امریکی امداد بند ہوئی تو گزارہ کر لیں گے...وزیراعظم
کی ہمت کو سلام
اِن کیمرہ اجلاس اور ملکی حالات پر اِس کے اچھے یا بُرے اثرات...کیا رنگ
چڑھاتے ہیں ...؟
دو مئی کو ایبٹ آباد میں جو کچھ ہوا اِس واقعہ نے ملک کے طول ُ ارض میں
جہاں امریکی ہیبت طاری کردی ہے تو وہیں اِس چالیس منٹ کے امریکی آپریشن میں
اُسامہ بن لادن کی شہادت نے ملکی اور عالمی سطح پر کئی ایسے انگنت سوالات
کو بھی جنم دے ڈالا ہے جس سے پاکستان کا وقار ایک خاص سوچ اور فکر سے تعلق
رکھنے والے طبقے کی نظر میں نہ صرف ا ندورنی طور پر بلکہ بیرونی ممالک میں
بھی مجروح ہوکر رہ گیا ہے دوسری طرف وہ امریکا ہے جو دنیا بھر میں ہمارا
ایک انتہائی معتبر اور ایک اچھا ہمدرد دوست جانا جاتا ہے تو وہیں یہ دکھاوے
کا ہمارا محسن بھی بنا پھرتا ہے جبکہ اِس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ
اِس واقعہ کے بعد سے سب سے زیادہ سیاسی فائدہ بھی یہ امریکا ہی ہے جو اٹھا
رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اپنی جنگ میں فرنٹ لائن کا
کردار ادا کرنے والے پاکستان جیسے اپنے اتحادی ملک کے لئے طرح طرح کی
بدگمانیاں پیدا کر کے اِسے ساری دنیا میں دہشت گردوں اور دہشت گردی کا
سرپرستی کرنے والا ملک گردانتا پھر رہا ہے۔
جبکہ یہاں ضرورت تو اِس امر کی ہے کہ اِس کی اِس حرکت پر اِس کا منہ بند
کرنا اور اِس کی گز بھر کی زبان کو لگام دینا تو ہماری ملک کی جمہوری اور
عسکری قیادت کا کام تھا مگر وہ کیا....؟کہ یہ گیارہ روز گزر جانے کے بعد
بھی خاموش بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ امریکا کی جانب سے اِن(پاکستان) کے موجودہ
جنگی کردار کے حوالے سے اٹھنے والی انگلیاں....اور اِس پر پاکستان کی مسلسل
خاموشی یہ ثابت کررہی ہے کہ ا ٓج ا مریکا پاکستان سے متعلق جو کچھ بھی کہہ
رہا ہے وہ سب کا سب یکدم درست ہے .......اور حقیقت پر مبنی ہے.....؟؟جبکہ
حقیقت اِس کے بلکل برعکس ہے وہ یہ کہ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے
جیسا امریکا دنیا کے سامنے حقیقت کا رنگ بھر کا اور جھوٹے واقعہ کو سچا گھڑ
کر پیش کررہا ہے یعنی کہ ایبٹ آباد میں دو مئی کو ایک امریکی آپریشن میں
اِس کے مطلوب ترین شخص اُسامہ بن لادن کی شہادت کے واقعہ کو امریکا جس منفی
انداز سے دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے اِس کا پاکستان کے ساتھ مکر وفریب
والا یہ رویہ یہ ثابت کر رہا ہے کہ یہ پاکستان کے ساتھ کتنا مخلص ہے اِس کے
اِسی مکروفریب سے تنگ آئے ہوئے پاکستانی عوام اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے
والے سیاستدانوں اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے اَب حکومت اور
عسکری قیادت پر یہ دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ امریکی جنگ سے کنارہ کشی تیار
کر لی جائے اور اِس کا ساتھ چھوڑ دیا جائے تاکہ اِسے اور اِس کی عوام کو یہ
پتہ چل جائے کہ عراق کے بعد افغانستان میں بھی امریکا کو شکست سے دوچار
ہونا پڑا ہے وہ تو پاکستان ہی تھا جو افغانستان میں اِس کا اتحادی ہونے کے
ناطے اِس کی جنگ جوانمردی سے لڑ رہا تھا ورنہ تو امریکا کب کا افغانستان سے
جنگ ہار کر بھاگ نکلا ہوتا۔
اُدھر ایسے ہی شاطرانہ امریکی رویوں سے تنگ اور بیزار آنے کے بعد بالآخر
ہمارے ملک کے وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے شائد پہلی بار اپنے اندر ہمت
اورجرات پیدا کی اور اپنی انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیا ہے
کہ میں کوئی ڈکٹیٹر نہیں ہوں ایک منتخب نمائندہ ہوں اور مجھے ہر حال میں
