اسلامی تعلیمات میں صراحت سے خودکشی کو حرام قرار دیا گیا
ہے اور خودکشی کرنے والا جہنمی۔ یہ جسم وجاں خالق ومالکِ کائینات کی امانت
ہے اور یہ اُسی کا حق واختیار ہے کہ وہ اِس امانت کو کب اور کیسے واپس لیتا
ہے۔ جب کوئی شخص اپنی زندگی ختم کرنے کے درپے ہوتا ہے تو بیک وقت کفرانِ
نعمت کرنے والا، اﷲ کے اختیارِ کُلی میں شریک بننے کی کوشش کرنے والا اور
انتہائی مایوس انسان بن جاتا ہے۔ اُس نے زندگی جیسی اﷲ تعالیٰ کی نعمت کو
ٹھکرایا، خودکشی کی کوشش کرکے رَب کے اختیار میں شرکت کی سعی کی اور مایوسی
کے عالم میں اﷲ کے اِس حکم سے روگردانی کی ’’رَب کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘‘۔
سورۃ بقرہ آیت ۱۹۲ میں ارشادِ رَبی ہے ’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت
میں نہ ڈالو‘‘۔ سورۃ النساء آیت ۲۹/۳۰ میں یوں ارشاد ہوا’’اور اپنی جانوں
کو مت ہلاک کرو، بیشک اﷲ تم پر مہربان ہے۔ جو کوئی تعدی اور ظلم سے ایسا
کرے گاتو ہم عنقریب اُسے آگ (دوزخ) میں ڈال دیں گے اور یہ اﷲ کے لیے بالکل
آسان ہے‘‘۔
حضورِاکرمﷺ کی کئی احادیثِ مبارکہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ کسی بھی ذریعے یا
طریقے سے خود کو ہلاکت میں ڈالنا حرام ہے اور اِس کی سزا جہنم ہے۔ اِسی لیے
مختلف مکتبۂ فکر کے آئمہ کرام کے نزدیک خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ
جائز نہیں کیونکہ نمازِ جنازہ بھی دراصل مرنے والے کے لیے دُعائے مغفرت ہی
ہوتی ہے اور جب یہ طے ہو گیا کہ خودکشی کرنے والا جہنمی ہے تو پھر نمازِ
جنازہ کیسی؟۔ مستند تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ حضورِاکرم ﷺ نے کسی خودکشی
کرنے والے کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی۔
یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ کوروناوائرس کی ہلاکت خیزیوں کے
باوجودجو ’’شتربے مہار‘‘ گلیوں، بازاروں میں نکلے ہوئے ہیں، کیا وہ صریحاََ
خودکشی کی کوشش نہیں کر رہے؟۔ کیا وہ معاشرے کے ناسور نہیں جو بغیر کسی
حفاظتی انتظام کے بازاروں میں نکل کر نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پیاروں کی
زندگیوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔ کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا عورتیں اور کیا مرد،
سبھی کا رُخ بازاروں کی طرف یوں کہ جیسے یہ موقع دوبارہ ہاتھ نہیں آئے گا۔
خُدا کے بندو! اگر زندہ رہے تو ایسے مواقع اور ایسے تہوار بار بار آتے رہیں
گے لیکن اگر زندہ ہی نہ رہے تو؟۔
ہمیں اِن منچلوں اور مَنچلیوں کے بازاروں میں نکلنے پر کوئی اعتراض ہے نہ
خریداری پر۔ اگر یہ مرنا ہی چاہتے ہیں تو شوق سے مریں لیکن مسلٔہ یہ کہ یہ
ایسے خودکش بمبار بن رہے ہیں جو کئی معصوموں کو بھی کورونا زدہ کرکے موت کی
وادیوں میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف
اور ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کا اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اِن
خودکش بمباروں کو بچانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا لائقِ تحسین۔ یہ بھی
اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ ایک طرف زندگیاں بچانے والے مسیحا اور دوسری
طرف یہ خودکش بمبار۔ حیرت ہے کہ میڈیکل اور پیرامیڈیکل سٹاف کے ساتھ کورونا
مریضوں کو لانے لیجانے والے ریسکیو اہلکاروں کا کہیں نام نہیں حالانکہ
میڈیکل اور پیرامیڈیکل سٹاف کی طرح یہ بھی اپنی جانوں پہ کھیلتے ہوئے
میدانِ عمل میں ہیں۔ ریسکیو 1122 میں ڈاکٹرز بھی ہیں اور ٹرینڈ عملہ بھی جن
