پاکستان کے اولین وزیراعظم
زوالفقار علی بھٹو مرڈر کیس کی شنوائی آجکل سپریم کورٹ میں پورے جاہ و جلال
سے جاری ہے۔ عدل کے منصف ججز کا رویہ انتہائی خوشگوار ہے۔چیف جسٹس چوہدری
افتخار حسین اور انکے ہم نشین ساتھیوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو
ریفرنس میں عدلیہ کو خاصی دلچسپی ہے کیونکہ بھٹو کیس اور ریفرنس کو دنیائے
قانون میں تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ روئے ارض کا کوئی حکمران جو سڑک چھاپ ہو
یا اسکا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہو وہ فرعون ہو یا نمرود جرنیل ہو یا فیلڈ
مارشل قانون ساروں کے لئے ایک جیسا ہوتا ہے۔دنیا کی تاریخ کا مشاہدہ کرنے
سے یہ بھید کھلتا ہے کہ وہی قومیں ترقی کا اوج ثریا پانے میں کامیاب ٹھریں
جنہوں نے انصاف کے پرچم کو اونچا رکھا مگر وہ حکمران قصہ پارینہ بن گئے جو
شخصی آمریت کا امرت دھارا تھے۔ بھٹوز دشمنی میں اندھے ہوکر ریفرنس کو ہدف
تنقید بنانے والے تاریخ سے نابلد ہیں ۔ بھٹو کیس دراصل تاریخ کی درستگی کا
معاملہ ہے۔ جبران نے کہا تھا کہ تاریخ کی درستگی کے عمل کا دائرہ کار صدیوں
پر محیط ہوتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ بھٹو اس معاملے میں خوش بخت واقع ہوئے
کیونکہ انکے پاکباز دامن پر قتل ایسے بودے جرم کے تاریک دھبے کو دھو دینے
کا عمل تین دہائیوں میں مکمل ہونے جارہا ہے۔ ایک ظلم تو یہ ہے کہ جرنیلوں
نمرودوں اور فرعونوں نے ریاستی قوت کی جبروت و سطوت سے حق و سچ کے
علمبرداروں کو قانون کی سولی پر چڑھا دیا۔پاکستان کی ہسٹری تو اس معاملے
میں کافی بدنام ہے ۔ جرنیلوں نے اپنی حاکمیت کے لئے سیاسی رہنماؤں کو
برسرعام تشدد کا نشانہ بنایا تو کبھی اغیار کے اشاروں پر منتخب وزرائے
اعظموں کا دھڑن تختہ کیا۔ضیائی ہرکارے تو یذیذ کو مات دے گئے۔ قائد عوام کو
استعماریوں کی خواہش پر پاکستان میں عدالتی قتل کی بنیاد رکھنے والے چیف
جسٹس سپریم کورٹ انوار احمد خان کے ہاتھوں مروایا گیا۔ بھٹو ریفرنس عدلیہ
میں زیر سماعت ہے۔ پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں کہ کیا وہ
ایٹمی قوت کے خالق جمہوریت کے پاسبان ریاست کے پہلے متفقہ آئین کے دانشور
اور تخلیق کار بھٹو کیس میں عدالتی دھاندلی کو بے نقاب کر کے عدلیہ کے
ماتھے پر موجود کینگرو کورٹ کا داغ دھو سکے گی۔یاد رہے کینگرو کورٹ کے
الفاظ پہلی دفعہ امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل مزے کلارک نے اس وقت استعمال
کئے تھے جب 1978 میں سپریم کورٹ میں بھٹو کیس کی سماعت ہورہی تھی۔رمزے
کلارک نے کیس کے دوران پائے جانیوالے تضادات، ججز کی دھاندلی اور یک طرفہ
فریق بن جانے کے بعد کینگرو کورٹ کی ورد زبانی کی تھی۔ ماضی کے دریچوں میں
جھانکا جائے تو پچھلے90 برسوں میں23 وزرائے اعظموں کو مختلف مقدمات میں
سزائیں ہوئیں۔8 کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ پھانسی کی صلیب پر جھولنے والے 4
وزیراعظم ہنگری کے تھے۔ بھٹو کی جمہوری حکومت کو ضیائی ڈکٹیٹر نے5 جولائی
1977کو تیاپانچہ کیا۔قائد عوام کو3 ستمبر1977 میں گرفتار کیا گیا۔ضیا الحق
کو آقا و ملجی مان لینے والے ججز نے فروری1979 میں نواب قصوری کے قتل کے
فرضی جرم میں پھانسی کی سزا سنائی اور پھر4 اپریل1979 ہماری عدالتی سیاسی
تاریخ کا وہ بدقسمت دن ہے جب قائد عوام تختہ دار پر جھول گئے۔ صدر زرداری
بینظیر بھٹو اور نواز شریف بھی عدالتوں کے زریں فیصلوں کی بھینٹ چڑھے۔دختر
مشرق کو1999 میں عدالت میں پیش نہ ہونے کی پاداش میں سزا سنائی گی جسے بعد
ازاں سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا۔زرداری اور بی بی کو سوئس بنک کیس میں5 سال
قید اور8.6 ملین ڈالر جرمانے کی سزا کا ناروا فیصلہ سنایا مگر بعد میں
ثبوتوں کی عدم فراہمی پر سپریم کورٹ نے سزا منسوخ کردی۔ نواز شریف کو2002
میں کرپشن کیس میں چودہ سال کی مشرفانہ سزا کا حقدار ٹھرایا گیا۔ علاوہ
ازیں انہیں اکیس سال کے لئے نااہل اور20 ملین جرمانے کا تحفہ بھی
ملا۔اکتوبر1999 میں نواز شریف کو مشرف کے اغوا ہائی جیکنگ اور قتل کی سازش