عوامی رائے کے ساتھ اِن سے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے اور یہ بھی دنیا کان
کھول کر اَب سُن لے کہ پاکستانی عوام کی رائے امریکا کے یکدم خلاف ہے اور
ہماری حکومت ایک ایسے ایوان کو جوابدہ ہے جہاں کھلم کھلا، واضح اور دوٹوک
الفاظ میں امریکا کی مخالفت ہر سیکنڈ اور ہر سانس کے آتے جاتے کے بڑھتی جا
رہی ہے اور اُنہوں نے اپنا سینہ ٹھونک کر اور اپنی اتنی گرجدار آواز میں
کہا کہ امریکا بھی سُن لے کہ اگر اِس(امریکا) نے ہماری امداد بند بھی دی تو
بھی ہم گزارہ کرلیں گے اِس موقع پر ہمارا یہ خیال ہے کہ ہمارے بہادر اور
جراتمند وزیراعظم کے یہ الفاظ اگر واقعی امریکا کے کانوں تک پہنچ گئے ہیں
تو اِسے اَب اِس بات کا پورا پورا یقین کر لینا چاہئے کہ پاکستان ایک
خوددار اور خودمختار ملک ہے اور اِس کے غیور اور محنت کش عوام کسی کے نہ تو
بیجا دباؤ میں اور نہ ہی کسی کے احسانوں تلے دب کر اُس کی بلیک میلنگ میں
ہی آتے ہیں بلکہ پاکستانی دنیا میں وہ قوم ہے جو سر اٹھا کر جینا اور عزت
سے مرنا جانتی ہے وہ کسی کے آگے اپنی مجبوری کو گروہی رکھ کر بےغیرتی کی
زندگی گزرانا گناہ سمجھتی ہے اور اَب چونکہ کہ ہمارے وزیراعظم سیدیوسف
رضاگیلانی یہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اَب اگر امریکا ہماری امداد بند
کرتا ہے تو بھلے سے بند کردے ہم گزاراہ کرلیں گے....تو پھر اِسی بات پر
ہمارا امریکا کو بھی یہا صائب مشورہ ہے کہ یہ اَب امریکا کی بھی غیرت اور
خوداری کا سوال ہونا چاہئے کہ اَب امریکا بھی پاکستان کی ہر طرح کی امداد
فوراََ بند کردے تاکہ پاکستان اور پاکستانی قوم میں اپنے پیروں پر کھڑا
ہونے کی ایک اچھی عادت پیدا ہوجائے اور پاکستانی حکمران اور عوام صحیح
معنوں میں اُس کشکول کو توڑ ڈالیں جس میں امریکا نے امداد کی شکل میں کبھی
بھیک تو کبھی بخشش ڈال ڈال کر پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو محنت سے جان
چرانے اور بھاگنے والا بنا دیا تھا۔
ہمارے خیال سے اَب یہ بہت ہی اچھا اور ایک لائق تحسین قدم ہوگا جس روز
امریکا ہمارے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی اِس پیشکش اور خواہش پر عمل
کرے گا اور پاکستان کی امداد بند کر کے اِسے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے موقع
فراہم کرے گا۔مگر اِس کے ساتھ ہی جب ہمارے وزیراعظم نے یہ کہا کہ ” اَب
ہماری حکومت نے اپنی سرحدوں میں کسی بھی حوالے سے امریکا سے مزید تعاون کیا
تو ہماری حکومت ختم ہوسکتی ہے “اِن کا یہ جملہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نہ صرف
ہمارے لئے حیرانگی کا باعث بنا ہے بلکہ ملک کے ساڑھے سترہ کروڑ عوام بھی
اِن کے یہ الفاظ سُن اور پڑھ کر یقین حیران ہوئے ہوں گے اور یہ سوچ رہے ہوں
گے کہ اَب تک پاکستان کے اندر جتنے بھی ڈرون حملے ہوئے یا آئندہ ہوں گے اور
ریمنڈ ڈیوس کی طرح جتنے بھی امریکی ایجنٹ پکڑے اور چھوڑے جائیں گے اِن سے
میں موجودہ حکومت اور وزیراعظم کی مرضی اور تعاون شامل رہا جسے اَب جاری نہ
رکھنے کا عندیہ ہمارے وزیر اعظم نے اُس وقت دیا جب دو مئی کے واقعہ کے بعد
امریکا کا پاکستان سے متعلق مخالفانہ رویہ کھل کر سامنے آگیا اِس موقع پر
ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ اگر دو مئی کا سانحہ نہ ہوتا تو ممکن ہے کہ ہماری
موجودہ حکومت اور ہمارے وزیراعظم کا امریکا کے ساتھ رویہ حسب سابق جاری
رہتا اور امریکا اپنے دہشت گردوں کی تلاش میں ڈرون حملوں کے ذریعے نہتے
پاکستانیوں کو آگ اور خون میں نہلاتا رہتا اور ہماری حکومت کے یہی وزیراعظم
ہر ڈرون حملے میں بڑی تعدا د میں شہید اور زخمی ہونے والے افراد سے افسوس
