دنیا میں بڑی سے بڑی تباہی آجائے سیاستداں اس میں اپنے
اپنے انداز میں کام کرتے رہتے ہیں ۔ ان میں ظرف کا فرق ہوتا ہے ۔ کوئی پر
وقار انداز میں سیاست چلاتا ہے تو کوئی پھوہڑ انداز میں اپنے مقاصد حاصل
کرتا ہے۔ مشکل حالات کو اپنے حق میں موڑ لینے کے فن سے وزیر اعظم خوب واقف
ہیں ۔ کورونا کی بابت وہ اپنے رفیق خاص ڈونلڈ ٹرمپ کی مانند اس خوش فہمی
میں مبتلا تھے کہ اس وباء سے ان کاملک محفوظ رہے گا۔ اس لیے اسے سنجیدگی سے
لینے یا بروقت تیاری شروع کرنے کو ضروری نہیں سمجھا گیا لیکن جب یہ آفت
دروازے پر دستک دینے لگی ہے تو اس سے اپنے مخصوص انداز میں فائدہ اٹھانے کی
سعی شروع کردی گئی ۔ وزیر اعظم کو تقریر اور علامتی خوشامد بہت پسند ہے ۔
انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں جنتا کرفیو کا شوشہ چھوڑا اور عوام کو تالی،
تھالی اور شنکھ وغیرہ پھونکنے کا مشورہ دیا ۔ اس کام کے لیے بہت سوچ سمجھ
کر اتوار کے دن کا انتخاب کیا گیا اور یہ تجربہ اتنا زیادہ کامیاب رہا کہ
بھکتوں کو رقص و سرود کے جشن میں فاصلے والی نصیحت یاد ہی نہیں رہی ۔ خیر
میڈیا میں نے اسے کووڈ۱۹ پر مودی جی اولین فتح قرار دے دیا۔ اس مشق سے
کورونا کا تو کوئی نقصان نہیں ہوا مگر پردھان جی کا زبردست سیاسی فائدہ
ہوگیا۔
اس کے بعد سمجھ میں آیا کہ اس طرح کی نوٹنکی سے کورونا کا پھیلاو نہیں رکے
گا ۔ اب انہوں نے نوٹ بندی کی مانند سنسنی خیز انداز میں دیش بندی کا اعلان
کردیا ۔ اس بار فائدہ نصف ہوگیا یعنی معاشرے کے متوسط اور امیر طبقہ نے اس
کو برداشت کرلیا مگر غریب مزدور سڑک پر نکل آئے اور مودی جی کی جو جہاں ہے
وہیں رہے کی تلقین کو ٹھکرا دیا۔ اس کی وجہ سے وزیراعظم کی اچھی خاصی سبکی
ہوئی ۔ اس سے نہ صرف یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ غلط فیصلہ تھا بلکہ یہ بھی
پتہ چل گیا کہ اس ملک کی ایک بہت بڑی آبادی وزیراعظم کو خاطر میں نہیں
لاتی۔ اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے مودی جی نے تیسرا تماشا یہ کیا کہعوام
کو رات ۹ بج کر ۹ منٹ پر ۹ منٹ کے لیے کو بتی بجھا کر دیا، موم بتی یا ٹارچ
جلانے کا فرمان جاری کردیا ۔ اس میں بھی کچھ بھکت حد سے گزر گئے اور کسی نے
مشعل کے ساتھ جلوس نکالا تو کوئی پٹاخے پھوڑ کربے وقت کے دیوالی منانے لگا۔
مودی جی نے سوچا ان پاگلوں کو کچھ بولو تو کچھ اور ہی کرتے ہیں اس لیے
چوتھی بار انہوں نے اپنے من کی بات تو پیش کی لیکن کوئی نیا کام کرنے کے
لیے نہیں کہابلکہ اپنے پاس پڑوس کے فاقہ کشوں کی بھوک مٹانے کا مشورہ دیا ۔
