بالادستی

۹۷۹۱ ایک ایسا سال ہے جب سوویت یونین (روس ) نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی اور گرم پانیوں تک رسائی کا منصوبہ بنا یا تھا۔ پاکستان، افغانستان اور امریکہی اتحادیوں کا روس کی اس یلغار پر سیخ پا ہونا فطری تھا کیونکہ روس کے عزائم بڑے خطرناک تھے۔ روس مشرقِ وسطی پر اپنی برتری قائم کرنا چاہتا تھا اور امریکی اسے اس قبضے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ روس اس وقت چونکہ دنیا کی سپر پاور تھا لہٰذا اپنی طاقت کے زعم میں اس نے افغانستان پر بزورِ قوت قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ روسی ٹینک افغانستان پر چڑھ دوڑے اور افغانستان روس کے ہاتھوں بڑی بے رحمی سے تاراج ہوا۔ کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور افغانستان کی گلیاں لہو سے تر بہ تر ہو گئیں ۔روس نے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومتیں مسلط کر دیں جن کا واحد مقصد عوام کو زیرِ جبر رکھنا تھا۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کی پیشقدمی روکنے کے لئے افغانیوں کی بھر پور مدد کی ا نھیں جدید اسلحے سے لیس کیا اور مالی مداد سے نوازا۔پاکستان نے اس مشکل وقت میں امریکہ کا بھر پور ساتھ دیا اور ۵۳ لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی۔ افغانستان ، امریکہ،یورپ اور پاکستانی افواج کے باہمی اتحاد نے روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور دس سال کی مسلسل جنگ کے بعد اسے بڑی رسوائی کے ساتھ افغانستان کی سرزمین سے نکال باہر کیا۔

ہماری خود سرائی کی عادت ہمیں نہ جانے کہاں تک لے جائے گی کیونکہ ہم نے دوسروں کی فتح کو اپنے کھاتے میں ڈال کر لڈیاں ڈالنے کی روائت قائم کر رکھی ہے۔اب ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ افغانستان سے جب کبھی بھی روس کے انخلا کی بات کی جاتی ہے تو اس کا سارا کریڈٹ افغان مجاہدین کے پلڑے میں ڈال دیا جاتا ہے اور افغانی مجاہدین کو ما فوق الفطرت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ یہ جنگ در اصل امریکہ اور روس کی با لا دستی کی جنگ تھی۔ جس میں روس کو شکستِ فاش ہو ئی اور امریکہ اسی جنگ کے بعد دنیا کی واحد سپر پاو بن کر ابھرا۔ یہ ضرور ہے کہ افغانیوں اور پاکستانیوں نے اپنی حمائت اور حماقتوں سے امریکہ کو اس مسند پر بٹھا نے کے لئے ہر ممکنہ مدد فراہم کی۔روس کی پسپائی در اصل امتِ مسلمہ کی مشکلات کا نکتہ آغاز تھا کیونکہ روس کی پسپائی کے بعد امریکہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے ابھرا اور اس نے مسلمانوں کو اپنے نشانے پر ر کھ لیا جس کا عملی مظاہرہ عراق میں صدام حسین کا عبرت ناک انجام تھا۔ افغانستان اس کا اگلا نشانہ تھا اور اس یلغار سے پر امن دنیا میں جس طرح سے بد امنی اور تشدد نے جنم لیا اس نے پاکستان کی خو شحالی اور ترقی پر بڑے منفی اثرات مرتب کئے۔

