مسئلہ کشمیر میں انسانی حقوق کا پہلو بہت اہمیت کا
حامل ہے ۔ اس کو بہت اہم مقام حاصل رہنا چاہئے کہ یہ بات لوگوں اور اداروں
کی سمجھ میں آسانی سے آ سکتی ہے۔بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کو ہٹ دھرمی
سے پامال کر رہا ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی رو سے
انسان کشی اور جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔اس پہلو کو ساری دنیا میں
بالخصوص بین الاقوامی اداروں بشمول اقوام متحدہ ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس
اور یورپین ہیومن رائٹس کمیشن پر اٹھانا از حد ضروری ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ
بات اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ اصل ایشو بھارتی غاصبانہ قبضہ ہے جس کا
عالمی سطح پر طے شدہ حل صرف و صرف حق خود ارادیت دلانے کیلئے استصواب رائے
دہی سے ممکن ہے، جو مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔مسئلہ کشمیر کی عمر بڑی ہے۔ اس کی
ستر سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے اور 2016 کے بعد سے 5اگست 2019 تک اور
پھر اس کے بعد سے آج تک کے حالات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو اس میں کوئی
دو رائے نہیں کہ تحریک آزادی کشمیر اسوقت جس مقام پر کھڑی ہے یہ اس کا اخری
مرحلہ ہے اور آزادی کشمیریوں کا مقدر بننے والا ہے ۔البتہ یہ فیصلہ کن
مرحلہ مختصر ہوگا یا طویل اس پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔لیکن اس کیلئے
ہمیں انتہائی سنجیدہ ، مربوط اور اور سو چ سمجھ کر اقدامات اٹھانے کی ضرورت
ہے۔تحریک آزادی کشمیر کا موجودہ بہاؤ ایک مؤثر کن مرحلے کی بنیاد ہے ۔ اس
کی دونوں مقداری و معیاری سطحیں بہت ٹھوس اور مثبت ہیں ۔معیاری تبدیلی کی
نسبت سے مقبوضہ کشمیر کے اندر قابض بھارتی فوجوں اور دہلی کے حکمرانوں کے
خلاف مزاحمت کا جذبہ جس درجے بیدار ہے اور موت کا خوف جس سطح پر ختم ہوا ہے
، اس تحریک آزادی کی بڑی نمایاں کامیابی اور خوبی ہے۔پھر اسی دوران وہاں
بھارت نواز مسلم لیڈر لابی جس طرح بے نقاب ہوئی ہے ، اس نے بھارتی لائحہ
عمل میں کشمیر کے وجود کے بے معنی استدلال کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا
ہے۔بے شک یہ منہوسیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے ، لیکن یہ بنیاد فریب
خوردہ لوگوں کی نظروں میں غیر مؤثر ہوئی ہے۔اسی طرح ایک اہم پیش رفت یہ بھی
ہے کہ بھارت کے مختلف حلقوں ، دانش وروں ، میڈیا اور سیاسی گروہوں کے طرف
سے بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال اور کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی پر
اظہار خیال ہو رہا ہے ، جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔بھارت کے سیاسی مقام ،
جغرافیائی کردار اور مختلف ممالک کے تجارتی مفادات کے باوجود بین الاقوامی
محاذ پر تنقید و احتساب کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔اگرچہ بظاہر وہ کمزور اور
غیر مؤثر ہیں ، بہر حال بلند ہو رہی ہیں ۔یہ تمام پہلو بتا رہے ہیں کہ
تحریک آزادی کشمیر فیصلہ کن مرحلہ میں قدم رکھ چکی ہے یا رکھ رہی ہے۔بظاہر
تو بھارت کی کوشش یہ ہے کہ مختلف سیاسی محاذوں پر ایسی مقامی قیادت کو
پلانٹ کیا جائے جو بظاہر آزادی کی حامی ہو یا خود مختاری کے گمراہ کن نعروں
کو بلند کرے، حالانکہ بھارت کے حالیہ اقدام کا ہدف کشمیر پر جبری قبضے کو
مستقل انضمام میں بدلنا، کشمیر کی شناخت کو ختم کرنا اور آبادی کی مسلم
اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے، جو سامراجیت کی بد ترین مثال ہے۔خود مختاری
کی بات ایک فریب اور دوسری دفاعی لائن ہے، جس کی حقیقت کو سمجھنا اور دنیا
کوسمجھانا ضروری ہے ۔ بڑی ہوش مندی سے سمجھ لینا چاہئے کہ یہ اصطلاح بنیادی