کی کوششیں اور کاوشیں روزِ روشن کی طرح عیاں۔ اِس لیے اِن کی کاوشوں کو
سراہنا ہمارا فرض۔
حکومتِ وقت نے لاک ڈاؤن یہ کہتے ہوئے ختم کر دیا کہ قوم اپنی جانوں کی
حفاظت خود کرے۔ کورونا وائرس کے انچارج ڈاکٹر ظفر مرزا نے عجیب منطق نکالتے
ہوئے کہا ’’کورونا وائرس سے سب کو گزرنا ہے، بہتر ہے کہ وائرس کو پھیلنے
دیا جائے تاکہ لوگوں میں قوتِ مدافعت پیداہو سکے‘‘۔ موجودہ حکومت کے مدار
المہام اسد عمر دور کی کوڑی لائے۔ کہتے ہیں ’’کورونا سے نمٹنے کے دو ہی
راستے ہیں، ایک وائرس سے بچاؤ کی ویکسین اور دوسرا ملک کی 70 فیصد آبادی کو
کورونا وائرس کا شکار ہونے دیا جائے اور قوتِ مدافعت حاصل کی جائے‘‘۔ شاید
ارسطوئے دَوراں اسد عمر کے اِسی بیان سے متاثر ہوکر خانِ اعظم نے بھی فرما
دیا ’’ہمیں اب کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے‘‘۔ اگر اسد عمر کے 70
فیصد کو مدِنظر رکھا جائے تو 15 کروڑ 40 لاکھ لوگ کورونا وائرس کا شکار
ہوتے ہیں اور اگر حکومت کے موجودہ اعدادوشمار کے مطابق صرف 2 فیصد لوگ موت
کا شکار ہوں تو اموات کی تعداد 30لاکھ 80 ہزار تک جا پہنچتی ہے۔ لاک ڈاؤن
کے خاتمے کے بعد پنجا ب میں صرف ایک دن میں کورونا مریضوں کی تعداد میں 50
فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔قومی ادارۂ صحت کے ڈی جی میجر جنرل عامر اکرم کے
مطابق اگر کورونا مریضوں میں 15 سے 20 فیصدتک اضافہ ہو جائے تو اِس سے
نمٹنا ممکن لیکن اِس سے زیادہ اضافہ مسلٔہ بن سکتا ہے۔ اِس لیے حکومت اپنے
فیصلے پر دوبارہ غور کرے۔ حکمرانوں نے اپنے فیصلے پر کیا خوب غور کیا کہ
شاپنگ مالز اور دیگر دُکانوں کے اوقاتِ کار میں 5 گھنٹوں کا اضافہ کر دیا۔
اب پورا ملک رات 10 بجے تک کھُلا رہے گا۔
چین کے شدید مخالف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے دن سے کورونا وائرس کو
’’چینی وائرس‘‘ کا نام دے رہے ہیں۔ اُنہیں دراصل یہ غُصہ ہے کہ چین امریکہ
کی معیشت پر کیوں چھا رہا ہے۔ اب اپنی بچی کھچی عزت بچانے کے لیے امریکہ نے
’’نینوچِپ‘‘ کی ’’شُرلی‘‘ بذریعہ بِل گیٹس چھوڑدی ہے جس میں اسرائیل کا
تَڑکہ بھی لگادیا گیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ ویکسین کے ذریعے ’’نینوچِپ‘‘
کو انسانی جسم میں داخل کرکے اذہان کو مفلوج کرکے پوری دنیا پر حکمرانی کا
خواب پورا کیا جائے گا (ہمارے خیال میں یہ نینوچِپ افواہ سازی کے کارخانے
سے نکلی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں)۔ عرض ہے کہ دو عشروں سے 9/11 کا
قضیہ حل نہیں ہوا اور اسامہ بِن لادن کی موت ابھی تک معمہ۔ہماری یہ عادت کہ
بھارت حملہ کرے تو پیچھے یہودی، وبا پھیلے تو یہودی، ویکسین ملے تو یہودی۔
اگر 80 لاکھ آبادی پر مشتمل اسرائیل پورے عالمِ اسلام کے قابو میں نہیں
آرہا تو تُف ہے ایسے زندگی پر۔ حقیقت یہی کہ جب بندے کو اپنے زورِ بازو پر
بھروسہ نہ ہو تو وہ ’’دِل کے خوش رکھنے کو‘‘ ایسے الزام لگا کر ہی اپنے آپ
کو مطمئن کرتا ہے۔ ہمارے پاس ایک گھڑاگھڑایا تیر بہدف نسخہ ایک اور بھی ہے
کہ جب اپنے ہی کرتوتوں کے سبب شکنجہ کَس جائے تو اُسے شیطانی کرتوت قرار دے
دو، سبھی یقین کر لیں گے۔ اُدھر بیچارہ شیطان دہائیاں دیتا ہوا کہتا ہے
مجھ کو ہنسی آتی ہے اِس حضرتِ انسان پر
فعل بَد تو خود کرے ، لعنت کرے شیطان پر
آخر میں کراچی میں پی آئی اے کے اندوہناک حادثے میں قیمتی انسانی جانوں کے
ضیاع پر دِل دُکھی۔ ہم لواحقین کے ساتھ دِل کی گہرائیوں سے تعزیت کا اظہار
کرتے ہیں کہ اِس کے سوا انسانی بَس میں ہے ہی کیا۔ طیارہ حادثے کی انکوائری
شروع ہو چکی لیکن ایسے ہی گزشتہ حادثات کی انکوائری پہلے کب پایۂ تکمیل تک
پہنچی جو اب پہنچے گی۔
|