بسم اﷲ الرحمن الرحیم
گزشتہ دنوں بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک تقریب میں کیلاش منشاروور
رابطہ سڑک عوام کے لیے کھولنے کااعلان کیاہے۔یہ رابطہ سڑک بھارت کی ریاست
اترکھنڈ کے پتھوڑاگڑھ کو’’درہ لپولیخ‘‘سے ملاتی ہے۔جب کہ ’’درہ لپولیخ‘‘
دراصل سلطنت نیپال کی ملکیت ہے۔چارکلومیٹرطویل اس رابطہ سڑک پر کام ابھی
جاری ہے اور رواں برس2020ء میں ہی اس کاافتتاح ہونا زیرتکمیل منصوبے کاآخری
مرحلہ ہے۔نیپالی حکومت کے وزیرخارجہ ’’پرادیپ کمارگیاوالی نے بھارتی حکومت
کو خبردارکیاہے کہ نیپالی سرزمین پر کسی بھی قسم کی تعمیرات سے بازرہے۔اس
زمینی تنازع پر فریقین کی بیان بازی کے بعد چینی اخبارات ’’پیپلزڈیلی‘‘
اور’’گلوبل ٹائمز‘‘نے چینی حکومت پر زور دیا کہ اب کی بار چینی قیادت
کوچاہیے کہ نیپال کو دہلی کے ہاتھوں گروی نہ رکھے اوران اخباروں نے بھارتی
حکومت کو بھی انتباہ کیاہے کہ وہ علاقائی تنازعات میں تنگ نظری کا مظاہرہ
نہ کرے اوراپنے مفاد کی خاطر دوسروں کو نقصان کاشکار بھی نہ کرے۔نیپال کی
ریاست کومشرق،مغرب اورجنوب کی تین اطراف سے بھارت نے گھیررکھا ہے،یہ
1808کلومیٹرطویل سرحدہے۔آئے روز نیپالی ذرائع مواصلات سے نیپالی سرحدی
علاقوں پر بھارتی ناجائز دراندازی اور قبضوں کی اطلاعات نشر ہوتی رہتی
ہیں۔نیپالی حکومت کے مطابق ستائیس(27)اضلاع کے علاقے بھارت کے ساتھ اشتراک
میں واقع ہیں جب کہ تیئیس(23) اضلاع کے بہتر(72)مقامات پر بھارتی فوج نے
ناجائز قبضے جمارکھے ہیں۔سرحدی علاقوں کے عوام بھارتی رویوں سے سخت نالاں
ہیں،نیپالی سرحدی باسیوں کاکہناہے کہ بھارتی افواج طاقت کے بل بوتے پرانہیں
ان کے کھیتوں سے بے دخل کر دیتے ہیں اور سرحدی علاقوں میں جب کبھی بھی
مقامی لوگ کوئی بڑی عمارت یا کوئی پل یا سڑک تعمیر کرتے ہیں تو بھارتی فوج
ان تعمیرات وترقیات کو منہدم کر دیتی ہے۔
درہ لیپولیخ (Lipulekh Pass)دراصل 17060فٹ کی بلندی پر واقع کوہ ہمالیہ کی
بلندیوں کے درمیان ایک سخت گزار پہاڑی راستہ ہے۔یہ درہ تین ممالک چین،بھارت
اور نیپال کے درمیان سرحدات کے تعین کافریضہ بھی سرانجام دیتاہے۔پہاڑی
راستہ چونکہ جگہ جگہ سے مڑ رہاہوتاہے اس لیے یہ درہ بیک وقت تینوں ممالک سے
ہو کر گزررہاہے۔یہ درہ قدیم تاریخ میں چینی تبت اورہندوستان کے درمیان
شاہراہ تجارت کے طورپر استعمال ہوتارہاہے اس کے علاوہ قیلاش میں واقع ایک
مقدس پہاڑی کی زیارت کے لیے بھی ہندوستانی زائرین اسی درے سے گزرکر تبت میں
آتے تھے۔یہ پہاڑی اور اس میں موجود ایک مقدس جھیل ’’ماناساروار‘‘کے بارے
میں ہندؤں کاعقیدہ ہے کہ جواس میں اشنان کرتاہے یعنی نہا لیتاہے وہ موت کے
بعدسیدھا ’’بھگوان شو‘‘ کے گھرجائے گا اور اس کے سارے گناہ معاف ہوجائیں
گے۔یہ ایک صاف اور میٹھے پانی کی جھیل ہے جوبدھ مت میں بھی تقدیس کامقام
رکھتی ہے کیونکہ اس مذہب کی تاریخ کے مطابق سری مہاتمابدھ کی والدہ اسی
مقام پر حاملہ ہوئی تھیں۔تبت کامشہور تجارتی شہر’’پورنگ‘‘اسی درہ لیپولیخ
پرواقع ہے۔
نیپالی نقشے کے مطابق جنوبی نیپال میں140مربع کلومیٹر کالاپانی