اس طرح کے کاموں میں بھلا بھکتوں کو کیا مزہ آتا اس لیے کسی نے دلچسپی
نہیں دکھائی اوروزیر اعظم کا بھی موہ بھنگ ہوگیا ۔ اس کے بعد وہ عوام سے
خطاب کرنے لیے نہیں آئے بلکہ لاک ڈاون کی توسیع کا اعلان مرنے کی زحمت بھی
گوارہ نہیں کی ۔
حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی بھی اس دوران خاموش نہیں رہے ۔ پہلے تو
انہوں نے ٹویٹ کے ذریعہ سے خبروں میں بنے رہنے کوشش کی لیکن ان کی توجہ
سیاست کے بجائے معیشت پر مرکوز تھی ۔ انہوں نے حکومت کو مختلف مشورے دے کر
عوام کے بجائے خواص کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کی کوشش کی اور انہیں اس
میں کسی قدر کامیابی ملی ۔ اس کے بعد انہوں نے ایک ۱۴ اپریل کو ایک آن
لائن پریس کانفرنس کا اعلان کردیا۔ یہ نہایت شاطرانہ اقدام تھا ۔ ہر سیاسی
رہنما کے لیے یہ لازم ہے کہ اس کو اپنی اور اپنے حریف کی کمزوری و خوبی کا
اندازہ ہو۔ ایک زمانے میں راہل کی کمزوری یہ تھی کہ وہ نرم خو چاکلیٹ بوائے
ہوا کرتے تھے اس لیے مودی جی نے انہیں شہزادہ اور بھکتوں نے پپو کے لقب سے
نوازدیا ۔ یہ شبیہ ان کے پیروں کی سب سے بڑی بیڑی تھی ۔ گجرات کی انتخابی
مہم میں انہوں نے اسے توڑ کر پھینک دیا اور تین صوبوں میں کانگریس کی
کامیابی کے بعد وہ کلنک ان کی پیشانی سے مٹ گیا۔ رافیل کی مہم اور چوکیدار
چور کے مکالمہ نے بی جے پی کو مدافعت پر مجبور کردیا ۔ راہل کے جارحانہ
انداز پر پلوامہ اور ائیر اسٹرائیک غالب آگئے اور انہیں خاطر خواہ انتخابی
فائدے سے محروم کردیا حد تو یہ ہے کہ انہیں اپنے روایتی گڑھ امیٹھی میں بھی
ہار کا سامنا کرنا پڑا۔
نریندر مودی نے ۲۰۱۴ میں اپنے آپ کو ڈاکٹر منموہن سنگھ سے بالکل مختلف
شبیہ میں پیش کیا تھا ۔ ڈاکٹر سنگھ پڑھے لکھے اعلیٰ افسر تھے ۔ مودی جی نے
خود عام چائے والا بناکر پیش کیا ۔ منموہن کام تو کرتے تھے مگر بولتے نہیں
تھے مودی جی نے بول بچن شروع کردیئے۔ اس وقت عوام کی توجہات کا مرکز
بدعنوانی کے خلاف ملک گیر تحریک تھی اور لوگ یہ سوچنے لگے تھے کہ منموہن
خود کرپٹ نہ ہوں تب بھی اس کو روکنے کی سکت ان میں نہیں ہے۔ ایسے میں ۵۶
انچ کا سینہ اور نہ کھاوں نہ کھانے دوں گا جیسے نعروں نے جادو کیا اور
منموہن کا تختہ پلٹ کر مودی اقتدار میں آگئے۔ راہل گاندھی کو پتہ ہے کہ وہ
فی الحال نریندر مودی سے بہتر تقریر نہیں کرسکتے لیکن ان کو یہ بھی معلوم
ہے کہ پریس کانفرنس میں اخبار نویسوں کے برجستہ سوالات کا جواب دینا مودی
جی کےبس کا روگ نہیں ہے ۔ مودی جی اپنے خطاب میں عوام کو وعظ و نصیحت تو
کرسکتے ہیں لیکن معیشت پر گفتگو نہیں کرسکتے ۔ اس لیے راہل گاندھی نے بہت