طور پر بھارتی مقاصد کو پورا کرنے کی ایک چال ہے ۔ اس ضمن میں اگرچہ انہیں
بھی ابھی تک کامیابی نہیں ہوسکی ، تاہم ان کی پوری کوشش ہے کہ نقب لگائی
جائے۔بھارت چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو لوگ بھول جائیں ،بھارت
کے وعدوں کو بھی لوگ بھول جائیں ، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے بر عکس کسی
نام نہاد ثالثی سے بٹوارا کر واکے معاملے کو رفع دفع کیا جائے ۔لیکن ، ایسا
ہر گزنہیں ہو سکتا !حق خود ارادیت کے مرکزی معاملے کو ہی ہر سطح پر اٹھایا
جانا چاہئے ، اور اس ثالثی سے بچنے کیلئے بھی ایک مؤمن والی فہم رکھنی
چاہئے۔بین الاقوامی سطح پر بھارت کو دباؤ میں رکھنا اور مسلے کے حل کے عمل
کو متحرک و مؤثر بنانا بے حد ضروری ہے۔کشمیر کے مستقبل کا مستقل فیصلہ جموں
و کشمیر کی عوام اپنی آزاد مرضی سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاک،
بھارت قیادتوں کے عہد و اقرار کے مطابق ہی انجام دیا جا سکتا ہے۔کشمیر کی
آزادی کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ ہے، تھا اور رہے گا۔اسے بھارت خود اقوام
متحدہ میں لے گیا۔پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ اقوام متحدہ اور عالمی
برادری نے وعدہ کیا کہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق اسے طے کیا جائے گا۔یہ
کبھی بھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں تھا۔اس کے بنیادی اور واضح فریق
کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت ہیں جبکہ اقوام متحدہ اور عالمی عوام بھی
اس میں برابر کی شریک اور حل کروانے کی ذمہ دار ہے۔اس نکتے کو ہمارے عالمی
اقدام کا حصہ ہونا چاہئے ۔ عالمی سیاست میں مفادات کے کھیل کی روشنی میں
جہاں ضروری ہے کہ بھارت پر عالمی دباؤ کو مؤثر بنانا چاہئے جس کیلئے عالمی
برادری کی سہولت کاری ، مداخلت اور دباؤ ضروی ہوگا، وہیں دوسری جانب ثالثی
کے فریب میں پھنسنا مہلک ثابت ہوگا۔ یہ معاملہ پوری منطقی ترتیب کے ساتھ
مدنظر رہنا چاہئے کہ جہاں ناجائز قبضہ ہوگا ، وہاں مزاحمت ہوگی۔ غاصبوں سے
آزادی حاصل کرنے کا حق ایک بنیادی انسانی حق ہے ،جسے اقوام متحدہ کا چارٹر
بھی تسلیم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے دو سے میں سے ڈیڑھ سو کے قریب ممالک اسی
خود ارادیت کی بنا پر آزاد ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ حق اقوام
متحدہ نے تسلیم کیا ہے کہ حق خود ارادیت جمہوری طریقے سے نہ ملے اور اس حق
کو قوت سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو آپ کو اپنے تحفظ کیلئے مزاحمت کا
بنیادی حق حاصل ہے، جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حق کے
استعمال کو دہشتگردی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔لیکن نائن الیون کے بعد
بھارت نے کشمیری حریت پسند تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔یہ تو
تازہ ترین واقع ہے کہ طاقت ور ملکوں کی دھونس ، ہٹ دھرمی اور ہرزہ سرائی کو
مسترد کرنے والے افغان طالبان کل تک دہشتگرد تھے اور آج ان کے ساتھ گفتگو
اور معاہدہ کو جائز تسلیم کر لیا گیا ہے۔یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پاکستان
کی کشمیر کمیٹی گزشتہ بیس سالوں سے اپنا فرض منصبی ادا کرنے میں بری طرح
ناکام رہی ہے۔موجودہ حکومت کے پہلے آٹھ مہینوں میں اس کا کوئی سربراہ نہ
تھا، اور جب سربراہ بنایا گیا تو ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ضرورت
اس امر کی ہے کہ جماعتی مصلحت سے بالاتر ہو کر کشمیر کمیٹی کو یقینی طور پر
ملکی کمیٹی بنایا جائے۔اور ایک لائق و متحرک شخص کو اس کمیٹی کا سربراہ
مقرر کیا جائے ، اس کے علاوہ ایک سفارتی تجربہ کار معاون بھی مقرر کیا
جائے۔
|