’’دارچولا‘‘نامی ضلع اور’’سودورپاشچیم پردیش‘‘نامی صوبہ میں یہ جودرہ
لیپولیخ واقع ہے، سلطنت نیپال کاحصہ ہے۔لیکن بھارت نے ایک عرصے سے اس درہ
پر غاصبانہ قبضہ جمارکھاہے اوربھارت اورنیپال کے درمیان 1998ء سے یہ درہ
سرحدی تنازعات کا شکارہے۔نیپال کایہ دعوی ’’سگوالی معاہدے‘‘کی بنیادپر ہے
جو4مارچ 1816ء میں ایسٹ انڈیاکمپنی اورشاہ نیپال کے درمیان طے
پایاتھا۔’’سگوالی معاہدہ‘‘برطانیہ نیپال جنگ کے اختتام پر کیاگیاتھا۔اس
معاہدے میں ’’کالی دریا‘‘سمیت اس علاقے کی سرحدات کاتفصیلی تعین
کردیاگیاتھا۔بھارت کاموقف ہے کہ ’’کالی دریا‘‘اس جگہ سے شروع ہورہاہے جہاں
تینوں ممالک چین،بھارت اور نیپال کی سرحدیں ملتی ہیں،اس لیے اس دریاپر
بھارت کابھی حق ہے۔اگربھارت کا یہی اصول ہی مانا جائے تو کشمیرسے نکلنے
والے سارے دریاؤں پر پاکستان کاحق بنتاہے۔لیکن سیکولرازم چونکہ قوم شعیب
کاپیروکار ہے اس لیے ان کے لینے کے پیمانے اور دینے کے پیمانے جداجداہیں۔جب
کہ حقیقت یہ ہے کہ ’’کالی دریا‘‘لیپولیخ کے مقام سے برآمدہورہاہے جو کہ
بالیقیں نیپال کاحصہ ہے۔نیپال اور بھارت کے درمیان سب سے پہلے یہ مسئلہ اس
وقت کھڑاہواجب 1997ء میں نیپال نے اس مقام پر ایک پن بجلی گھربنانے کا
منصوبہ تیارکیا۔تب بھارت نے اعتراض کیاکہ یہ جگہ اس کی ملکیت ہے۔نیپال نے
1856ء میں تیارکیاہوا برطانوی ہندوستان کا نقشہ پیش کیاجس میں یہ علاقہ
واضع طورپر ریاست نیپال کاحصہ دکھایاگیاہے۔بھارت نے یہ غاصبانہ قبضہ 1962ء
کی بھارت چین جنگ کے موقع پر کیاتھا،اس وقت شاید یہ اس کی عسکری مجبوری ہو
گی لیکن بعد میں یہ علاقہ بدمعاشی مجبوری کے تحت اپنالیا گیا۔
1992ء میں پہلی دفعہ یہ راستہ چین بھارت تجارت کے لیے کھولا گیا،اس راستے
میں لیپولیخ کی چوکی بھارت کاپہلا سرحدی مقام پڑتاہے۔2015ء میں بھارتی
وزیراعظم کے دورہ چین کے بعد چین اور بھارت کے درمیان ’’درہ لیپولیخ‘‘کو
تجارت کے لیے کھولنے پراتفاق ہوگیاتھااور یہ درہ جون تا ستمبرتک ہر سال
کھلتاہے۔بھارت نے اپنی دیرینہ ہمسایہ دشمن کی پالیسی کے مطابق اس معاہدے کی
آڑمیں مذکورہ درہ کے کچھ نیپالی علاقوں پر قبضہ کیاہواہے۔اب اس علاقے میں
ایک سڑک بھی تعمیرکررہاہے جس پر نیپال کو شدید تحفظات ہیں۔نیپال کی
پارلیمان نے اپنی ایک قراردادمیں بھارت کی اس نازیباحرکت کو نیپالی
اقتداراعلی کی خلاف ورزی بھی قراردیاہے اور بھارت سے مطالبہ کیاہے کہ اپنی
افواج کو وہاں سے پیچھے کے مقامات پر اپنی ریاست کے اندر لے جاکر نیپالی
علاقے خالی کردے۔نومبر2019ء میں نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈومیں ایک بہت
بڑامظاہرہ ہواجس میں نیپالی عوام نے بھارت کی طرف سے جاری کردہ اس نقشے کی
بھرپورمخالفت کی اور مظاہرین نے پوری شدت سے اس نقشے کی مذمت کی اور اسے
مسترد کردیاجس میں بھارت نے کالاپانی کو بھارتی سلطنت کاحصہ
دکھایاگیاتھا۔اس کے جواب میں نیپال کی جرات مندقیادت نے 20مئی 2020ء کواپنی
ریاست کاایک نقشہ جاری کیاہے جس میں کالاپانی کو نیپال کاحصہ دکھایاگیاہے۔
