیار کے بندھن خون کے رشتے ٹوٹ گئے خوابوں کی طرح
جاگتی آنکھیں دیکھ رہی تھیں کیا کیا کاروبار ہوئے
|