کا اظہار کر کے رہ جاتے اور پھر اگلے ڈرون کے لئے امریکی راہ ہموار کرتے
جاتے۔جو کسی بھی لحاظ سے کسی عوامی اور جمہوری حکومت کے حکمرانوں کو زیب
نہیں دیتا کہ وہ ایک طرف اپنی عوام کی خدمت کرنے کا دم بھریں اور دوسری طرف
اپنے کرسی بچانے کے خاطر امریکا جیسے انسانیت کے دشمن ملک سے ہاتھ ملاکر
انسانیت سوز مظالم کی داستانیں رقم کرنے میں اِس کی معاونت کریں۔
بہرکیف !آج جب ہم اپنے کالم کی اختتامی سطور رقم کررہے ہیں تو اِس وقت ملک
کی عسکری قیادت اپنے ہی ملک کے میڈیا کو پارلیمنٹ ہاؤس سے میلوں دور رکھ کر
اراکین پارلیمنٹ کو دو مئی کو پیش آنے والے سانحہ ایبٹ آباد پراپنے نپے تلے
انداز سے بریفنگ دے رہی ہے اور ہم سوچ رہے ہیں کہ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ اِس
اِن کیمرہ بریفنگ پر غیر معمولی سیکیورٹی کے بھی انتظامات کئے گئے ہیں جس
سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آج ہمارے ملک کی سول اور عسکری قیادت اِس دو گھنٹے
کی بند کمرہ بریفنگ میں ملک اور قوم کی بہتر ی اور اپنی آئندہ نسلوں کے
تابناک مستقبل کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی ایسا غریت مندانہ فیصلہ کر کے ایک
نئے عزم و ہمت کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکلیں گے کہ جس سے ملک اور قوم کی
کایا پلٹ جائے گی اور جس سے ہمارا ملک اور ہماری قوم کسی نئی روشن اور ترقی
و شحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا مگر جب یہ اجلاس اپنے وقت مقررہ پر
اختتام پزیر ہوا اور اجلاس میں شریک اراکین پارلیمنٹ دیکھتے ہی دیکھتے ایک
ایک کر کے باہر آتے گئے تو اِن کے چہروں اور اِن کی چال ڈھال سے ایسا کچھ
نہیں لگ رہا تھا کہ یہ کوئی نیا عزم یا حوصلہ لے کر آئے ہیں جس سے قوم کو
یہ یقین ہوسکے کہ ملک کے ذمہ داروں نے اِس اِن کیمرہ اجلاس میں سابقہ
روایات سے ہٹ کو کچھ اچھے فیصلے کئے ہیں کیوں کہ اِن کے چہرے بتا رہے تھے
کہ جیسے یہ اِس بریفنگ سے پوری طرح سے مطمئن اور اُس اعتماد اور اطمینان کے
ساتھ نہیں لوٹے تھے اور اِس کے ساتھ ہی اِنہیں دیکھ کر یہ اندازہ بھی ضرور
ہوا تھا کہ جیسے اِس کے لئے یہ پہلے سے ہی ذہنی طور پر تیار تھے کہ اِنہیں
اِس بند کمرا اجلاس میں سوائے وقت کے ضیائع اور مایوسیوں کے اور کچھ نہیں
ملے گا۔
بہرحال! ابھی تو پارلیمنٹ کے ہونے والے اِس اِن کیمرہ مشترکہ اجلاس سے
متعلق قیاس آرائیوں اور مفروضوں کی بنیادہ پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اِس
اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کا ملک اور قوم پر کیا....؟اور کیسے اچھے یا
بُرے اثرات مرتب ہوں گے....؟؟مگر اِس کے باوجود بھی ہم یہ قوی اُمید کرسکتے
ہیں کہ دو گھنٹے تک جاری رہنے والے اپنی نوعیت کے اِس اہم ترین اور تاریخ
ساز بندہ کمرہ اجلاس جس میں ہمارے ملک کی سول اور عسکری قیادت دونوں ہی نے
اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ملک کو درپیش چیلنجز اور خاص طور پر دو
مئی کو ایبٹ آباد میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد سے سنگین ہوتی ملکی صُورت
حال میں ملک کو سنبھالنے اور قوم کو اراکین پارلیمنٹ کے زریعے اعتماد میں
لینے کے خاطر یہ اجلاس منعقد کیا اور اِنہیں امریکی دباؤ اور اِس کے تسلط
سے نکالنے کے لئے بھی ہماری عسکری اور سول قیادت نے یقینا کچھ نہ کچھ ایسے
ضروری اور بنیادی نوعیت کے اقدامات بھی کئے ہوں گے جن سے عنقریب ملک میں
مثبت اور تعمیری تبدیلیاں ضرور ہوتی ہوئیں نہ صرف محسوس کی جائیں گیں بلکہ
اِن فیصلوں اور اقدامات کے ثمرات ملکی ایوانوں سے لے کر ملک کے ہر گلی،
کوچے،، بازار ، شاہرہ اور ہر ادارے کی درودیوار تک نظرآئیں گے۔ |