ہندوستان دیگرہمسایہ ممالک کی طرح نیپال کوبھی اپنی باجگزارریاست سمجھتاہے
یابناناچاہتاہے۔جب کہ نیپال جوآئینی طورپردنیاکی واحد ہندوریاست ہے ، 1960ء
کے بعد سے چین کے ساتھ اپنے تمام سرحدی نتازعات طے کر کے ایک پرامن ملک بن
کررہ رہاہے۔نیپال اورچین نے متعدد بارہندوستان کو بھی سرحدی مسائل حل کرنے
کی دعوت دی،لیکن ہزاروں سالوں سے غلام رہنے والابرہمن آداب حکمرانی سے
نابلدہے اور خود کو مذہبی پروہت سمجھ کر صرف اپنی پوجاکراناچاہتاہے۔تب سے
اب تک چین نیپال تعلقات انتہائی مثالی ہیں یہاں تک کہ نیپال نے چین کو کو
سارک کارکن ملک بنانے کی بھی حمایت کی ہے جبکہ نیپال بھارت تعلقات انتہائی
کشیدہ ہیں۔1975ء میں ہمالیہ کی ’’سکیم خاندان‘‘کی بادشاہت ختم ہونے کے بعد
نیپال کے بادشاہ شاہ بندرانے پیشکش کی کہ چین اور ہندوستان کے درمیان
نیپالی ریاست پرامن علاقے کے طورپر کام کرے گی۔لیکن بھارت کو کسی بھی
ہمسایہ ملک کے ساتھ یہ امن کبھی پسندنہیں رہا۔نیپال میں1996ء تا2006ء کی
خانہ جنگی میں بھارت نے بہت منفی کرداراداکیااورباغیوں کی سرکوبی کے لیے
نیپال کو ہتھیارفراہم کرنے سے بھی انکارکردیا۔اس کے مقابلے میں چین نے
نیپال کو ہتھیار بھی فراہم کیے اوراخلاقی و دیگرمعاونت وحمایت بھی جاری
رکھی۔اس کے منطقی نتیجے میں 2008ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ماو نواز
اشتراکی جماعت برسراقتدارآگئی اور اس جمہوری اشتراکی قیادت نے آتے ہی بھارت
کے ساتھ تمام معاہدے ردی والی ٹوکری کی نذرکر دیے اور چین کے ساتھ اپنے
تعلقات کو مہمیزدینے لگی۔تب سے بھارت نیپالی تعلقات کمزورہوتے ہوتے آج اس
مقام پر پہنچے ہیں ان کے مابین سرحدی تنازعات عالمی خبروں کاموضوع بننے لگے
ہیں۔
بھگوت گیتا سمیت متعدد کتب کے مصبف ’’شنکراچاریہ(788-820)‘‘جو ہندؤں کے
قدیم فلسفی اورماہرالہیات ہیں ،نے اپنی کتب میں لکھاہے کہ پڑوسی کبھی
اچھادوست ثابت نہیں ہو سکتا۔بھارت اسی کے فلسفے پرعمل پیراہے کہ وہ کبھی
اچھادوست نہ بن پائے۔بھارت کے اطراف میں بسنے والے تمام ممالک کے باہمی
تعلقات بہت اچھے ہیں لیکن بھارت کے کسی پڑوسی ملک سے اچھے تعلقات نہیں
ہیں۔لفظ’’ہندو‘‘کامطلب نوکراورغلام اور خدمت گار ہے،پس جس قوم کی سرشت میں
غلامی لکھی ہواسے حکمرانی کے شعائر کبھی نہیں سوجھ سکتے،نسلوں سے ہاتھ جوڑ
کر زندگی گزارنے والے ذلت اور پستی کے خوگرکبھی بھی ہاتھ بلندکر کے تکبیر
پڑھنے والوں کے برابرنہیں ہوسکتے۔آج جہاں دس ریاستیں
ہیں،ہندوستان،پاکستان،بنگلہ دیش،بھوٹان،سری
لنکا،نیپال،انڈونیشیااورملائیشیاکی سرحدی علاقے،افغانستان اور ایران کے
مغربی صوبے،یہ سب مسلمانوں کے زیراقتدار مثالی امن آشتی وخوشحالی کے ساتھ
سینکڑوں سالوں تک ہنستے بستے آبادرہے۔لیکن گورے سامراج کے تعیناتی برہمن
پنڈت اورخاندانی پروہتوں نے آج اس سرزمین پیارومحبت پر آگ کے جلتے ہوئے
آلاؤ میں انسانوں کوجھونک رکھاہے ۔ہندوستان سمیت کل برصغیرکے غریب اور
مفلوک الحال عوام آج پھر کسی محمدبن قاسم نامی مسیحاکے منتظرہیں جو برہمن
کی چیرہ دستیوں سے انہیں نجات دلائے گا،ان شااﷲ تعالی۔
|