مشرقِ وسطی کی بہت سی ریاستیں روس کے قریب تصور ہو تی تھیں۔ مصر، شام اور لیبیا میں عوامی انقلا بات کی وجہ سے عوام کا رحجان روس کی طرف تھا اور وہ روسی بلاک میں ہونے کی وجہ سے امریکی حاکمیت اور جارحیت سے کوسوں دور تھے۔لیکن روسی چھتری کے غائب ہوتے ہیں امریکہ نے ان تمام ممالک میں عدمِ استحکام کی صورتِ حال پیدا کر دی ہے اور آج ان ممالک کا ساتھ دینے والال کوئی نہیں ہے اور وہ نیٹو کی بمباری اور جارحیت کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ کی عالمی برادری میں رعب اور دبدبے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ خود ہی استغاثہ ہے خود ہی گواہ ہے اور خود ہی منصف بھی ہے۔ اب اس کیفیت میں کمزور ریاستیں داد رسی کے پانے کے لئے کسی کی جانب د یکھنے کی قوت نہیں رکھتیں کیونکہ کوئی بھی ریاست امریکہ کو للکارنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ جب تک روس ایک طاقتور ملک کی حیثیت میں موجود تھا اسرائیل بھی خوف کا شکار تھا لیکن روس کی پسپائی کے بعد اسرائیل بھی شیر ہو گیا ہے اور اپنی توسیع پسندی کے منصوبے بنا رہا ہے۔ اسرائیلی کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے فلسطین کی ریاست دن بدن سکڑتی جا رہی ہے اور اسرائیلی ریاست کا رقبہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اپنے اس نئے کردار میں اسرائیل کو امریکہ کی مکمل آشیرواد ہے جب کہ مسلمانوں کا کوئی بھی پرسانِ حال نہیں ہے اور وہ دباﺅ کا شکار ہیں۔

فرض کر لیں کی اصلی فتح افغانیوں کو ہی ملی تھی تو پھر اصولاُ روس کی شکست و ریخت کے بعد افغانستان کو عالمی امور میں مرکزی حیثیت ہو نی چائیے تھی اور امامتِ دنیا کی مسند پر اسے جلوہ افروز ہونا چاہیے تھا لیکن وہاں کی جو حالت ہے وہ ساری دنیا کے علم میں ہے۔ نانِ جویں کو ترستے اور غربت و افلاس چکی میں پستے ہوئے ہو ئے افغانی دنیا میں دھشت گردی کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں مہاجرین آج بھی موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ان کی معاشی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ ا فغانی کرنسی کا دنیا میں کوئی خریدار نہیں ہے اور افغانیوں کو کو ئی ملک دا خلے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ افغانی بھوک، ننگ اور معاشی بد حالی کا شکار ہیں۔ امریکہ نے ان کے ملک پر قبضہ کر رکھا ہے اور کٹھ پتلی صدر حامد کرزئی مملکت کے سارے فیصلے ا مریکی حکام کی ہدائت کے مطابق کرتا ہے ۔اگر افغانی ہی اس جنگ کے اصلی فاتح ہو تے تو کیا امریکہ افغانستان کی یوں اینٹ سے اینٹ بجا دیتا اور کیا اس کی معاشی حالت اس قدر ابتر ہوتی۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکہ ہی کولڈ وار کا فاتح تھا اور اب اس کی نظریں مڈل ایسٹ کے تیل پر مرکوز تھیں اور اس کے حصول کے لئے لیبیا میں ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق دخل اندازی کا راستہ تراشا گیا ہے تاکہ عراق کی طرح لیبیا کے تیل پر بھی قبضہ کیا جاسکے۔ دنیا کا کوئی ملک امریکہ کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے کیونکہ کسی میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اسے روکا جا سکے۔ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ روس کی شکست در اصل ہماری اپنی شکست تھی لیکن اسوقت ہمیں اس کا مکمل ادراک نہیں تھا۔ہم ڈھول پیٹ رہے تھے کہ ہم نے روس کی ریاست کا شیرازہ منتشر کردیا ہے لیکن ابھی ہمارے نعروں کی آواز فضا میں ہی گردش کر رہی تھی کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر کے اس حقیقت کو ثابت کر دیا کہ اصل فتح امریکہ کی ہی تھی اور اگر کسی کو اس میں کوئی شک ہے تو وہ اس شک کو اپنے دل ود ماغ سے جھٹک دے۔