تیار کرنے پر ملٹری کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی۔ امیر ترین لوگوں کی
عالمی فہرست میں118 واں نمبر رکھنے والے اٹلی کے وزیراعظم سلویر برنسکونی
تین مرتبہ وزیراعظم بن چکے ہیں۔1994 تا2006 کے درمیانی عرصہ میں اٹالین
وزیراعظم پر کم سن لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کے درجنوں کیسز اور سینکڑوں
الزامات عائد ہوئے۔وہ577 مرتبہ پولیس تفتیش کے لئے تھانوں جبکہ2530 مرتبہ
عدالتوں کے چکر کاٹ چکے ہیں۔ ان پر کرپشن کے سنگین ترین اور ہوشربا مقدمات
قائم ہیں۔2009 میں تھائی وزیراعظم کو محض آئین کی معمولی شکنی کرنے پر
اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ تھائی وزیراعظم نے ٹی وی کے کوکنگ شو میں شرکت
کی تھی۔ تھائی آئین کی رو سے وہ اس پروگرام میں شرکت کے مجاز نہ تھے۔ کوکنگ
انکے اقتدار کو لے ڈوبی مگر اٹالین وزیراعظم آج تک نہ تو جیل گئے اور نہ ہی
وہ قانون و آئین کی حرمت کو فرض سمجھتے ہیں۔ وہ ریاستی عدالتی نظام کی
موشگافیوں کی وجہ سے اقتدار سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ یونان کے وزیراعظم
گونارس پر غداری کا مقدمہ قائم ہوا اور انہیں پھانسی کی سزا ہوئی۔
اکتوبر1945 میں فرنچ وزیراعظم پریر الاول کو غداری کے جرم میں فائرنگ سکواڈ
کا نشانہ بنے۔ فرانس اس دور میں چار ملکی اتحاد کا حصہ تھا جس میں اٹلی
جرمنی جاپان اور فرانس شامل تھے۔ معتوب فرنچ وزیراعظم کا قصور صرف اتنا تھا
کہ اسکی سرکار نے یہودیوں کو شرپسندی عیاری اور شاطری کے جرائم میں فرانس
سے نکال دیا تھا اور یہی جرم انکی غداری اور موت کا سبب بنا۔1945 میں ہنگری
کے وزیراعظم کو نازیوں سے تعلقات رکھنے کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ہنگری کے
ایک وزیراعظم لوسر لوہادو کو عوامی ٹریبونل نے موت کی وادیوں میں دھکیل
دیا۔ہنگری کے تین وزیراعظم1945 میں نازیوں کی حمایت کی پاداش میں مجرم
برائے وطن فروشی قرار پائے اور اگلے سال1946 میں سماعت مکمل ہونے کے بعد
پھانسیوں کے شرف سے ہمکنار ہوگئے۔1998 میں رونڈا کے عبوری وزیراعظم جین
بانڈا کو نسل کشی کے جرم میں عمر قید کی سزا دی گئی۔2002 میں اطالوی
وزیراعظم کو صحافی کو قتل کرنے کے جرم میں21 سال قید کی سزا سنائی گئی۔1948
میں جاپانی وزیراعظم بی ویکی کو جنگی جرائم کی پاداش میں موت کی سزا دی گئی
انکا اصل جرم دوسری جنگ عظیم میں جاپانی فوج کی قیادت کرنا تھا۔ ویسے تو
دنیا کی عدالتی تاریخ میں حکمران طبقات کی سزاوں کے ہزاروں واقعات درج ہیں
مگر ان میں سے کوئی کیس بھٹو کے مقدمے سے لگا نہیں کھاتا۔ بھٹو کو اعانت
جرم میں پھانسی دی گئی اور پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ اعانت کے جرم میں
کسی پاکستانی کو موت کی سزا دی گئی۔بھٹو کیس کی سماعت کرنے والا سات رکنی
بنچ فیصلے کے حوالے سے تقسیم ہوگیا۔ تین ججز نے بھٹو کی رہائی اور چار نے
موت کی سزا کا حکمنامہ سنایا۔ بھٹو کی روح پاکستانی سپریم کورٹ سے انصاف
طلب کررہی ہے۔ عدلیہ نے اگر بھٹو ریفرنس کیس میں قائد عوام کو باعزت بری
کرنے کا منصفانہ فیصلہ نہ دیا تو پھر ملکی تاریخ کی واحد اور ماضی کے
مقابلے میں طاقتور آزاد و خود مختیار تصور کی جانیوالی سپریم کورٹ پر عوامی
اعتماد کم ہوجائے گا۔کیا سپریم کورٹ کی موجودہ قیادت کسی سٹیج پر عدلیہ کے
وقار کو دھچکا لگنے کا رسک لے سکتی ہے یا عدلیہ کا فل بنچ مشرف کی ایمرجنسی
اور ڈکٹیٹرشپ کو قصہ پارینہ بنا دینے والے تابناک فیصلوں کی تاریخ دہرائے
گی؟ انتظار کریں فیصلے کی گھڑی ان پہنچی۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے کسی
کونے میں معصوم وزرائے اعظموں کو پھانسی کی سزائیں سنانے والے ججز اور
ڈکٹیٹر تاریخ کی تاریک اور شرمناک راہوں میں گم ہوگئے تاہم ملک و قوم کی
خاطر پھانسی پر جھول جانے والا حکمران بھٹو ہو یا ترکی کا عدنان مندریس
عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گیا جو تاابد انکی عقیدت کے گیت گاتی رہے گی۔
بھٹو نے تین اپریل1979 میں دختر مشرق کے ساتھ آخری ملاقات میں درست ہی کہا
تھا خلق خدا گائے گی گیت میری۔ |