کورونا….امریکااوریورپی یونین میں تجارتی فاصلہ

کوروناوائرس کے ہاتھوں پھیلنے والی تباہی کے اثرات دیکھتے ہوئے یورپ کیلئےمارشل پلان کی طرزپرکسی بڑے امدادی پروگرام کی بات کی جارہی ہے۔یورپی یونین کمیشن کے صدر،اطالوی وزیراعظم اورہسپانوی وزیراعظم یورپ کے اُن رہنماؤں میں نمایاں ہیں جوابھی سے مارشل پلان کی طرز پر کوئی بڑاامدادی پیکیج متعارف کرانے کے حق میں بات کرنے لگے ہیں۔ یورپی یونین کمشنرتھیئری بریٹن نے تویہ بھی کہاہے کہ یورپ میں سیاحت کے شعبے کی مکمل اوربروقت بحالی کیلئےبھی الگ سے کوئی بڑا امدادی پیکیج آناچاہیے۔

یادرہے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پریورپ کودوبارہ اپنے پیروں پرکھڑاہونے کے قابل بنانے کیلئےامریکانے ایک بڑا منصوبہ شروع کیاتھا،جسے مارشل پلان کانام دیاگیاتھا۔اس پروگرام کے تحت یورپ کے18ممالک کو12/ارب ڈالردیے گئے جوآج کی قدرکے اعتبارسےکم وبیش200/ارب ڈالرہوتے ہیں۔برطانیہ کومارشل پلان کے تحت کی جانے والی فنڈنگ کا26 فیصد،فرانس کو 18فیصد اورمغربی جرمنی کو11فیصدملا۔مارشل پلان یورپ کودوبارہ معاشی استحکام کی راہ پرگامزن کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اشتراکیت کاپھیلاؤروکنے کیلئےبھی تھا۔دوسری جنگِ عظیم کے بعدفرانس اورجرمنی میںاشتراکیوں نے مستحکم ہوناشروع کردیاتھا۔سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں ہونے والی تباہی سے بدظن عوام اشتراکیت کی طرف جھک رہے تھے۔ایسے میں امریکااور اُس کے حاشیہ برداروں کیلئےلازم ہوگیاتھاکہ اشتراکیت کی راہ روکنے کیلئےکھل کرمیدان میں آئیں اورکمزورممالک کوامداد دے کراشتراکی بلاک کی طرف جانے سے روکیں۔مارشل پلان شرائط سے پاک نہ تھا۔یورپ کے کمزورممالک کوامریکااورمضبوط یورپی ممالک کی بہت سی باتیں مانناپڑیں۔

مارشل پلان کواُس وقت کے امریکی وزیرخارجہ جنرل جارج مارشل سے موسوم کیا گیاتھا۔اُس وقت کے امریکی صدرہیری ٹرومین کے دستخط سے یہ پلان 3/اپریل1948ءکونافذکیاگیاتھا۔(بحالیٔ یورپ) پروگرام کہلانے والے اس منصوبے کوبعد میں یوروپین ریکوری ایکٹ میں تبدیل کردیاگیا۔

آج کے یورپی قائدین کاحافظہ کمزورہوچلاہے۔اُنہیں75سال پہلے کے حالات کاکچھ اندازہ ہی نہیں۔دوسری جنگِ عظیم نے یورپ کو تباہی سے دوچارکردیاتھا۔ایسے میں لازم تھاکہ یورپ کی تعمیرنوپرتوجہ دی جاتی۔یورپ کوجس معاشی بدحالی کاسامناتھا،وہ ایک بڑی جنگ کانتیجہ تھی۔آج حالات بہت مختلف ہیں۔ایک وائرس کے ہاتھوں پیداہونے والی پیچیدگیوں کوکسی بھی اعتبارسے اُن حالات پرمنطبق نہیں کیاجاسکتاجوعالمی نوعیت کی جنگ کی کوکھ سے پیداہوئے تھےاوریہ بات بھی قابلِ غورہے کہ جس طورمارشل پلان کونافذکیاگیاتھااگرآج اُسی طرزکے کسی امدادی پیکیج کواُسی اندازسے نافذکرنے کی کوشش کی گئی تویورپ ہی میں اِس کی مخالفت میں آوازیں اٹھنے لگیں گی۔یہ حقیقت یانکتہ کسی بھی طورنظرانداز نہیں کیاجاناچاہیے کہ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پرفرانس، جرمنی اوردیگریورپی ممالک میں اشتراکیوں کی پوزیشن مستحکم ہونے لگی تھی۔یہ امریکااوراس کے ہم نواممالک کیلئےخطرے کی گھنٹی تھی۔اشتراکیت کی راہ روکنے کیلئے امدادی پیکیج کامتعارف کرایاجانالازم تھا۔سابق سوویت یونین کے راہنمااسٹالن نے ترکی اوریونان میں اشتراکیت کی جڑوں کومستحکم کرناشروع کردیاتھا۔مشرقی یورپ کے جن ممالک میں اشتراکی مستحکم تھے،وہاں غیر اشتراکیوں کاصفایاکرنے کی مہم شروع کردی گئی تھی۔
آج کے یورپ میں کئی ممالک ایسے ہیں جنہیں کوروناوائرس کے ہاتھوں تباہی کاسامناکرنے کیلئےتنہاچھوڑدیاگیاتووہاں دائیں بازو کی عوامیت پسند اورقوم پرست جماعتوں کے ذریعے یورپی یونین مخالف جذبات کوتیزی سے فروغ پانے کاموقع ملے گا۔آج یورپی یونین کے ارکان میں عوامی جذبات کے اُچھال کی بنیادپرسیاست کرنے کارجحان تیزی سے فروغ پارہاہے مگریہ جذبات کسی بھی طوراِتنے طاقتورنہیں کہ اشتراکیوں کی طرح پوری قوت سے معاشرت ومعیشت کودبوچ سکیں۔

یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ مارشل پلان کے تحت یورپ کودی جانے والی رقم آج کی قدرکے اعتبارسے200ارب ڈالرتھی جبکہ اس وقت یورپی یونین کمزورپڑجانے والے ارکان کی بحالی کیلئےکم وبیش1500/ارب ڈالرکااہتمام کررہی ہے۔یہ فنڈنگ یوروپین اسٹیبلٹی میکینزم اوریورپین سینٹرل بینک کے ذریعے ممکن بنائی جائے گی۔ہاں،اس فنڈنگ کی تقسیم کے طریق کارپر اختلافات ضرور پائے جاتے ہیں۔شمالی یورپ کے مضبوط اورخوش حال ممالک (سوئیڈن، ڈنمارک،جرمنی وغیرہ) نہیں چاہتے کہ امدادی رقوم شرائط کے بغیردی جائیں۔جنوبی یورپ کی کمزوراورقدرے بدحال ریاستوں کی بھرپورمددکرنے کے حوالے سے اختلافات اورتحفظات پائے جاتے ہیں۔

مارشل پلان کے تحت دی جانے والی رقوم بنیادی طورپرانتہائی آسان شرائط کے تحت دیے جانے والے قرضوں پرمشتمل تھیں اور اس میں بھی امریکاکامفاد نمایاں تھا۔وہ چاہتاتھا کہ اُس کی صنعتی برآمدات بڑھیں۔مشین ٹولزاورمشینری کی یورپ کو اشد ضرورت تھی ۔ پیداواری عمل بھرپوراندازسے شروع کرانے کیلئےامریکانے یورپ کی اِس طورمددکی کہ اُس کی اپنی برآمدات کوبھی فروغ ملا۔

امریکاکی سربرآوردہ کاروباری شخصیات نے مارشل پلان پرعمل کی بھرپورنگرانی کی۔انہوں نے امدادوصول کرنے والے ہر یورپی ملک کے دارالحکومت میں اپنے دفاترکھولے تاکہ اس بات کویقینی بنایاجاسکے کہ امدادامریکاکے طے کردہ طریق کارکے مطابق ہی تقسیم اوراستعمال ہورہی ہے۔صنعتی پیداوارکے امریکی ماہرین اورٹریڈیونین راہنماؤں نے یورپ کے دورے کیےجن میں وہاں کی حکومتوں کویہ باورکرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کاروباری نظم ونسق کے جدید ترین اصول اوراطوارہی حقیقی خوش حالی یقینی بنانے کیلئےناگزیرہیں۔ اٹلی نے کہاہے کہ اُسےشرائط کے بغیرامدادکی ضرورت ہے۔اُس نے ابھی سے اعلان کردیاہے کہ مارشل پلان کی طرزپر دی جانے والی امداد اُسے قبول نہ ہوگی اوراُسے کسی بھی منصوبے کے حوالے سے بیرونی نگرانی قبول نہیں۔

اشتراکیوں نے مارشل پلان قبول کرنے سے انکارکردیاتھا۔سابق سوویت یونین کے زیرِاثرمشرقی یورپ کے ممالک نے تعمیرنو کیلئےاپنے زورِ بازوپربھروساکرنےکی ٹھانی۔مارشل پلان کے تحت دی جانے والی امدادقبول کرنے سے انکارکیاگیا۔فرانس میں امریکی مخالفت اس قدربڑھی کہ مارشل پلان کے تحت لائی جانے والی امدادکومنزل تک پہنچنے سے روکنے کیلئےایک ٹرین پر حملہ کرکے16/افرادکوقتل بھی کردیاگیا۔یہ انتہائی رویہ بیک فائرکرگیا۔1950ء کی دہائی کے دوران برطانیہ،فرانس،اٹلی اورجرمنی پررجعت پسندوں کی حکومت رہی۔

مارشل پلان آزاد تجارت پرمبنی تھااوردوسری جنگِ عظیم کے ہاتھوں تباہ ہونے والی یورپی ریاستوں کوسیاسی اعتبار سے مربوط ہونے کی تحریک دی گئی۔اس وقت یورپ کو معیشتی بحالی کیلئےامدادکی ضرورت ہے۔مارشل پلان کی طرزپرکوئی پیکیج پرکشش تودکھائی دیتاہے مگریہ بات یادرکھنے کی ہے کہ اس وقت یورپ میں وہ حالات نہیں جومارشل پلان کے وقت تھے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 317163 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.