روس کی شکست و ریخت کی اس غلطی کی سزا ہم بھگت رہے ہیں کیونکہ واحد سپر پاور کی ساری عنایات کا سارا زور امتِ مسلمہ پر ہی ہے ۔ مسلمان بخثیت مجمو عی امریکی سامراجیت کا شکار بنے ہو ئے ہیں اور ان کی وہ درگت بنی ہو ئی ہے کہ جس سے رہائی کی راہیں فی الحال مسدود ہیں۔امریکہ کے دل کے نہاں خانوں میں کہیں پر یہ خدشہ جا گزین ہے کہ اسلام ا پنے انسانیت ساز ، حیات آفریں اور آفاقی پیغام کی وجہ سے امریکہ کے لئے خطرہ بن سکتا ہے لہٰذا امریکہ مسلمانوں کو دبا کے رکھنا چاہتا ہے تاکہ ایسی نوبت ہی نہ آسکے جو اس کی سپر میسی کو چیلنج کر سکے۔ ایک زمانہ تھا کہ مریکہ کو کیمو نزم سے خطرہ تھا لہٰذا اس نے اس خطرے کو روس کی شکست و ریخت سے دور کر دیا۔ اب اسلام سے سے خطرہ ہے لہٰذا وہ مسلمان مملکتوں میں خانہ جنگی اور عدمِ استحکام سے انھیں کمزور کرتا رہے گا اور ان کے حصے بخرے کر کے اپنے مقاصد حاصل کر لے گا ۔

روس کے تسلط کو ختم کرنے اور اسے اس خطے سے نکال باہر کرنے والوں میں مذہبی گروہ امریکہ کے دست و بازو بنے تھے اور کمیونزم کی یلغار کو روکنے کے لئے امریکہ کے حلیف قرار پائے تھے حالانکہ سوشلزم اپنی بنیادی تعلیمات ، پروگرام اور کمزوروں کی بالادستی کے لحاظ سے اسلام کے زیادہ قریب تھا لیکن اسی غریب پرور نظام کے خلاف امر یکہ کا ساتھ دے کر بنیادی حقائق سے چشم پوشی کی گئی۔ امریکہ روس سے اپنے حساب بے باک کرنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے ان مذہبی گروہوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ۔ ان مذہبی عناصر میں ایک اہم نام اسامہ بن لادن کا بھی تھا۔امر یکہ اس کی بڑی قدرو منزلت اور آﺅ بھگت کرتا تھا کیونکہ وہ دولت مند شخص تھا اور اپنی دولت اور مذہبی لگاﺅ کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو افغان جنگ میں جھونک سکتا تھا اور امریکہ کو بھی ایسے ہی ایندھن کی ضرورت تھی جو اس کے مقاصد میں استعمال ہو سکے۔امریکہ اور اسامہ بن لادن کے تعلق بڑے دوستانہ تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ بڑے احترام سے پیش آتے تھے لہٰذا یہ کہنا کہ اسامہ بن لادن آج اس وجہ سے امریکہ کے خلاف ہوا کہ وہ سعودی عرب میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کے خلاف تھا سراسر جھوٹ اور لغو ہے۔ سعودی عرب میں تو امریکہ کا اثرو رسوخ شروع دن سے ہی ہے لہٰذا اگر امریکہ سے ا ختلافات کی یہی ایک وجہ ہوتی تو پھر اسامہ بن لادن کبھی بھی امریکہ کے ساتھ مل کر روس کے خلاف بر سرِ پیکار نہ ہوتا ۔ اسامہ بن لادن کے امریکہ سے اختلافات اسلامی مملکت میں مداخلت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی انا پرستی سے پھوٹے تھے ۔ یہ خطے میں سیاسی بالا دستی کی وہ خواہش تھی اور آرزو تھی جس نے دونوں کے راستے علیحدہ کر دئے۔روس کی شکست کے بعد اسامہ بن لادن ایک طاقتور شخصیت بن کر ابھرا تھا لہٰذ اس خطے میں اپنے نئے کردار کے لئے اسے امریکی حمائت اور پشت پناہی درکار تھی لیکن امریکہ نے وہ حمائت دینے سے معذرت کر لی اور محرومی کا یہی وہ زہر ہے جہاں سے اسامہ بن لادن اور امریکی دشمنی کی ابتدا ہوئی۔۔

