راقم الحروف کا تعلق برصغیر کے پرانے ترین ضلع سے ہے ۔
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہم ان روایات کے امین ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں
نام پایا ہے۔ اب یہاں کے لوگ سلجھ رہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کس طرح انہیں
روایات کا پاس رکھنا ہے، انہیں معلوم ہے کہ اپنے حقوق کی جنگ انہیں اپنے
بازؤں سے لڑنی ہے، اور وہ یہ بھی جاننے لگے ہیں کہ سیاسی و مذہبی منافرت نے
کس طرح ان کو سالوں پیچھے چھوڑ دیا ۔ اس سے پہلی نسل نے ان تعصبات کی وجہ
سے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔اور ان سے اب آئندہ نسلیں عبرت حاصل کر کے آگے
بڑھنے اور دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے پنپ رہی ہیں۔مگر یہاں کے مسائل جوں کے
توں ہیں۔ اس کے پیچھے اہم سبب پچھلی نسل کا نسل نو پر غلامانہ دباؤ، اور
اپنے حقوق کیلئے آواز نہ اٹھانا ہے۔جھنگ کے مسائل کے بارے بات کرتے ہوئے
قبروں سے گڑھے مردے اکھاڑے جائیں یا عصر حاضر کی بات کی جائے دونوں میں
کوئی فرق نہیں۔ مختصریہ کہ جھنگ کی ستر سالہ تاریخ میں مسائل کا کوئی حل
نہیں نکالا گیا ہے، جو بھی ریلیف دیا گیا وہ عارضی تھا ثابت ہوا اور مستقبل
میں وہ پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر صورتحال میں سامنے آیا۔میونسپل کارپوریشن
سمیت دیگر تحصیل میونسپل کمیٹیوں کے قیام کا مقصد تو یہی تھا کہ کم از کم
ترقیاتی کام بلا تفریق شروع ہوں گے اور مکینوں کو سکھ کا سانس نصیب ہوگا۔
لیکن حالات اس کے برعکس ہیں۔ کارپوریشن کے قیام سے تحصیل جھنگ کے شہری
علاقے کی صورتحال میں بہتری نہیں لائی جا سکی جبکہ باقی ضلع بھر کا رونا
دھونا تو سالوں سے چل رہا ہے۔ اس وقت ضلع جھنگ بھر کا تصفیہ طلب مسئلہ
سیوریج کا ہے۔ اس بارے میں گزارشات یہی ہیں کہ نئے میونسپل کارپوریشن کو
متحرک کیا جائے اور نئے سرے سے سیوریج ڈالنے کی بجائے جو سیوریج کا حصہ
کارآمد ہے خاص طور پر شہر کے وسط میں جہاں آباد کاریاں ہو چکی ہیں اس پر
محنت کر کے بحال کیا جائے۔ اس کے علاوہ سیوریج کا بڑا حصہ ناکارہ اور خستہ
حال ہے اس کو بند کرنا ہی مناسب ہے، اس کیلئے دوسرا حل یہی ہے کہ شہر کے
گرد موجود سیم نہر کو پختہ کھالے میں بدل دیا جائے او رآبپاشی کی سابقہ
لائنوں جن میں بیشتر نالے بند یا ناپید ہوچکے ہیں انہیں بحال کیا جائے۔ اس
کے علاوہ بچی کھچی سیوریج کی صفائی ستھرائی کو یقینی بنایا جائے۔ کارپوریشن
کے حد پر موجود بائی پاس بھی اس وقت مسافروں کیلئے وبال جان بن چکا ہے۔
چنیوٹ روڈ سے سرگودھا روڈ اور سرگودھا روڈ سے بھکر روڈ کو ملاتا ہوا طویل
بائی پاس ٹوٹ پھوٹ اور خستہ حالی کا شکار ہے، اس پر بھی ستم ظریفی یہ کہ
بائی پاس کی چوڑائی کم اور سیم نہر کے کنارے کے ساتھ چلتا ہے، ایک جانب سیم
نہر اور دوسری جانب آبادی کی سطح نیچے ہونے کی وجہ سے سڑک کے اطراف میں
بلاکس لگائے گئے ہیں، لیکن ان بلاکس کے اوپر انڈیکیٹر نہ لگے ہونے کی وجہ
سے رات کے وقت حادثات یقینی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔اس کیلئے ضروری ہے کہ
جلد از جلد ان سڑکوں کی مرمت اور اطراف میں لگے بلاکس پر انڈیکیٹرز لگائے
جائیں۔ آدھیوال چوک سے بند تک بننے والے سرگودھا روڈ میں بھی بدعنوانی
دیکھنے میں ملی ہے، عوام کو دوہرے رویے کی سڑک کی تعمیر کا وعدہ کیا گیا
تھا لیکن انتہائی کم تر حال کی سنگل روڈ کی تعمیر کی گئی ہے۔ جس نے تین
بارشیں بھی برداشت نہیں کرنی! انتظامیہ ابھی بھی اس پر نظر ثانی کر سکتی
ہے۔کورونا کی صورتحال سے نبر د آزما ہوتے ہوئے جس لاک ڈاؤن کا اہتمام کیا
گیا تھا اس کی شعوری صورتحال بازاروں میں لوگوں کے ہجوم نے ظاہر کر دی ہے!