سوچ سمجھ کر اپنی یہ حکمت عملی طے کی وہ ایسے تمام کرکے عوام کا اعتماد
حاصل کریں گے جو مودی کے بس میں نہ ہوں مثلاً پریس میں جانا اور معیشت پر
گفتگو کرنا وغیرہ ۔
راہل گاندھی کو یہ معلوم ہے کہ کورونا کی اس جنگ میں وزیر اعظم کا سب سے
کمزور پہلو مہاجر مزدوروں کی ابتر حالت ہے۔ اس موضوع پر جب سونیا گاندھی نے
یہ اعلان کیا تھا کہ ان کے سفر کا خرچ کانگریس دے گی تو میڈیا اور بی جے پی
کے اندر کھلبلی مچ گئی ۔ اس معاملے کو قابو میں کرنے لیے اسے بڑی مشقت کرنی
پڑی۔ راہل نے پھر سے اس معاملے کو چھیڑا اور ان مزدوروں سے ملنے کے لیے سڑک
پر چلے گئے ۔ حفاظتی نقطۂ نظر سے مودی کے لیے ایساکرنا ناممکن ہے ۔ اس لیے
راہل کی یہ خبر فوراً ذرائع ابلاغ پر چھا گئی ۔ اس پر پہلے تو مرکزی وزیر
آر کے سنگھ کو تال ٹھونک کر میدان میں آنا پڑا لیکن ان کا یہ کہنا کہ
راہل تصویر کھنچوانے کے لیے گئے خود ان کے منہ پر آگیا کیونکہ سب جانتے
ہیں تصویر کھنچوانے کا سب سے زیادہ شوق مودی جی کو ہے۔آر کے سنگھ کے اس
دعویٰ کے خلاف پورا میڈیا گواہی دے رہا ہے کہ حکومت ان مزدوروں کا بہت خیال
رکھ رہی ہے۔ اترپردیش کی سرحد کے بعد احمد آباد اور سورت میں بی جے پی
سرکار کی جانب سے ان مزدوروں پر لاٹھی چارج کی تصاویر ہر جگہ پھیلی ہوئی
ہیں ۔
راہل کی مزدوروں سے ملاقات پر وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن کا تبصرے پر
مجبور ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن جب انہوں نے نام لیے بغیر یہ کہا
کہ راہل ان مزدوروں کا وقت خراب کررہے ہیں تو سب کو ہنسی آگئی کیونکہ یہ
الزام تو خود ان پر لگ رہا ہے کہ انہوں پانچ دنوں سے پیکیج کی بے معنیٰ
تفصیلات سمجھا کر پریس والوں کا وقت خراب کیا ۔سیتا رامن کا یہ کہنا کہ
راہل کو مزدوروں سے بات کرنے کے بجائے ان بیگ کا اٹھا کر چلنا چاہیے مضحکہ
خیز کیونکہ مزدور سڑک پر چل رہے ہیں اور وزیر خزانہ شیخ چلی کے خواب بیچ
رہی ہیں ۔ ویسے بھی جن کے زبان سے مزدوروں کے لیے ہمدردی کے دو بول نہیں
پھوٹتے ان کے مشورے کی کیا اہمیت ہے۔ یہ تو کھسیانی بلی کے کھمبا نوچنے
جیسی حرکت ہے۔ یہ عام سی بات ہے کہ عوام متبادل میں کچھ مختلف دیکھنا
چاہتےہیں۔ کسی رہنما کا مقابل اگر نقل کرنے لگے تو وہ اس کےبجائے اصل کو
ترجیح دیاجاتاہے۔ راہل اس مشکل کی گھڑی میں ایک سنجیدہ متبادل کی حیثیت سے
ابھر رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ رہنما اور عوام بدلتے رہتے
ہیں لیکن دونوں کی نفسیات اور سوچنے کا انداز نہیں بدلتا ۔
|