اسامہ بن لادن جنرل ضیا الحق کے مداحوں میں تھا اور جنرل صاحب کے ساتھ اس کے تعلقات بڑے شاندار تھے لیکن جنرل ضیا کی عبرت انگیز موت کے بعد اسے وقتی طور پر دھچکا لگا لیکن چونکہ جنرل ضیا الحق کے حواریوں سے اس کا براہِ راست تعلق تھا اور وہ ان کی معاونت سے اپنے خوابوں میں مذہبی حکومت کے قیام میں رنگ بھرنا چاہتا تھا اس لئے اس نے پاکستان میں بھی اپنی تنظیم سازی شروع کر دی اور مذہبی حلقے اس کے دام میں آتے چلے گئے۔ اس کی نظریں پا کستانی اقتدار پر لگی ہو ئی تھیں۔ ۸۸۹۱ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے مسلم دنیا کی پہلی منتخب وزیرِ اعظم کی حیثیت سے حلف نے مذہبی حلقوں میں طوفان برپا کردیا تھا۔ ایک عورت کی حکومت مذہبی طبقوں اور اسامہ بن لادن کو کسی بھی حالت میں گوارا نہیں تھی لہٰذا اس نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدمِ ا عتماد کی تحریک پیش کی ۔عدمِ اعتاد کی یہ تحریک بظاہر ناکام ہو گئی لیکن اس نے مذہبی قوتوں اور اسامہ بن لادن کے من میں چھپے ہوئے عزائم کو سمجھنے میں بڑی مدد د ی۔ غیر ملکی ہونے کے ناطے اسامہ بن لادن کو پا کستانی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق حاصل نہیں تھا لیکن چونکہ وہ میاں برادران اور مذہبی قوتوں کا ڈار لنگ تھا لہٰذا دائیں بازو کے سیاستدانوں کی جانب سے پاکستانی سیاست میں اس کی مداخلت پر کوئی شور شرابہ نہیں کیا گیا بلکہ اسے ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا اور اسے دل کھول کر خوش آمدید کہا گیا ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے لئے اس نے چار ارب کی خطیر رقم خرچ کی تاکہ وہ ممبرانِ اسمبلی کی ہارس ٹر یڈ نگ کا کھیل کھیل سکیں۔میرے خیال میں اسامہ بن لادن کی پاکستانی سیاست میں دلچسپی کو ثابت کرنے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کا معرکہ ہی کافی ہے ۔ اپنی ذات کی تشہیر ، عالمی سیاست میں اپنی اہمیت کو ثابت کرنے اور امریکن دشمنی کو ثابت کرنے کے لئے نائن الیون ( ۱۰۰۲ ) کا وہ وقعہ رونما ہوا جس نے پا کستان میں دھشت گردی کی بنیادیں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اسامہ بن لادن کو پاکستان کا خیر خواہ اور ہمدرد کہنا تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ پاکستان کی موجودہ حا لت کا ذمہ دار اور کوئی نہیں بلکہ اسامہ بن لادن ہے جس کے خود کش بمباروں نے گھر گھر میں صفِ ماتم بچھائی ہے اور امن پسند گھروں کو اجاڑا ہے اور امریکی بالادستی کے لئے ساری راہیں کشادہ کی ہیں۔
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے؟ ۔۔اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام (ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ)
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 630 Articles with 522136 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.