سو پیاز بھی کھائے اور سو چھتر بھی!ضلع جھنگ کے منتخب نمائندوں اور انتظامی
رویوں کی وجہ سے دیگر تحصیلیں نالاں نظر آتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ شورکوٹ اور
احمد پور سیال میں علیحدگی کی ہوا چل رہی ہے۔ انہیں ان کے حقوق تک رسائی
نہیں دی گئی، اور اب وہاں کے سیاستدان عوام کو علیحدگی والا لالی پاپ دے
رہے ہیں۔حال ہی میں گڑھ مہاراجہ، شورکوٹ اور احمد پور سیال سے فرقہ وارانہ
تعصب کو ہوا دینے کی مذموم کوشش کی گئی ہے جسے قانون نافذ کرنے والے اداروں
نے بروقت روک دیا ۔ اگر ضلعی انتظامیہ ان کیلئے کچھ کر پائے تو سڑکوں،
سیوریج ، گیس، بجلی ،پانی ، صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولیات انہیں باہم
پہنچائے۔ احمد پور سیال اور شورکوٹ میں بھی پوسٹ گریجوایٹ کالجز اور وہاں
کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
شعورو آگہی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی قابلیت بھی وڈیرہ شاہی کی خوشامد میں
ضائع ہو رہی ہے۔ ضلع بھر کے عوامی نمائندہوں کے پاس وزارتیں ہونے کے باوجود
اڑھائی سالوں میں عوام کیلئے کچھ نہیں کیا گیا! حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ
جھنگ کی فلاح و بہبود کیلئے مخلص نوجوانوں کو ساتھ ملاتے اور ان مسائل کو
انجام تک پہنچاتے جو یہاں کی عوام کے دیرینہ مطالبات ہیں۔جھنگ میں ریوینیو
کے اکٹھا ہونے کی کوئی کمی نہیں! اس کے باوجود اگر ہمارے ٹیکسوں سے ملکی
سطح پر فائدہ ہو رہا ہے تو ہمیں منظور ہے، لیکن کم از کم نئی تعمیرات نہیں
ہو سکتیں تو پہلے سے موجود تعمیرات کی دیکھ بھال اور مرمت تو یقینی بنائی
جائے!چنیوٹ روڈ پر واقع چناب پارک حکومت کو کئی ریوینیو نہیں دے پارہا!اور
وہاں کا عملہ مفت میں عوام پر بھار بنا ہوا ہے۔ریوینیو کو بڑھانے کیلئے شہر
میں وسط میں موجود سرکاری عمارتوں (ججز کالونی،ڈی پی او ، ڈی سی او ہاؤسز
)کو بھی شہر کے اطرا ف میں شفٹ کر دیا جائے اور وہاں کمرشل عمارتیں تعمیر
کی جائیں۔اس بارے ضلعی انتظامیہ کو ضرور اقدامات کرنے چاہئیں۔عوام کو سفری
مشکلات سے بچانے کیلئے مصروف ترین شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ان کی جلد
از جلد مرمت کی جائے۔ یونیورسٹی کے قیام میں جس تاخیر کا سامنا ہے اس میں
بھی سیاسی رکاوٹوں کارفرما ہیں! سبھی سیاستدان اپنی تختی اور سیاست کیلئے
اس ازحد تک گر چکے ہیں کہ انہیں بچوں کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں۔گوجرہ روڈ
پر شیخ گروپ نے زمینیں خریدیں کہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد انہیں کاروباری
فائدہ ہوگا! اور موجودہ ایم پی اے معاویہ صاحب نے چنیوٹ روڈ کو اس لئے
ترجیح دی کہ وہاں ان کے والد صاحب نے عمر ابن الخطاب کے نام سے سرکاری زمین
لیز پر منظور کروا رکھی ہے۔ لیکن یونیورسٹی کا قیام چنیوٹ روڈ پر وومن
یونیورسٹی میں ایک اچھا اقدام ہے، اس سے شہر پھیلے گا بھی اور ملحقہ
دیہاتوں تک سہولیات بھی باہم میسر ہو پائیں گی، لیکن دونوں گروپوں کی
کاروباری لڑائی سے نقصان صرف عوام کا ہی ہونے والا ہے۔اس ساری صورحال میں
ضلعی انتظامیہ اور عوامی نمائندوں سے گزارش ہے کہ عوام کے دلوں میں زندہ
رہنے کیلئے عوام کیلئے کام کریں اور ان کے دئیے گئے مینڈیٹ کو اﷲ کی طرف سے
امانت سمجھ کر کام کریں۔ ضلعی انتظامیہ ترقیاتی کاموں میں بدعنوانی سے بچنے
اور مسائل کی نشاندہی کیلئے جھنگ ڈویژن بناؤ تحریک کے متحرک نوجوانوں کی
خدمات حاصل کر سکتی ہے،جنہوں نے عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے ضلع کی
فلاح کیلئے کس قدر مخلص ہیں۔
|